ننھی زینب کے درندہ صفت اور سفاک قاتل عمران نے گرفتار
ہونے کے بعد آٹھ بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا۔ قصور میں 4 جنوری کو 7
سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے
اغوا کرلیا گیا تھا۔ زینب کے اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق
مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا، لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی
گئی تھی۔ 5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی
لاش ملی، اطلاعات تھیں کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا
تھا۔ اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے واقعہ کے
خلاف احتجاج کیا، اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی،
جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی
جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
سفاک قاتل کی گرفتاری کے بعد عوام کی اکثریت اسے چیف جسٹس آف پاکستان کے
نوٹس کا نتیجہ قرار درہی ہے۔ 10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے
بعد پاکستان پہنچے تو انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی
زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔ لاہور
ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا، تاہم
ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی
کورٹ کو کیس کی سماعت سے روک دیا تھا۔ اتوار 21 جنوری کو چیف جسٹس ثاقب
نثار نے ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹے کی حتمی مہلت دی تھی، ابھی
سپریم کورٹ کی مہلت پوری نہ ہوئی تھی کہ درندہ صفت انسان گرفتار ہوگیا۔ اس
بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ثبوت اور گرفتاری، دونوں اس وقت
سامنے آئے، جب عدالت نے پولیس کو 72 گھنٹے کا نوٹس دیا۔ اگر ڈیڈ لائن نہ دی
جاتی تو یہ اہم پیش رفت سامنے آنا تقریباً ناممکن تھی، کیونکہ اس سے پہلے
بھی کئی واقعات رونما ہوئے، لیکن کوئی پیش رفت ہوئی، نہ انتظامیہ نے سخت
نوٹس لیا۔ اب بھی اس حوالے سے مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعے پر
فوج کی نگرانی میں ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جانی چاہیے، جس
میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)
کے افسران کو شامل کرکے تحقیقات کی جائیں کہ آیا گرفتار ہونے والا ملزم
اکیلا تھا یا پھر اس کے پیچھے کوئی بڑا گروپ موجود ہے۔ اگر اس ملزم کی پشت
پر کوئی گینگ کام کررہا تھا تو اْسے بھی عوام کے سامنے لایا جائے، کیونکہ
ہوسکتا ہے کہ یہ کام اس شخص سے دباؤ کے تحت کروایا جاتا ہو۔ قصور میں پہلے
بھی 300 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے کا
واقعہ پیش آچکا ہے، جن کے بااثر ذمہ دار آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، اس لیے
ضروری ہے کہ پیچھے بیٹھ کر جو لوگ یہ کام کررہے ہیں، انہیں پکڑا کر سامنے
لایا جائے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر سوشل میڈیا اور اس کے بعد
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس معاملے کو نہ اٹھاتا تو بچوں کے ساتھ زیادتی کے
بہت سے دوسرے کیسز کی طرح یہ کیس بھی دب جاتا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کی
کارکردگی سب سے زیادہ قابل تحسین ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں کم سن
بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات خبروں میں آتے ہی رہتے ہیں، لیکن قصور کی 7
سالہ ننھی زینب کے واقعہ نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ زینب کی لاش
کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کیں تو اس ننھی کلی کو انصاف دلوانے کے لیے
ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی جدو جہد کرنے لگا۔ زینب کی معصوم تصویر نے پوری
قوم کو ایک ہی موقف پر اکٹھا کر دیا اور وہ موقف تھا ’’زینب کو انصاف دو۔‘‘
حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی سوشل میڈیا پر معاملہ گرم ہونے کے بعد
ہی مذمتی بیانات جاری کیے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس معاملے کو دبنے نہیں
دیا اور مسلسل زینب کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔ سوشل میڈیا پر سب نے
مل کر آواز اٹھائی تو پورا ملک ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی میدان میں آگیا۔ سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑا
اور حکومتوں کو بھی حرکت میں آنا پڑا۔ زینب کے قاتل کو پکڑوانے اور زینب کا
معاملہ کسی ردی کی فائل کے نذر نہ ہونے کا کریڈٹ سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور
پرنٹ میڈیا کو ہی جاتا ہے جس نے آنے والے ہر دن پولیس ، سیاسی رہنماؤں اور
ضلعی انتظامیہ تک کو یہ بھولنے نہیں دیا کہ زینب ہمیں یاد ہے اور ہم زینب
کو انصاف دلوا کر رہیں گے۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر سوشل
میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا آواز نہ اٹھاتے تو زینب کا درندہ صفت قاتل
گرفت میں آتا اور زینب کا معاملہ بھی دیگر بچیوں کی طرح ہمیشہ کے لیے خبروں
میں دفن ہوجاتا ۔
زینب کے قاتل کی گرفتاری کے بعد اب بھی پوری قوم متحد ہے اور یہی مطالبہ کر
رہی ہے کہ زینب کے قاتل کو عبرتناک سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے۔ سوشل
میڈیا پر ہر شخص کا مطالبہ ہے کہ زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینی چاہیے،
تاکہ آئندہ کو ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی جسارت نہ کرے۔بعض چینلوں نے اپنی
ویب سائٹ پر زینب کے قاتل کی سزا کے حوالے سے سروے کیا تو سیکڑوں لوگوں نے
پیغامات بھیجے، جن میں سے ہر ایک کا مطالبہ تھا کہ زینب کے قاتل کو سرعام
پھانسی دی جائے۔ شوبز و کرکٹ سمیت زندگی کے ہر شعبے تعلق رکھنے والی شخصیات
نے زینب کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے اندازہ
ہوتا ہے کہ قوم کیا چاہتی ہے۔ اگر حکمران خود کو قوم اور عوام کا نمائندہ
سمجھتے ہیں تو پھر عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کے مطالبے کو بھی
پورا کیا جانا چاہیے۔ معصوم زینب کے قتل سے معاشرے میں دہشت پھیلی ہے، اس
قسم کے وا قعا ت میں عمومی قانونی طریقہ کار کی بجائے خصوصی اقدامات اٹھانا
ہوں گے۔ پیر کو سینیٹ اجلاس میں چیئرمین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قوانین
کے سختی سے نفاذ نہ ہونے سے درندے دندناتے پھر رہے ہیں، جب کہ سینیٹ قائمہ
کمیٹی داخلہ نے قصوراور مردان میں معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کی مذمتی
قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت سے متفقہ طور پرمطالبہ کیا ہے کہ بچوں سے
زیادتیوں اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے اور تمام بچوں سے
زیادتی کے واقعات پر خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ پارلیمنٹ قانون سازی کے
ساتھ قانون پر عملدرآمد کے لیے بھی اقدامات کرے۔ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ
ملزم کو ایسی سزا دی جائے کہ پھر کوئی کسی بچی کی طرف آنکھ اْٹھا کر نہ
دیکھے، ایسی سزا کہ دوبارہ ایسے فعل کے انجام کا سوچ کر ٹانگیں کانپ جائیں
، ایسی سزا کہ جس کے بعد ملک کی ہر زینب محفوظ ہو۔ مہذب قومیں اپنے سنگین
مجرموں کو کبھی معاف نہیں کرتیں، بلکہ عبرت کا نشان بناتی ہیں، تاکہ آئندہ
نسلیں بھی اس سے سبق سیکھیں۔ ضیاء الحق دور کے پپو کیس کے مجرم کو سرعام
پھانسی پر لٹکایا گیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کا حکم تھا کہ سورج غروب ہونے
تک اس کی لاش کو وہیں لٹکا رہنے دیا جائے، تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں، یہی
وجہ ہے کہ اس کے کئی سال بعد تک ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ |