سرور کائنات ﷺ کی سنت اور آپ کا اسوہ یہ ہے کہ جب آدمی
بیمار ہو،صحت خراب ہو تو علاج کرایا جائے۔اس لئے جوشخص علاج کراتا ہے وہ
سنت پر عمل کرتا ہے اور جو نہیں کراتا وہ سنت کو ترک کرتا ہے۔علاج نہ
کراناکسی فضیلت کا باعث ہوتا تو یقیناًآپ ﷺ اس سے احتراز فرماتے۔
’’ بیماری ‘‘گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہے :
حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس مسلمان کو جو کوئی تکلیف پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اس
کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے بدلے کوئی نا
کوئی گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے
’’ الحمی من فیح جھنم ‘‘یہ بخار جہنم کی گرمی کا حصہ ہے(بخاری شریف باب صفۃ
النار) علمائے کرام نے اس حدیث پاک کی مختلف تشریحات کی ہیں بعض علماء نے
اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ یعنی جہنم میں جو گرمی برداشت کرنی پڑتی
ہے اس کے بدلے میں اللہ نے یہ گرمی دے دی تاکہ اس بخار کی وجہ سے وہ گناہ
دنیا ہی کے اندر دھل جائے اور معاف ہو جائے۔اللہ کے نبی ﷺ جب مریض کی عیادت
فرماتے تو فرماتے ’’ لاباس طھورانشاء اللہ‘‘ یعنی کوئی غم نہ کرو یہ بخار
تمہارے گناہوں سے پاکی کا سبب اور ذریعہ بن جائے گا۔
بیماری اور اس کا علاج :
پارہ 7؍ رکوع 7؍سورہ انعام آیت نمبر 16؍ وَ اِنْ یَمْسَکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ
فَلَاکَاشِفَ لَہٗ اِلَّا ھُوْ ط وَ اِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلیٰ
کُلِّ شَیءٍ قَدِیْر، وَھُوَ الْقَاہِرُ فَوْ قَ عِبَادِہٖ ط وَھُوَ
الْحَکِیْمُ الْخبِیر۔اگر تجھے اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی
دور کرنے والا نہیں ۔اگر تجھے بھلائی آرام پہنچائے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے
اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور حکمت والا جاننے والا ہے(ترجمہ کنز
الایمان)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول
نے فرمایا اللہ نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے اور بیماری سے زیادہ قوت
(شفاء)دوا میں رکھی ہے۔اس سے علاج کی اہمیت اور افادیت سامنے آتی ہے آپ ﷺ
نے علاج کروایا اور لوگوں کو بکثرت دوائیں و علاج بتائے۔اس کی وجہ سے اُم
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی طبی معلومات اتنی زیادہ ہو گئی تھی
کہ لوگ اکثر علاج پوچھنے آتے تھے اور تعجب کرتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف
امراض کی دوائیں اور ان کے علاج بتائے۔صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین
کو علاج کا مشورہ دیا اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ۔علاج کو توکل کے
منافی سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ آدمی اسباب و
وسائل کو اختیار نہ کرے ۔ بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اصل اعتماد
اسباب و وسائل پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہو۔وسائل کو اختیار کئے بغیر جو
توکل کیا جائے وہ توکل غلط قسم کا توکل ہوگا۔بیماری میں توکل یہ ہے کہ آدمی
دوا علاج کرنے کے باوجود اللہ پر بھروسہ رکھے اور مرض اور شفاء سب کو رب کی
جانب سے سمجھے۔
رحمت کاملہ کا سایہ :
حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس بندے پر میں نے
ایک بیماری نازل کی اور اس پر اس نے صبر کیا اور لوگوں سے اس کا شکوہ شکایت
نہیں کی ۔اب اگر میں اس کو صحت دونگا تو اس سے بہتر گوشت و پوشت اس کو
دونگا۔*حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے حضرت عزیر
علیہ السلام پر وحی بھیجی اگر تجھ پر کوئی بلانازل ہو تومیری مخلوق کے پاس
شکایت سے بچنا۔اور میرے ساتھ ایسا معاملہ کر جیسا کہ میں تیرے ساتھ کرتا
ہوں کیوں کہ جس طرح میں تیری شکایت فرشتوں کے سامنے نہیں کرتا اس وقت جب
تیرے برے اعمال میرے سامنے آتے ہیں ایسے ہی تجھے مناسب ہے کہ جب تجھ پر
کوئی مصیبت و بلا و بیماری آئے تو میری شکایت سے پرہیز کیا کرو۔کیونکہ شکوہ
شکایت سے تیرا دشمن خوش ہوگااور دوست غمگین ہوگا۔
بیماری پر صبر اور اس پر انعام :
وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْن۔اللہ صبر کرنے والوں کو محبوب رکھتا
