پاکستان میں قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد مختلف وزیراعظم
اورمغل اعظم اقتدارمیں آتے جاتے رہے، کچھ دواورکچھ تین بارآئے اس دوران
انتہائی شان و''شوکت ''سے امریکہ کے ایک'' عزیز''بھی آئے اوربہت کچھ سمیٹ
کر واپس چلے گئے لیکن ہمارے محبوب قائدـؒ کے بعدکوئی دوسراقائدنہیں
آیا۔تحریک قیام پاکستان کے دوران ہمارے ایک نحیف مگرنڈر قائدؒ تھے اورایک
قوم تھی اب بڑی بڑی توندوں اورتجوریوں والے مصلحت پسند قائدین کی بھرمار
اورہرقومیت کی اپنی اپنی جماعت ہے،قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد ان کاسیاسی
وارث ہونے کادعویٰ کرنیوالے سیاسی بونوں نے قوم کو پھرسے ہجوم جبکہ بینظیر
قربانیوں کے نتیجہ میں ملی نظریاتی ریاست کوتختہ مشق بنادیا۔اگرسترکی دہائی
میں ہمارے ارباب اقتدارواختیار متحدہوتے توہزاروں شیخ مجیب ،اندراگاندھی
اورنریندرمودی پاکستان کابٹوارہ نہیں کرسکتے تھے۔مشرقی پاکستان گنوا نے کے
باوجود مغربی پاکستان کامقتدرطبقہ غلطیاں دہرانے سے بازنہیں آرہا ۔پاکستان
میں اقتدارپرست سیاستدان مادروطن میں دندناتے شدت پسندوں کاتعاقب کرنے کی
بجائے وزارت عظمیٰ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں مگر اقتدارہرکسی کے ''بھاگ'' میں
نہیں ہوتا۔وزارت عظمیٰ کے امیدوارایک دوسرے کی ''سوتن'' ہوتے ہیں ، ان کے
درمیان حسد تناؤاورتصادم سے ''ساس ''کاکوئی تعلق نہیں ہوتالیکن پھربھی ان
میں سے ہرسوتن دوسری کی شکایات ''ساس '' کے پاس پہنچاتی اوراس کیخلاف
بھڑکاتی ہے۔ہمارے ملک میں عمران خان، شہباز شریف ،مریم صفدر اوربلاول
زرداری سمیت ہر دوسراسیاستدان وزارت عظمیٰ کی محبت میں گرفتار ہے،تاہم
عمران خان کوآزمانے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ بڑی برائیوں کے مقابلے میں
چھوٹی برائی برداشت کی جاسکتی ہے۔جس کوتین بارنکالنا پڑاوہ چوتھی باری
کیلئے عوام کوبیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔توہین پارلیمنٹ پرپوائنٹ
سکورنگ کرنیوالی حکمران جماعت نے توہین عدالت کوجائزاوراپناجدی پشتی حق
سمجھ لیاہے۔شیخ رشید نے توایک بار پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی مگر حکمران جماعت
نے شیخ رشید کی مذمت کے نام پرہزاروں بار پارلیمنٹ کولعن طعن کیا۔عمران خان
کے ایک چوک تک محدود دھرنے کومادروطن کی تعمیروترقی کیخلاف سازش قراردیاگیا
اوراس وقت حکمران جماعت کی طرف سے کہا جاتا تھاکہ فیصلے شاہراہوں پرنہیں
بلکہ منتخب اورانصاف کے ایوانوں میں ہوں گے مگراب خود نوازشریف انصاف کے
ایوانوں میں ہونیوالے درست اوردوررس فیصلے کیخلاف علم بغاوت بلندکرتے ہوئے
میدانوں میں نکل آئے ہیں۔اگرعمران خان کادھرنے میں بجلی کے بل
پھاڑنااورشہریوں کوسول نافرمانی پراکساناعاقبت نااندیشانہ اقدام تھا تو
نوازشریف کا عدالتی فیصلے کی دھجیاں بکھیرنااورعوام کوآئینی اداروں کیخلاف
بھڑکانااوراکسانابھی قابل گرفت ہے ۔موصوف کی نااہلی عوامی اجتماعات نہیں
صرف پارلیمنٹ میں آئینی اقدامات سے ختم ہوسکتی ہے ۔اس وقت نوازشریف کاسیاسی
مستقبل ان کی جذباتی بیٹی کے رحم وکرم پر ہے ۔ نواز لیگ بینظیر بھٹو کی
صورت میں عورت کی حکمرانی کیخلاف تھی مگر اب مریم نوازکووزیراعظم بنانے کے
