(از قلم: سعید آسوی۔نارووال)
قصور میں معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی ایک اسلامی معاشرے کے چہرے
پر بدنما داغ بن کر سامنے آئی ہے جو مدتوں اہلِ پاکستان کو مضطرب اور
سوگوارکیے رکھے گی۔حقیقت یہ ہے کہ درندہ صفت لوگوں کا نہ تو کوئی دین ہوتا
ہے اورنہ ہی مسلک۔کیونکہ دین اور مسلک انسانوں کے ہوتے ہیں ،جبکہ انسانیت
سے عاری بھیڑیا نما شخص کا کسی دین یا مسلک سے تعلق جوڑنا سرا سر نا انصافی
ہے۔ بابا بلھے شاہ علیہ الرحمہ کی دھرتی قصور میں معصوم کلیوں اور ننھی
پریوں کے ساتھ وحشت و بربریت کا جو سلوک کیا گیا ،ہر دردِ دل رکھنے والا
شخص اس پر تڑپ اٹھا۔بلکہ سراپا احتجاج بن گیا۔اور اس احتجاج میں اور بھی
شدت آگئی جب ایسی اطلاعات آنے لگیں کہ یہ فردِ واحد کا کام نہیں بلکہ اس کی
کڑیاں ناروے سمیت متعدد یورپی ممالک میں عریاں فلمیں بنانے والی انڈسٹری سے
جا ملتی ہیں۔یقیناً یہ ایک خوفناک انکشاف ہے۔جس کی تحقیقات تادمِ تحریر
جاری ہیں۔دیکھئے تحقیق و تفتیش کی بھٹی سے گزرنے کے بعد کون سے حقائق منظرِ
عام پہ آتے ہیں۔تاہم عقل دنگ ہے کہ یورپ کے ان جانور نماانسانوں یا انسان
نما جانوروں نے محض اپنی حیوانی جنسی تسکین کے لیے کس قدر گھناؤنے اور بے
رحم طریقے وضع کر لیے ہیں؟ واﷲ! جہاں شیطان کی شیطنت تھک جاتی ہے،وہاں سے
ان موذیوں کی گندی سوچ کا آغاز ہوتا ہے۔اور لعنت ان دنیا کے کتوں پر جو محض
چند سکوں کے لیے اپنا دین ایمان بیچ کر ان کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔نہ انہیں
اپنا کلمہ پڑھنا یاد رہتا ہے اور نہ انسانیت کا کوئی تقاضا ۔
اس واقعے کی تفصیلات بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ جنوری کے آخری
عشرے میں اخبارات و رسائل نیز ٹی وی چینلز دن رات اس کی جزئیات کو بیان
کرتے رہے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ہمیں تو یہاں اس سوال کا جواب تلاش
کرنا ہے کہ وہ کون سے اسباب یا محرکات ہیں جو اس قسم کے واقعات کے سزاوار
ہیں۔ان عوامل کا پتا لگانا اور ان کا سدِّ باب کرنا آئندہ کے لیے ایسے
واقعات کے تدارک کے لیے ازحد ضروری ہے۔
دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہو چکی ہے
جو مغربی اقوام کی تہذیب و تمدن سے متاثر نظر آتی ہے۔جبکہ صورتحال یہ ہے کہ
وہاں مغرب میں عورت کو آزادپنچھی بنا کر پھر بے حیائی اورزناکاری کے جال
میں پھنسادیا گیا۔اسے محض جنسی تسکین کا آلہ بنا کر رکھ دیا گیا۔وہاں کی
عورت یہ تمام زہر آبِ حیات کے نام پر پیتی رہی۔اب جب اس کی آنکھیں کھلیں تو
اپنی غلامی بنام آزادی پر وہ تڑپ اٹھی۔ وہاں عورت آج یہ سوچ رہی ہے کہ مجھے
اس مقام کی تلاش تو نہ تھی ،نہ یہ ایک با عزت مقام ہے کہ کبھی اسے بڑے بڑے
ہورڈنگ بورڈز پر سجا دیا جائے،کبھی اسے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر زہرناک
گندگی اور جنسی آوارگی کو پروان چڑھانے اور شیطانی مقاصد کی ترویج کے لیے
پیش کیا جائے۔کبھی اسے جاگیرداروں،سیاستدانوں اور صاحبِ ثروت لوگوں کے
سامنے سامانِ تعیش بنا کر رکھ دیا جائے۔ کبھی اسے تصویروں اور فلموں میں
عریاں کر کے نوٹ چھاپے جائیں۔یہ عورت کی عزت نہیں بلکہ تذلیل ہے۔ المختصر!