ہے(ترجمہ)۔ جو شخص عبادت الٰہی پر صبر کرتا ہے اور ہر وقت عبادت میں مصروف
رہتا ہے اسے قیامت کے دن اللہ 300؍ایسے درجات عطا فرمائے گا جن میں ہر درجہ
کا فاصلہ زمین و آسمان کے برابر یعنی دوری ہوگی۔جو اللہ کی حرام کی ہوئی
چیزوں پر صبر کرے گا اسے 600؍درجات بلندی عطا فرمائے گا جن میں ہر درجہ کا
فاصلہآسمان تا ساتویں آسمان کے برابر ہوگااور جو مصائب و بیماری پر صبر
کرتا ہے اسے 700؍ درجات عطا ہونگے ہر درجہ کا فاصلہ تحت الثریٰ سے عرش علیٰ
کے برابر ہوگا(مکاشفۃ القلوب جلد اول صفحہ 50)۔ حدیث پاک میں ہے جو شخص رات
بھر بیمار رہا اور صبر کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوا(اور بیماری کا
ہو ہلہ نہ کیا) تو وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گاجیسے کے اپنی
پیدائش کے وقت تھااس لئے جب تم بیمار ہو جاؤ تو عافیت کی تمنا کرو۔
بیماری اوررنج و غم گناہوں کو مٹا دیتے ہیں: حضرت علامہ ضحاک رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں جو شخص 40؍ راتوں میں ایک رات بھی گرفتار رنج و الم نہ ہوا اللہ
تعالیٰ کے یہاں اس کے لئے کوئی خیر اور بھلائی نہیں۔
جھوٹے بیمار کا عذاب:
حدیث پاک میں ہے لا تمارضوفتمرّضوفتموفتدخلو النار جھوٹا بیمار مت بنوکہ
حقیقت میں بیمار بن جاؤگے اور مر جاؤگے تو جہنم میں جاؤگے(ترجمہ)۔خدا سے
ہمیشہ ڈرو کہ جھوٹا بیمار بننے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حقیقت میں بیمار
کر دے اور عاقبت خراب ہونے کا خوف الگ سے دامن گیر ہو (حوالہ الملفوظ حصہ
چہارم صفحہ 35، خطبات محرم صفحہ 539)۔
تعزیت کرنا بھی عبادت ہے: مولائے رحیم نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے
دروازے کھول رکھے ہیں جو شخص چاہے اپنے ظرف کے مطابق اس سے فائدے حاصل کر
سکتا ہے فرائض و واجبات کی اہمیت سے تو مسلمان ایک حد تک واقف ہیں، لیکن
بہت سی باتیں جن کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی جاتی ہیں حالانکہ وہ اللہ کے
نزدیک بہت اہم ہوتی ہیں انہی میں سے عیادت (بیمار پُرسی)تعزیت (مصیبت زدہ
کی تسلی و دلجوئی)کرنا جن کی بڑی فضیلت اور بڑا ثواب ہے کبھی کسی مصیبت زدہ
کی معمولی سی ہمدردی ہمیشہ کے لئے اس کو ہمدردی کرنے والے سے منسلک کر دیتی
ہے۔حدیث میں عیادت و تعزیت کے بہت سے فضائل ہیں مسلمانوں کے مسلمانوں پر جو
حقوق ہیں ان میں، عیادت اور جنازہ بھی شامل ہے قال رسول اللہ ﷺ حق المسلم
علیٰ المسلم خمس روا سلام و عیادۃ المریض و اتباع الجنائز واجابۃ الدعوۃو
تشمیت العاطش (بخاری و مشکوٰۃ) سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کا
دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینااور بیمار کی عیادت کرنا اور
جنازے کے پیچھے چلنااور دعوت کا قبول کرنااور چھینکنے والے کا جواب دینا(جب
چھینکنے والا الحمد للّٰہ کہے تو اس کو یرحمک اللّٰہ کہنا)(ترجمہ)۔لوگ ان
باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان باتوں کی
پُرسش فرمائے گا۔حدیث پاک میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے
دن فرمائے گاکہ اے آدمی میں بیمار ہواتو تو نے میری عیادت نہیں کی ،وہ عرض
کرے گا اے پروردگا میں تیری عیادت کیسے کرتا، تو تو پروردگار عالم ہے، اللہ
فرمائے گا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے
اس کی عیادت نہیں کی ۔ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا
تو مجھ کو اس کے نزدیک پاتا۔اے آدمی میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تونے مجھ
کو نہیں کھلایا وہ عرض کرے گا کہ میں تجھ کو کیسے کھلاتا تو تو پروردگار
عالم ہے اللہ فرمائے گا کہ کیا تجھ کو علم نہیں کہ میرا فلاں بندے نے تجھ
سے کھانا مانگا تو تو نے اس کو نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس
کو کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب مجھ سے پاتا؟ اے آدمی میں نے تجھ سے پانی
مانگا تو تو نے مجھ کو پانی نہیں پلایا۔وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگا ر
میں تجھ کو کیوں کر پانی پلاتا ۔تو تو پروردگار عالم ہے ۔ اللہ فرمائے گا
کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تو تونے اس کو پانی نہیں پلایا اگر
تو اس کو پانی پلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔سبحان اللہ سبحان اللہ!
