پانامہ لیکس اور لندن فلیٹس جیسے اور منی لانڈرنگ کیسز کے
ذریعے ملک کی سیاسی پارٹیاں تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک نواز لیگ کو
سیاسی طور پر ملکی سیاست سے مکمل طور پر بے دخل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔
میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ نواز لیگ
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اور اس کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر جائے گا۔
لیکن حالیہ دو اہم حلقوں میں کامیابی نے اس امکان کو رد کردیا اور سب پر یہ
بات واضح کردی کہ ن لیگ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی ابھی تک مکمل طور سے
عوام کے دلوں سے نہیں اتری۔ابھی بھی اس کے ووٹرز اور سپورٹرز موجود
ہیں۔بھلے نواز شریف اپنی سیٹ سے کسی اور کے حق میں دستبردار ہوگیا لیکن
حکمرانی اسی کی پارٹی کررہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سرتوڑ کوششوں کے بعد بھی
اب تک نواز شریف کی سیاست اور اس کی پارٹی کو ملکی منظر نامے سے آؤٹ کرنے
میں تاحال ناکام ہی ہیں۔نواز شریف کی جارحانہ سیاست نے ملکی سیاست میں ایک
بھونچال برپا کیا ہوا ہے۔ عوام بہرحال ان کو نوٹس کررہی ہے۔سیاسی منظر نامے
پر اب بھی ان کی موجودگی یہ ثابت کررہی ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی ن لیگ
ایک مضبوط حریف بن کر سامنے آئے گی اور اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دے گی۔ان
کے طرز سیاست سے بہرحال اختلاف کی گنجائش موجود تو ہے اور ان کے رویئے پر
تنقید بھی ہو رہی ہے۔ پر دیکھا جائے تو نواز شریف کے پاس دو ہی راستے تھے
یا تو وہ اپنی نااہلی کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لیتے اور پھر سے کسی
ملک میں سیاسی پناہ لے کے دوسرے ملک بدر سیاسی رہنماؤں کی طرح گمنامی کی
زندگی گذارتے یا دوسری صورت میں وہ ملک کے اندر ہی رہ کر اپنے خلاف ہونے
والی سازشوں کا مقابلہ کرتے اور اپنی پارٹی اور سیاست کو بچا لیتے۔ انھوں
نے دوسرا راستہ منتخب کیا اورپورے جوش و خروش سے بھرپور عوامی مہم شروع کر
دی۔ان کے ملکی اداروں کے بارے میں دیئے گئے مختلف نوعیت کے بیانات اور
اختلاف رائے کے باوجود یہ بات بھی درست ہے کہ پچھلے چند ماہ میں وہ عوام
اور نواز لیگ کی حکومت کے درمیان دوریاں ختم کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہے
ہیں۔ اس کا ثبوت وہ چند ضمنی الیکشن ہیں جو کہ اس مدت کے درمیان ہوئے اور
حکمران جماعت اس میں کامیاب رہی۔نواز شریف کو اس بات کا بھی فائدہ حاصل رہا
کہ وہ خود تو نااہل ہوگئے لیکن اس بار ان کی پارٹی برسر اقتدار رہی اور خاص
طور میں پنجاب میں ان کے بھائی شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے منصب پر ڈٹے ہوئے
ہیں۔ ان کی جانب سے پنجاب میں زیر تکمیل عوامی منصوبے نواز لیگ کی کامیابی
کی ایک اہم وجہ ہوسکتے ہیں۔
برسر اقتدار پارٹی ہونے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کے نتائج عموماًحکمران پارٹی
کے حق میں ہی نکلتے ہیں۔ حکومتی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے کر اسمبلی
بھیجنا ہی عوام کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے اور اگر حلقہ دیہاتی علاقے کا
ہو تو چونکہ دیہات میں ترقیاتی کام شہروں کی نسبت کم ہوئے ہوتے ہیں اس لیے
اس حلقے کے مکینوں کی ضمنی الیکشن کی صورت میں قسمت کھل جاتی ہے اور وہ
حکومت کے ترقیاتی کاموں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم
ہوتا ہے کہ حکومت نے یا اس کے امیدوار نے اس کے بعد مشکل سے ہی ملنا ہے اس
لیے جتنا ترقیاتی کام کرایا جا سکتا ہے وہ کرا لیا جائے تا آنکہ مستقبل میں
کوئی اور غیر متوقع ضمنی الیکشن ان کے حصے میں آجائے۔ صوبہ پنجاب کی ترقی
کے لیے جو معیار ن لیگ نے مقرر کر دیے ہیں ان کے بعد آنے والوں کے لیے وہ
مشعل راہ تو تب ہوں گے جب وہ ان تک پہنچ پائیں گے۔ کیونکہ دن رات کی محنت
اور نت نئے منصوبوں کی بنیاد اگر پاکستان کے کسی صوبے میں رکھی گئی ہے اور
ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا گیا ہے تو یہ کریڈٹ بھی میاں
شہباز کا ہی ہے یہ اور بات ہے کہ ان منصوبوں کی آڑ میں وہ ہونے والی کرپشن
سے اکثر انکاری نظر آتے ہیں۔
لودھراں میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں غیر متوقع طور پر نواز لیگ نے
میدان مار لیا جس کی توقع مرکزی قائدین کو بھی نہیں تھی چونکہ اس حلقے میں
تحریک انصاف کا اثر زیادہ تھا اور جنرل الیکشن بھی قریب ہیں اس لیے عمومی
توقع یہی تھی کہ تحریک انصاف با آسانی اس ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو جائے
گی لیکن لودھراں کے عوام کو میاں شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے اس علاقے
میں مکمل اور جاری ترقیاتی کام اپنا اثر دکھا گئے اور انھوں نے اس پر لبیک
کہا اور ایک یقینی ہار کو جیت میں بدل دیا گیا۔عوام نے ایک ویل ایجوکیٹیڈ
نمائندے کو ایک کم پڑھے لکھے نمائندے کے مقابلے میں رد کرکے دکھادیا ۔
جوشخص ان کے علاقے کے لیے زیادہ کام کرے گا ان کا ووٹ بینک کو جائے گا ۔
حکمران عوام کی ترقی پر تھوڑی سی توجہ بھی دے تو عوام اس کا بدلہ ضرور دیتی
ہے۔چند دن کی سرگرمی کے نتائج جب اتنے خوش آئند ثابت ہوسکتے ہیں تو خیالات
کی دنیا میں میرے ساتھ سفر کیجیئے کہ ملک بھر میں اگر حکمران پارٹی
دیانتداری سے تمام رکے ہوئے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچادے اور خلوص دل سے
عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے تو یہی گرتی ساکھ ایک دم بحال ہوجائے
گی کیونکہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ان کے بچوں کو بنیادی اور فنی
تعلیم کا حصول آسان ہوجائے روزگار کے مواقع عام ہوجائیں،بجلی،گیس، پانی کی
فراہمی میں پیش آنے والی ساری روکاوٹیں دور ہوجائیں،آئے دن کی سیاسی
چپلقشوں اور دہشت گردی سے نجات پاکر اپنے گھروں میں سکون کاسانس لینا ہی
عوام کی ترجیحات میں سے ہے ، روزگار کے مواقعوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا
خاتمہ اور عوامی بے چینی کا بھی خاتمہ ممکن ہے۔
تحریر: ڈاکٹر رابعہ اختر |