ٹی وی کے بد اثرات کے تحت ہزاروں آرٹیکلز لکھے جاچکے
ہیں۔اور ہر طبقہ اس بات سے عام طور پر متفق ہے کہ ٹی وی اور پھر اس میں نشر
ہونے والے دنیا بھر کے چینلز چاہے وہ نیوز کے ہوں، انٹرٹینمنٹ کے ہوں، بچوں
کے ہوں یا کھیل کے۔۔تماموںمیں اجتماعی طور پر بے حیائی کے افعال انجام دئے
جاتے ہیں۔اور فیملی کے تمام افراد اجتماعیت کے ساتھ یہ فعل بد انجام دیتے
ہیں۔ (اس سے کسی کو انکار بھی نہیں)
لیکن کتنا پرسنٹ ایسا ہے جو اس قبیح فعل اور اس شیطان مردود کو گھر میںلانے
سے پرہیز کرتے ہیں (کھانے میں نمک کے برابر یا اس سے بھی کم، یا “نہیںکے
برابر”)اب ہم یہ بحث کرنے بیٹھ جائیں کہ نہیں بابا۔۔۔ٹی کے فوائد بھی تو
بہت ہیںنا۔۔۔۔اور ہم ساری دنیا سے کٹ کر بھی تو نہیں رہسکتے نا۔۔۔وغیرہ
وغیرہ۔۔۔(اور پھر یہ تو اب زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے)ٹھیک اس سے کسی کو
انکار نہیںکہ ہزاروںچیزیں ہماری زندگی کا جز بن کر رہ گئی ہیں۔۔لیکن ایسی
جزئیات ہی میں تو انسان کی انسانیت “گم ہوکر رہ گئی ہے نا”
ہم کبھی بھی میڈیا کے خلاف نہیں ہیں۔لیکن میڈیا کے گھناوونے اشکال کو دیکھ
کر کیوں ہماری روحین تڑپ کر نہیںرہجاتیں۔؟کھیل کود،ڈرامہ،فلمز،انٹرٹینمنٹ
،کی جو بھی شکلیںہوں اگر وہ خلاف شرع ہو تو کسیے ہم ان سبکو اپنی زندگیوں
کا حصہ بناسکتے ہیں، یہ سوال کٹھن اور چبھتا ہوا ضرور ہے لیکن حقیقت یہ ہے
کہ اسکا جواب ہماری آنکھ بند ہوتے ہی ہمیں خود کے بارے میں ہی نہیںبلکہ
ہماری فیملیوںاور ہمارے آس پاس کے ماحول کے مطابق ہماری ذمہ داریوںکے
تئیں ہم نے کتنا اسے ادا کیا، ضرور پوچھا جانیوالا لازمی سوال ہے۔!
بے حیائی کے انداز اختیار کرنیوالی فیملیز کا ذکر چھوڑیں، مذہبی طور طریقے
رکھنے والے گھروں میں بھی اگر ٹی وی جیسی لعنت اپنے تمام تر فتنوںکے ساتھ
گھروںکی زینت بنی رہے تو کیسے ہم ہماری اولادوں کے مستقبل اسلامی خطوط پر
سنوار سکتے ہیں۔؟؟کیا بے حیائی اور لعنت بھرے ماحول کے ساتھ ساتھ اسلامی
اقدار کی پاسداری ممکن ہے؟؟؟ہم ایک فتنہ پرور دور سے گذر رہے ہیں جہاں ٹی
وی جیسی ہزاروں لعنتیں ہماری زندگیوں کا لازمہ بن گئی ہیں۔۔۔جبکہ موت کا
مزہ ہم میں سے ہر کسی کو چکھنا ہے اور ہم ایسی آفتوں کو اپنے گھر میںرکھنے
کے بعد کیسے اسکی لعنتوں سے محفوظ رہ پائینگے یہ شائد ہی کسی کے سوچنے کا
سوال ہو۔۔۔۔!!!