دانش اور شعور کی حامل متعددمغربی خواتین ان تمام نشیب و فراز سے گزرنے کے
بعد آج اس حقیقت کا ادراک حاصل کرچکی ہیں کہ ہمارے مردوں نے ہمیں محض
’’جنسِ بازار‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف ہمارے اسلامی معاشروں میں کچھ
نا سمجھ عورتیں ایسی ہیں جوان خاردار راستوں پرسفر شروع کرنا چاہتی ہیں،جن
پر چل کر مغربی عورت اپنی چادرِ عصمت تارتار کرا بیٹھی۔اس قبیل کی خواتین
نے مغربی ڈگر پر چلنا شروع کیا تو اولاً اپنی چادرِ حیا کو اتارا،پھر
جسمانی آرائش و زیبائش کا راستہ کھولا ،بعد ازاں بے حیائی کی تاریک دلدل
میں قدم رکھے اور بالآخر اس نامراد بے حیائی نے عریانی اور بد کرداری کا
دروازہ کھول دیا۔مرد و ں نے بے حیائی کے اس طوفان میں خس وخاشاک کی مانند
بہنا شروع کر دیا۔ یوں مردو زن کابڑھتا اختلاط بڑے بڑے اَخلاقی سانحات کو
جنم دینے لگا۔
اے قوم ترا حال میں کیا دیکھ رہا ہوں
جو کل تھا کچھ آج اس سے برا دیکھ رہا ہوں
ملت کے جوان نغموں کی سرتال میں گم ہیں
محبوب کی رفتار و خدو خال میں گم ہیں
فیشن کے زن و مرد پرستار ہیں دونوں
شیطان کے پنجے میں گرفتار ہیں دونوں
اپوا کی نمائش کہیں اور ہیں کہیں میلے
لے ڈوبیں گے اک روز تمہیں ایسے جھمیلے ( اقبال)
اب سنئے ! نئی نسل کے اخلاق سوز سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا دوسرا
سبب۔اخبارات میں چھپنے والی ۱۹۹۶ء کی ان رپورٹس کو ملاحظہ کیجئے:
انسانی حقوق کونسل پاکستان کے سابق صدر اور رکن قومی اسمبلی ممتاز تارڑ نے
راولپنڈی پریس کلب میں ۱۹۹۵ء کے حوالے سے رپورٹ پیش کی کہ:
’’ ہمارے ہاں اخلاقی اقدار کی اس پامالی کا باعث ٹی وی اور ڈش کے پروگرامز
اور پھر بلیو فلموں کی بھرمار ہے‘‘۔
یونہی فرید احمد پراچہ صاحب کاایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے لکھا :
’’ ڈش انٹینا نے گویا دنیا بھرکی غلاظت کو لا کر گھروں میں پھینک دیا ہے۔
وی سی آر ( آج کل سی ڈیزاورموبائل فونز)
اور گلی گلی ویڈیو شاپس کے ذریعہ پھیلنے والا زہر اس کے علاوہ ہے‘‘۔
ایک جگہ پراچہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ ٹی وی سے ہر وقت موسیقی کے پروگراموں کی بھر مار، نوجوان لڑکوں اور
لڑکیوں کی مخلوط مجالس غرضیکہ اب ٹی وی
تفریح نہیں بلکہ عذاب بن چکا ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں موسیقی، پاپ میوزک،
ناچ رنگ کی مجالس اور رقص و
سرود کے ذریعے معاشرہ پر پڑنے والے اثرات تو واضح ہیں، مسلم معاشرہ کے بارے
میں یہ ایک پرانی سازش ہے
جو علامہ اقبال نے اپنی نظم ’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں واضح کی ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو ‘‘
نیز پراچہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ ناچ گانے کے علاوہ ٹیلی ویژن کے دیگر پروگرامزبھی انتہائی منفی اثرات
رکھتے ہیں۔ تشدد اور جرائم پر مبنی ڈرامے
اور فلمیں جرائم کی تربیت گاہیں ثابت ہوئی ہیں‘‘۔
یَا اَھْلَ لَذَّۃِ لَھْوٍ لَا تَدُوْمُ لَھُمْ
اِنَّ الْمَنَایَا تَبِیْدُ اللَّھْوَ وَاللَّعِبَا
کَمْ مَنْ رَاَیْنَاہُ مَسْرُوْراًبِلَذَّتِہ
اَمْسیٰ فَرِیْداً مِّنَ الْا َھْلِیْنَ مُغْتَرِباً
ترجمہ: اے ناپائیدار ناچ رنگ کی لذّتوں میں مُنہَمِک ہونے والو! موت تمام