خواب بنے جارہے ہیں، مگر یہ وہ خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ۔وزارت عظمیٰ
کے چندقابل ذکر امیدواروں میں سے کسی کو پاکستان کامعمار اور پاکستانیوں
کامسیحا بننے میں دلچسپی نہیں۔اسلامی تعلیمات کی روسے جوخودمنصب طلب کرے وہ
اس کیلئے نااہل ہوتا ہے۔کوئی ٹریڈراور ڈیلر کسی قیمت پراچھا لیڈر نہیں بن
سکتا،اقتدار کیلئے اپنے اوردوسروں کے ضمیرکی قیمت لگانیوالے
ٹریڈراورڈیلرتوہوسکتے ہیں لیڈر ہرگز نہیں۔زیادہ ترامیرکبیر باضمیر نہیں
ہوتے،پاکستان کوایک باکرداراورباضمیر لیڈرکی ضرورت ہے۔قائدکادرازقد نہیں
باکردارہونااہم ہے،محمدعلی جناحؒ کوان کے قد نہیں قابل رشک کردارکی
بنیادپرقائداعظم ؒ کاخطاب دیاگیا،وہ انتقال کے بعد اپنے طویل قد کے ساتھ
قبرمیں اتاردیے گئے مگران کاکردارآج بھی زندہ وجاویدہے ۔شاہدخاقان عباسی
درازقد ہیں مگر ان کے پاس کردارنہیں ہے، موصوف نے ایک نااہل شخص
کواپناوزیراعظم قراردے کر نوازشریف کاقدبڑانہیں اپناقدچھوٹا کیا۔اگرانسان
کومنصب ملے تووہ اپنے اندر مصنف اورمنصف کوتلاش کرے کیونکہ ایک مصنف کی طرح
تاریخ رقم کرنے کیلئے اس کامنصف ہوناازبس ضروری ہے،جواپنے ساتھ انصاف نہیں
کرسکتاوہ دوسروں کوخاک انصاف دے گا۔شاہدخاقان عباسی کوجس میرٹ اورمصلحت کے
تحت پاکستان کابڑآئینی منصب دیاگیا انہیں اس بات کی دوسروں سے زیادہ سمجھ
ہے مگرافسوس انہوں نے ریاست اورقومی اداروں کی بجائے فردواحد کی پشت پرکھڑے
ہوناپسند کیا۔ شاہدخاقان عباسی کو تاریخ کے اوراق میں شاہد''ممنون'' عباسی
کے نام سے یادکیاجائے گا۔میں شاہدخاقان عباسی سے نہیں وزیراعظم پاکستان سے
پوچھتا ہوں کیا ان کاجاتی امراء میں اس طرح استقبال کیاجاتا ہے جس طرح
کاپرتپاک اورشانداراستقبال ان کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کونصیب ہوا
تھا۔کیانوازشریف وزیراعظم ہوتے تو بڑے صوفہ پراپنے اتحادیوں کے درمیان
بیٹھتے جس طرح پچھلے دنوں جاتی امراء میں وزیراعظم شاہد''ممنون ''عباسی
کوبٹھایاگیاتھا،یہ شاہدخاقان کی نہیں وزیراعظم پاکستان کی توہین
تھی۔جومنتخب وزیراعظم کی عزت نہیں کرتے انہیں پارلیمنٹ کی عزت سے کوئی
سروکار نہیں ہوسکتا۔امریکہ میں کوئی سیاستدان زیادہ سے زیادہ دوبارصدرمنتخب
ہوسکتا ہے لہٰذاء پاکستان میں کوئی سیاستدان تیسری بار وزیراعظم نہ بنے اس
کیلئے آئین میں ترمیم یقینی بنائی جائے ۔واصف علی واصف کاقول ہے ''بادشاہ
کاگناہ گناہوں کابادشاہ ہوتا ہے''لہٰذاء اگر وزیراعظم یاکوئی وزیربدعنوانی
،بدزبانی اوربدانتظامی سمیت کسی گناہ کاارتکاب کرے تواسے عام شہری سے کئی
ہزارگنازیادہ سخت سزادی جائے۔پاکستان کوپارلیمانی جمہوری نظام راس آیا نہ
آئے گا،اس نظام سے موروثی سیاست کوتقویت ملی ،نوازشریف اورآصف زرداری اس
ناکام اوربدنام نظام کاتحفہ ہیں۔پارلیمانی جمہوری نظام نے پاکستان کوتختہ
مشق اورپاکستانیوں کویرغمال بنایاہوا ہے۔صدارتی طرزحکومت یقینا ہماری ریاست
اورمعیشت کیلئے مفیدرہے گا،عوام براہ راست جس صدارتی امیدوار کوپچاس فیصد
سے زائدووٹ دیں پاکستان کی باگ ڈوراس کے ہاتھوں میں دے دی جائے ۔
دولت کے پجاریوں کوانسان اورانسانیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔اگرعوام
کالیڈرعوام میں سے آیاتوان کی کایاپلٹ دے گا۔کوئی وڈیرا،سرمایہ داراورسردار
عام آدمی کاہمدرداورمسیحا نہیں ہوسکتا۔پاکستان میں پرائمری ٹیچر کیلئے بھی
مخصوص قابلیت دیکھی جاتی ہے مگر سیاسی لیڈر کیلئے کوئی پیما نہ مقرر نہیں
کیاگیا ۔شہبازشریف کو دنیا کابہترین منتظم ہونے کازعم ہے جبکہ کوئی منتقم
مزاج ہرگز اعلیٰ منتظم نہیں ہوسکتا ۔''شہبازسپیڈ ''کی اصطلاح بھی شہبازشریف
کی اپنی ہے،کچھوے اورخرگوش کے درمیان دوڑمیں ''رفتار''کوشکست ہوئی تھی۔جس
طرح بینظیر بھٹو کی شہادت سے آصف علی زرداری کی سیاست کاسورج چمکا اس طرح
میاں نوازشریف کی نااہلی سے میاں شہبازشریف کاراستہ ہموار ہوگیالیکن ابھی
کئی موڑ آناباقی ہیں۔شہبازشریف کی وزیراعظم کیلئے نامزدگی ''ساماں سوبرس پل
کی خبرنہیں'' والی بات ہے۔اگرپاکستان میں موروثی سیاست اورسرمایہ دارانہ
جمہوریت نہ ہوتی تووہ لوگ جواس وقت اقتدارکے ایوانوں میں ہیں، ان میں سے
زیادہ ترزندانوں میں ہوتے ۔ وزارت عظمیٰ کامنصب ہرکسی کوراس نہیں
آتا،نوازشریف تین باروزیراعظم منتخب ہوئے مگرتینوں بارآئینی مدت پوری نہ
کرسکے،انہیں چوتھی باری ہرگز نہیں ملے گی۔ہمارے ہاں جس خاتون کانکاح تین
بارختم ہوجائے اس کے بارے میں''اے آپے نئی وسدی'' کہا جاتا ہے ۔میں نے اپنی
ہوش میں وزیراعظم ،مغل اعظم اوراسیراعظم بھی دیکھے ہیں۔کچھ وزیراعظم
آئینی'' مدت'' اورکچھ ''عدت ''پوری کرکے چلے گئے۔شاہدخاقان عباسی کوبھی
عارضی وزیراعظم بنایاگیاتھا اورپھرکچھ تکنیکی وجوہات کے سبب انہیں باقی مدت
کیلئے برداشت کرنے کافیصلہ کرلیا گیا ۔شاہدخاقان عباسی نے ابھی تک
خودکووزیراعظم سمجھا اورنہ نوازشریف نے انہیں دل سے تسلیم کیا ۔ نوازشریف
اب وزیراعظم نہیں مگر ان کے سرکاری پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آئی جبکہ
شاہدخاقان عباسی کے بارے میں جاتی امراء نے کمزورترین وزیراعظم ہونے
کاپیغام دیا ،اس صورتحال کے بعد پچھلے دنوں شاہدخاقان کاخودکوخطرناک
وزیراعظم کہنامحض ایک مذاق لگتا ہے ۔دوسری طرف ایک وفاقی وزیرنے وزیراعظم
ہاؤس کی بجائے جاتی امراء میں بیٹھے نوازشریف کوزیادہ خطرناک قراردیا
ہے۔قوم کوبتایاجائے شاہدخاقان اور نوازشریف کس کیلئے زیادہ ''خطرناک'' ہیں
۔وہ امریکہ ،اسرائیل ،بھارت یاپھر پاکستان اوراس کے قومی اداروں کیلئے بڑا
خطرہ ہیں،یہ جانناپاکستانیوں کاحق ہے۔
نوازشریف نااہلی کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے نکل آئے مگران کی روح شاید وہیں
رہ گئی ،وہ وہاں واپسی کیلئے تڑپ رہے ہیں مگر وہ اس ٹرین پرسوار ہیں جس نے
اسلام آباد کے متضاد سمت جانا ہے۔نوازشریف کونااہلی کے بعد وزرات عظمیٰ
کیلئے بھی ایک عدد ''ممنون'' کی تلاش تھی جوچودھری نثارعلی خاں
یاراناتنویرحسین ہرگز نہیں ہوسکتے تھے لہٰذاء ممنون والے میرٹ پرشاہدخاقان
پورااترے لہٰذاء وہ حق نمک بھی اداکررہے ہیں ۔ شاہد خاقان بھی ڈی ٹریک
ہوگئے ،کاش موصوف نے سیاست کی بجائے ریاست کیلئے سوچاہوتا ۔ شریف برادران
اپنے خاندان سے باہرکسی کواقتدار نہیں د یتے،شومئی قسمت مریم
نوازپارلیمنٹرین نہیں تھیں۔حمزہ شہبازشریف تھے مگر وہ شہبازشریف کے فرزند
ہیں۔چودھری برادران کا مسلم لیگ (ن) چھوڑنانوازشریف کے اس رویے اورروش کاری
ایکشن تھا۔ شاہدخاقان یادرکھیں آئینی اداروں پر سیاسی گولی باری کیلئے ان
کے کندھوں کااستعمال کیاجارہا ہے مگر ان کے سیاسی گناہوں کابوجھ نوازشریف
اپنے کندھوں پرہرگز نہیں اٹھائیں گے۔
|