بہرحال مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔لیکن آرائیںمحض ہمارے خیالات نہ ہوں اور فی
زمانہ ماڈرینیٹی بھی نہ ہو بلکہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں معاشرہ پر پڑنے
والے بد اثرات ہی ہماری سوچ کی بنیاد ہو تبھی کہیںجاکر ہم اس موضوع پر کچھ
کہ سکتے ہیں، ورنہ صرف میرے اپنے خیالات پتہ نہیں وہ کہاں کہاں کی اوٹ
پٹانگ کی باتوںکی آماجگاہ ہوسکتی ہیں۔
ابھی تو ہم ہندو پاک کی بات ہی کریں۔کیوں کہ فرنگی چینلز نے نیو جنریشن کو
نیو ٹولذ کے ذریعہ کس طرح سے اپنے جال میں پھنسایا اس پر تو بات کرنا ہی
بیکار ہے کیونکہ وہاں تو صرف نیو جنریشن کے جذبات سے کھیل کر انہیںتباہ و
برباد کردیا گیا۔لیکن خود برصغری میںبھی مختلف سئریلز، فلمز، اور اسپورٹس
ایونٹ کے بہانے یہ “باکس” کتنی تباہی مچا چکا ہے یہ کسے سے چھپی بات
نہیں۔یقینا۔۔ہم بلاضرورت صرف وقت گذاری کی خاطر اگر نیٹ اور ٹی و ی کا
استعمل ترک کریں تو اسکے کیسے مثبت اثرات ہماری زندگیوں پر، ہمارے گھروں
اور خاندانوں میں اور سوسائیٹی میں نظر آتے ہیں ۔۔۔صرف عزم اور حوصلہ
چاہیے۔
ایک طرح سے یہ پیسے کمانے کے طریقہ ہے جسکے لئے ایک بڑی کھیپ جٹی ہوئی ہے،
جسے ہم “سوکالڈ” میڈیا کہتے ہیں۔اب اس میں دنیا سے جڑے رہنا تو ایک حد تک
ہورہا ہے، لیکن اپنے آپ سے ہم کس قدر بچھڑ رہے ہیں، یہ بھی دنیا پر عیاں
ہے۔رشتے ناطوں کے تقدس کا جس طرح سے جنازہ اس شوبز نے نکالا ، بس اللہ ہی
کی پناہ ہو۔ ہمیں کم از کم اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے اور اس لعنت عظیم سے
اپنے اہل و عیال کو محفوظ رکھنا چاہیے۔دوسرے قدم پر ہم اپنے لیول پر ایسی
برائیوں کے پنجے جہان جہاں تک پہنچ رہے ہوں وہاں تک اپنی بات کماحقہ
پہنچادین تاکہ ہم کم ازکم اس لعنت کو دور رکنے میں ایک قوت بن سکیں۔
انشا اللہ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ یقینا یہ بڑی بے حیائی
ہے اور بری راہ ہے۔ الاسرائ( ۳۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھ کا زنا دیکھنا ہے اور زبان
کا زنا فحش کلامی ہے اور ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پیر کا زنا چلنا ہے اور
کان کا زنا سننا ہے‘ نفس تو خواہش و شہوت کا اظہار کرتا ہے اور شرم گاہ اس
کی تصدیق اور تکذیب کرتی ہے۔( بخاری)
ایسی خطرناک وعیدیں زنا کے بارے میںآئی ہیں،کہ اللہ کی پناہ، اللہ
ہمیںزناجیسے گناہ عظیم سے محفوظ رکھے۔لیکن یہ آیت اور احادیث ہماری روزمرہ
زندگی اور اسکے لوازمات سے سوال کرتی نظر آتی ہیں۔اجتماعی طور پر جب ہم
ہمارے گھروںمیں ٹی وی دیکھتے ہیں تو کیسے ہم سے آنکھ کا زنا سرزد ہورہا
ہے، ہمیں انالائیز کرنا ہے اور اور کان کا زنا سننا ہے اور ہم سے کیسے کان
کا زنا سرزد ہورہا ہے، اور نہ صرف ہورہا ہے بلکہ اجتماعی طور پر اس زنا کے
مرتکب اور مجرم قرار پاگئے۔
ہمارے کتنے ایسے گھر ہیںجہاں فلم اور سیرئیلس نہیںدیکھے جاتے، ہمیں آج یہ
مانتے ہوئے چلنا پڑے گا کہ (قران کی آیت اور حدیث کی روشنی میں) کہ ہم
اجتماعی زنا میں مبتلا ہیں، اگر ہم اس زنا کاری سے بچنا چاہتے ہیں تو ضروری
ہے کہ ہمیں اپنے گھروںسے نیوز اور اسپورٹس کے حوالے سے ہم نے جو باکس رکھ
چھوڑے ہیں اسکو بلدیہ میں یا تو پھینکنا ہے، یا ہم پھر اسکو اسی مقصد تک
محدود کردیں جیسا کہ تاویل دیتے ہیں۔
(ہم میں سے کتنے ہیں جو فلم کی لعنت سے محٍفوظ ہیں، میںتو سمجھتا ہوں اکثر
اس سے محفوظ نہیں) |