پنجاب نیشنل بینک میں ساڑھے گیارہ ہزارکروڑروپے کے
گھوٹالے نے ہمارے وزیراعظم نریندرمودی کے ’’تاج’’ میں ایک
اور’’موتی‘‘جڑدیاہے ۔یہ آزادہندوستان کی تاریخ میں بینکنگ سیکٹرکاسب سے
بڑا گھوٹالہ ہے ،یقیناًیہ وزیر اعظم کے لیے’’ قابل فخر‘‘ ہوگا ۔یہ بدعنوانی
ممبئی کی بریج کینڈی شاخ میں ہوئی ہے اورتماشایہ ہے کہ بدعنوانی جنوری میں
ہوئی اورانکشاف فروری میں ہوا تاکہ ملزم نیرومودی بڑی آسانی سے ملک چھوڑ
کر فرار ہوجائے اورحکومت کی ایجنسیاں فرارکی لکیروں پرڈنڈے برساکرہندستان
کی بے شعورعوام کوبیوقوف بناتی رہیں۔بیوقوف بنانے کاسلسلہ شروع ہوچکاہے ۔نیرومودی
کی املاک پر چھاپے مارے جارہے ہیں ،املاک ضبط کی جا رہی ہیں اورنہ جانے
کیاکیاکہاجارہاہے ۔مطلب اب سانپ بھاگ چکاہے اوراس کی لکیروں پرلاٹھیاں
برسائی جا رہی ہیں ۔ایساتوہوناہی تھا کیوں کہ ۲۰۱۶میں ہی مودی حکومت کواس
فراڈکی طرف اشارہ کیاگیاتھا مگرمودی جی نے سنی ان سنی کردی،ظاہرہے اب
تولکیرہی پیٹنی ہے اوراپنی ’’جواں مردی‘‘کی دادبٹورنی ہے ۔مئی ۲۰۱۶ میں ہی
پنجاب نیشنل بینک نے رپورٹ دی تھی کہ بینک کو۵۳۷۰کروڑکاخسارہ ہواہے مگرڈیڑھ
سال کے بعدہیرے کے تاجرنیرومودی ساڑھے گیارہ ہزارکروڑروپے کی چپت لگاکراپنے
اہل خانہ سمیت ملک سے فرارہوگئے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ مسٹرنیروجنوری کے
پہلے ہفتے میں ملک سے بھاگے اوران کے بھاگنے کے بعدایف آئی آردرج ہوئی ۔
بدعنوانی کے پورے ایک ماہ کے بعدیہ معاملہ میڈیامیں آیا۔کیوں ؟اس کیوں
کاجواب وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جواس ملک کی سیاست کی نفسیات سے گہرائی
تک واقف ہیں۔
یہ نیرومودی کون ہے اورکیاکرتاہے ،اس بارے میں آپ کو جان کرحیرت نہیں ہونی
چاہیے کہ یہ ہمارے وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمارکیا جاتاہے اسی لیے
تو جنوری میں سوئٹزرلینڈکے شہرسوداس میں وزیراعظم انہیں اپنے نمائندوں
کےساتھ لے گئے تھے اوروہاں منعقد کانفرنس ’ورلڈایکونامک فورم ‘‘میں ان کے
ساتھ ایک ہی لائن میں بیٹھے تھے۔اب سوال یہ ہے کہ مودی جی کا اتناقریبی شخص
جو یقیناً ’’دیش بھکت‘‘ہوگاکیوں کہ مودی جی ’’بہت بڑے دیش بھکت‘‘ہیں اوراس
کی دہائی دیتے دیتے ماہربن چکے ہیں۔ایساشخص اتنابڑاغبن کرکے ملک کے ساتھ
غداری کیسے کرسکتاہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ کیوں ، کیسے اورکیوں کرجیسے
سوالات ہمارے اپنے پیداکیے ہوئے ہیں،بی جے پی اورآرایس ایس کواس سے کیا
تعلق ہے،وہ توکہتے اورکرتے ہی اس لیے ہیں تاکہ سوالات پیداہوتے رہیں
اورمودی جی کی حکومت ’’تاریخی ‘‘اور ’’تاریخ ساز‘‘قراردی جاتی رہے ۔
نیرومودی سے پہلے سال گزشتہ ملک کابڑامعروف تاجر وجے مالیابھی
۹ہزارکروڑروپے کاچونالگاکرملک سے فرار ہوگیاتھا اوراب تک فرارہے ۔محض خانہ
پوری کے لیے انڈیا سے لے کرلندن تک کارروائی کی گئی ہے مگروجے مالیا کا آج
تک کچھ نہیں بگڑااورکچھ بگڑے گابھی نہیں کیوں کہ جب ’’سیاں بھئیں کوتوال
توڈرکاہے کا‘‘۔یہ دو گھوٹالےوہ ہیں جومنظرعام پرآئے ،یقیناًچھوٹے چھوٹے
بھی گھوٹالے ہوئے ہوں گے جومودی حکومت کا سر ’’فخر‘‘سے ’’اونچا‘‘کررہے
ہیں۔کانگریس کے صدرراہل گاندھی اوران کے ہم نوابھی اس دھوکہ دہی پر ’’چراغ
پا‘‘ہیں مگراس ’’چراغ پائی ‘‘اوربیان بازی کی ہم جیسوں کے نزدیک کوئی حیثیت
نہیں کیوں کہ ملک کولوٹنے کھسوٹنے میں صرف بی جے پی نہیں کانگریس بھی کم
نہیں ہے ۔راہل گاندھی اوران کے ہم نواآج جو سوالات اٹھارہے ہیں یہ محض
کاروبارسیاست ہے اور بیوقوف شہریوں پراپنی ’’دیش بھکتی‘‘ثابت کرنے کی دھندے
بازی،اس کے سواکچھ بھی نہیں۔اس بیان بازی کے ذریعے راہل گاندھی کانگریس کی
صدارت کی ’’ذمے داری‘‘نبھارہے ہیں اوربس ۔نیرومودی اوروجے مالیاسے قبل کئی
اورلوگ بھی بدعنوانیاں کرکے ملک سے فرار ہو چکے ہیں ۔ان میں للت مودی ،دیپک
تلواراورسنجے بھنڈاری شامل ہیں مگرآج تک ان کاکیاہوا؟اوریقین کر لیجیے کہ
کچھ ہوگابھی نہیں اوراگرہوگابھی تومحض دکھاوے کے لیے ہوگا۔نیرومودی کےساتھ
بھی یہی ہوگا۔ چیخنے والے چیختے رہیں گے ،لکھنے والے لکھتے رہیں گے
مگرجوہوناتھاوہ ہوچکاہے اوریہ سب ہمارے مودی جی کی ناک کے نیچے ہواہے اس
لیے مطمئن ہوجائیے اور کسی دوسرے بڑے بینک فراڈکاانتظارکیجیے کیوں کہ
برصغیرکے ممالک میں اب ایسے حادثات ہوتے رہیں گے توکیوں نہ ہم اس طرح کے
واقعات سننے اورسہنے کی عادت بنالیں ۔ ہمارے احباب کہہ رہے ہیں کہ مودی
کااتناقریبی شخص کیسے اتنابڑافراڈکرسکتاہے ،ایسالگتاہے کہ دال میں کچھ
کالاضرورہے ۔میں کہتاہوں کہ دال میں کچھ کالا؟ارے نہیں یار،پوری دال ہی
کالی ہے ۔آپ بتائیے کیامیں نے غلط کہا۔ |