کھیل کود کو ختم کر دیتی ہے۔ بہت سے
ایسے لوگ ہم نے دیکھے جو مسرّتوں اور لذّتوں میں غافل تھے،موت نے انہیں
اپنے اہل و عِیال سے جدا کر دیا‘‘
( شرح الصّدور از علامہ سیوطی علیہ الرحمہ)
ہمیں بتایا جائے کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں ہر گھر ( الا ما شاء اﷲ) سینما
گھر بنا ہوا ہو، سر ِعام جہازی سائز کے بورڈوں پر نیم عریاں خواتین دعوتِ
نظارہ دے رہی ہوں، اخبارات کے صفحے گندے اشتہاروں اور تصویروں سے بھرے رہتے
ہوں، ہاتھوں میں ہر طرح کی برائی پر مشتمل موبائل فونز ہوں، کانوں میں ہر
طرف سے فحش فلمی گانوں کی آوازیں آتی ہوں، بازاروں میں بے پردہ اور نیم
عریاں لباسوں میں ملبوس خواتین گھومتی دکھائی دیتی ہوں، سکولوں، کالجوں،
یونیورسٹیوں میں ’ہر طرح کی آزاد فضا‘ ہو،تو ایسے ماحول میں اور ایسے
معاشرے میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے اخلاق، ضبطِ نفس اور پاکیزگی کی
توقع رکھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ عین عالم ِشباب میں مردوزن کو ساتھ ملنے
جلنے کے مواقع دے کر یہ امید رکھنا کہ وہ اخلاقیات اور اسلامیات کے اسباق
یاد رکھیں گے، پرلے درجے کی حماقت نہیں تو اورکیا ہے۔رہی سہی کسر موبائل
فونز کے ایس ایم ایس اور کال پیکجز نے پوری کر دی ہے۔ مان لیجئے کہ قدم قدم
پر جذبات کو بھڑکانے والے اس ماحول میں نوجوانوں کی باہمی جنسی کشش کو کسی
limitمیں رکھنامحال ہے ۔ چنانچہ عصمت دری، گینگ ریپ اور اغوا جیسے واقعات
یہاں رونما ہورہے ہیں۔ اور حالیہ واقعاتِ قصور اسی سلسلے کی ہولناک کڑیاں
ہیں۔
معروف ماہرِ نفسیات ارشد جاوید کایہ مشاہدہ ملاحظہ کیجئے :
"میرے پاس ایسے کتنے ہی نوجوان مریض آتے ہیں جنہوں نے انگریزی ناول
پڑھے(نیز جذبات کو بھڑکانے والی ویڈیوز دیکھیں) ۔وہاں محترم اور مقدس رشتوں
پہ دست درازی یا آمادگی کے ساتھ جنسی تعلق کی منظر کشی پڑھی (یا دیکھی)اور
پھر کسی کمزور لمحے اپنے ہی سگے رشتوں کے ساتھ ویساکرنے کی کوشش کی
۔کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں ذہنی مریض بن کر پھر برسوں اپنا علاج
کراتے ہیں مگر اس شرمندگی سے نہیں نکل پاتے"۔
قوم کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ بالا صورتحال کا بغور جائزہ
لے اور اصلاح کے لیے میدان ِعمل میں آئے ۔اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی
اسلامی اصولوں پر تربیت کرے۔ واﷲ اس کے بغیر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔والدین
اپنی اولاد کو اپنی نظر وں کے حصار میں رکھیں ۔اساتذہ ،سرمایۂ ملت یعنی
نوجوانوں کو شرم وحیا اور بلندی ٔکردار کے اسباق ازبر کرائیں۔حکومتی اراکین
فحاشی و عریانی کے خاتمے کے لیے موثر ضابطے بنائیں اور عدالتیں بے حیائی کے
فروغ کی اپنے سخت احکامات کے ذریعے حوصلہ شکنی کریں ۔میڈیا کو لگام دی جا
ئے۔سنا ہے کہ ٹی وی چینلز کے ’’مارننگ شوز ‘‘ اور ’’میوزیکل شوز‘‘شترِ بے
مہاربنتے جا رہے ہیں،ان سمیت ہر آوارہ پروگرام پر پابندی لگا کر تمام تر
میڈیا کو اسلام کی ترویج و اشاعت،فلسفۂ جہاد سے آگاہی اور وطن کی محبت کے
فروغ کا ذریعہ بنایا جائے ۔تبھی قصورجیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔اﷲ ہم
سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین |