آج ایک بار پھر کشمیر اور گلگت بلتستان کی کونسلوں کے
خاتمہ پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ بعض لوگ کونسلوں کے خاتمہ اور بعض انہیں ختم
نہ کرنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ کشمیر کونسل کے اختیارات ختم نہ کرنے
کے حامی کہتے ہیں کہ ان خطوں کی اسمبلیاں شاید اضافی اختیارات کو سنبھال نہ
سکیں۔ مگر کونسلوں کے خاتمے کے حامی بھی متعدد دلائل دے رہے ہیں۔ سب سے بڑا
یہ کہ کشمیر کونسل کی وجہ سے آزاد کشمیر اسمبلی بے اختیار ہو چکی ہے۔جس سے
اس کی رٹ متاثر ہوتی ہے۔ یہ بحث وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت
منعقدہ اجلاس کے بعد تیز ہوئی۔ یہ اجلاس15فروری2018کووزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔
جس میں وزیراعظم نے ایک ماہ میں گلگت بلتستان اور کشمیر کونسلوں کو ختم
کرنے کی ہدایت دی۔ وزیراعظم نے جناب سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم
اصلاحات کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ کونسلوں کے اختیارات
قانون ساز اسمبلیوں کو منتقل کئے جائیں۔ گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف
گورننس آرڈر 2009کو سات یوم میں ختم کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔ اس سلسلے
میں وزارت قانون سمری تیار کر رہی ہے ۔ صدارتی حکمنامے سے کونسلیں معدوم ہو
جائیں گی۔ آئینی اصلاحات کمیٹی سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے
2015میں قائم کی تھی۔ انھوں نے اپنے مشیر سرتاج عزیز کو جلد اس بارے میں
رپورٹ پیش کرنے کو کہا تھا۔ تا ہم گزشتہ تین سال میں کمیٹی کسی نتیجہ پر نہ
پہنچ سکی۔ یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کی اسمبلی
اور سینٹ میں نمائیندگی دی جائے۔ آزاد کشمیر سے بھی اس حوالے آواز بلند ہو
رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارت کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں
نمائیندگی ہے۔ یہاں بھی اس طرح کا سیٹ اپ قائم ہو سکتا ہے۔ مگر آزاد جموں و
کشمیر یا گلگت بلتستان کو پاکستان کی پارلیمنٹ اور دیگر اہم قومی اداروں
میں نمائیندگی نہیں دی گئی۔ نمائیندگی نہ دینے کے حامی مسلہ کشمیر کو رکاوٹ
قرار دیتے ہیں۔ مسلہ کشمیر گزشتہ 70سال سے زیر التوا ہے۔ تحریک آزادی جاری
ہے۔ بلکہ اس میں شدت آ چکی ہے۔ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کے قومی اداروں
میں مساوی نمائیندگی دی جاتی ہے تو مسلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کمزور نہ
ہو گا۔ کروڑوں لوگ مسلہ کشمیر کے حل ہونے تک روز مرہ کے معاملات ترک نہیں
کر سکتے۔ کیا ان کا روزگار، تعمیر و ترقی، بجلی ، پانی، وغیرہ کا کوئی ایشو
نہیں۔ یہ ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ جب کشمیری عوام اہم حقوق سے محروم ہو
رہے ہیں۔ اس میں تحریک آزادی کی آڑ لی جاتی ہے۔ سچ یہ نہیں۔ جموں و کشمیر
ایک متنازعہ خطہ ہے۔ جس کی دو اکائیاں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان
بھی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اس لئے
مقبوضہ ریاست کو بھارت کے ایک صوبے جیسے اختیارات ہیں۔ مقبوضہ ریاست کی
بھارتی پارلیمنٹ اور قومی اداروں میں نمائیندگی ہے۔ دوسری طرف آزاد کشمیر
اور گلگت بلتستان کو پاکستان متنازعہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں ان
خطوں کو متنازعہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ان خطوں کا تمام نظام پاکستان کے پاس ہے۔
دفاع، خارجہ امور، کرنسی، مواصلات، غرض اہم اختیارات پاکستان کے پاس ہیں۔