قربان ہو جائیں پیارے اسلامی بھائیومولائے رحیم کی کرم نوازی پر۔
بیمار پُرسی و تعزیت کے فضائل:
جو شخص بیمار کی عیادت کرتا ہے،اگر وہ صبح کو عیادت کرے گا تو صبح سے شام
تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور اگر شام کو عیادت کرے گا تو شام
سے صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور اس کو عیادت کا
ثواب جنت میں ایک باغ کی شکل میں ملے گا۔عیادت کی فضیلت و برکت یہ بھی ہے
کہ عیادت کرنے والے کوآسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ تیری
زندگی اچھی ہوئی اور تیرا چلنا اچھا ہوااور تیرا مقام جنت کے ایک مکان میں
ہوگا یعنی عیادت کی برکت سے دنیا اور آخرت میں اچھی زندگی حاصل ہوگی۔ایک
مسلمان کی عیادت خود بھی جنت کے باغ کے سیر کے برابر ہے اور اس کا بے
انتہاثواب ہے۔
عیادت کا اسلامی طریقہ :
جب مریض کی عیادت کو جائے تو اس سے اس طرح سے باتیں کرے کہ اس کی طبیعت میں
فرحت و سرور پیدا ہواور مرض کی شدت کے سبب اس کو موت کا خطرہ ہو تو اس کو
اپنی دلچسپ باتوں سے دور کرنے کی کوشش کرے اور اس کے مرض کو معمولی بتائے
اور کہے کہ آپ جلد اچھے ہو جائیے گا(حدیث)دوسری حدیث پاک میں اللہ کے رسول
ﷺ نے فرمایا تم بیمار کے پاس جاؤ،تو اچھی باتیں کر کے اس کے دل سے موت کا
خطرہ دور کردو۔بلا شبہ اس سے کوئی چیز دور نہیں ہوگی مریض کا دل خوش ہوگا۔
بیماری پر کفریہ لفظ گناہ ہے،کلمات کفر کی چند مثالیں:(۱) اللہ نے مجھ کو
بیمار کر کے مجھ پر ظلم کیا ہے(معاذ اللہ)، اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے یہ
کلمۂ کفر ہے (حوالہ البحر الرائق،جلد 5؍ صفحہ 209)
(۲)جو شخص مصیبت میں ہو اور بیمار ہو ،یہ کہے اے اللہ تونے مال لے لیا
،فلاں چیز لے لی،اب کیا کرے گایا اب کیا باقی رہ گیا ہے یا اب جان لے لے
گایہ قول کفر ہے(بہار شریعت جلد 9؍ صفحہ 172)۔
(۳)کسی مسکین اور بیمار نے اپنی محتاجی اور بیماری کو دیکھ کر یہ کہا یا
اللہ میں بھی تیرا بندہ ہوں اور میں بیمار ہوں اور تیرا فلاں بندہ عیش و
عشرت میں ہے ،آخیر یہ کیا معاملہ ہے کیا یہ ہی تیرا انصاف ہے ایسا کہنا
کلمۂ کفر ہے(بہار شریعت جلد 9؍ صفحہ 170)۔
(۴)جو کہے اللہ نے مجھ مجبور کو بیمار کر کے اور پریشان کیا ہے(معاذ اللہ)
یہ کلمۂ کفر ہے(فتاویٰ عالمگیری جلد 2؍صفحہ260)۔
اللہ پاک ہم سبھی کو بیماری،عیادت اور تعزیت کے احکام جاننے اور سمجھنے عمل
کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین ثم آمین۔- |