اسی طرح مسلہ کشمیر کے حل تک اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو متنازعہ
تسلم کرتے ہوئے ان خطوں کو پاکستان کے قومی اداروں میں نمائیندگی دی جا
سکتی ہے۔ یہ مشروط نمائیندگی مسلہ کشمیر پر اسلام آباد کے بیانیہ کو متاثر
نہیں کر سکتی۔ مسلہ کشمیر کے حل تک مشروط انتظام ہو سکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ
دونوں خطے مل کر مقبوضہ اکائی کو آزاد کرانے کی جدوجہد کریں۔
جہاں تک گلگت بلتستان اور کشمیر کونسلوں کے اختیارات کا تعلق ہے تو بلا شبہ
یہ بہت زیادہ ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں قانون ساز اسمبلیوں کے دو
ایوان ہوتے ہیں۔ ایک ایوان زیریں اور دوسرا ایوان بالا۔ جیسے پاکستان میں
پارلیمنٹ کی قومی اسمبلی اور سینٹ۔ بھارت میں لوک سبھا اور راجیہ
سبھا۔برطانیہ میں بھی یہی نظام ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز
اسمبلی کے دو ایوان ہیں۔ قانون ساز اسمبلی اور قانو ن ساز کونسل۔ تا ہم
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی ایوان زیریں ہے۔ مگر ایوان بالا کشمیر کونسل
قانون ساز ایوان نہیں بلکہ یہ ایک انتظامی ادارہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ
کشمیرکونسل اور گلگت بلتستان کونسل کو ختم نہ کرتے ہوئے انہیں قانون ساز
ایوان بنا بنا دیا جائے۔ جس کا چیئر مین وزیراعظم پاکستان نہ ہو۔ پاکستان
کا کوئی بھی وزیر اس میں شامل نہہو۔ اسے کام کرنے کی آزادی ہو۔ جو قانون
اسمبلیاں منظور کریں ، وہ کونسلوں کو ریفر کئے جائیں۔ بالکل ان کی حیثیت
سینٹ جیسی ہو۔ یہ آئینی بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی
صاحب اگر چائیں تو میاں صاحب کو اعتماد میں لے کر اس پر کام کر سکتے ہیں۔
کشمیر میں آج ہر کوئی کونسل کو ختم کرانے کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی
جزوی طور پر اس اقدام کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔ شاید مسلہ کریڈٹ کا ہو۔ اگر
کشمیری قائدین کے مزاج کو اچھا لگے تو وہ ان معمولی چیزوں سے اوپر اٹھ کر
کام کر سکتے ہیں۔ اگر ایک خطے میں روز لوگ تحریک کے لئے قربانیاں دے رہے
ہوں اور دوسری طرف لوگ اپنے پروٹوکول، کریڈٹ اور اختیارات و مراعات کے لئے
سرگرم ہوں تو یہ شاید مناسب نہ ہو۔ اس میں کوئی افلاطونی فلسفہ یا کوئی
ڈکٹیشن یا رعب و دبدبہ یا ذہانت والا معاملہ نہیں۔ بات خلوص کی ہے۔ اگر
نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔ تو اس کا عوام کو فائدہ بھی ہو۔ آزاد خطوں کو بھی
اور مقبوضہ کو بھی۔سیاسی رقابت کا عوام کو شکار نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر
کسی میں عوام کے مفاد میں کچھ کرنے کی امنگ ہے تو قانون ساز اسمبلی کو بے
لگام ادارہ بنانے کے بجائے قانون ساز کونسل کے قیام پر سنجیدگی کے ساتھ کام
کیا جا سکتا ہے۔ نیز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کی قومی
اسمبلی اور سینٹ ، نیشنل اکانومک کونسل، اس کی ایگزیکٹو کمیٹی، ارسا،
مشترکہ مفادات کونسل، اور دیگر قومی اداروں میں نمائیندگی پر غور کرنا
چاہیئے۔ یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا ایک سیٹ
اپ ہو۔ جس میں دونوں خطوں کے مساوی حقوق اور اختیارات ہوں۔ اس اتحاد سے
مسلہ کشمیر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑ سکتا۔ البتہ دونوں خطے اپنے تیسرے
اٹوٹ انگ مقبوضہ خطے کی آزادی کے لئے ایک ہو کر جدوجہد کر سکتے ہیں۔ جو
بھارت کا نہیں بلکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کا اٹوٹ انگ
ہے۔جاری۔ |