(۴۱) وصیت کا نفاذ اور ترکہ کی تقسیم :
میت کی تدفین کے بعد انہوں نے حقوق العباد یا دین وخدمت سے متعلق جو وصیت
کی ہو اس کا نفاذ عمل میں لایا جائے ۔ قرض سے متعلق وصیت کا نفاذ تو میت کی
تدفین سے قبل ہی ہونا ہے بقیہ وصیتیں تدفین کے بعد جس قدر جلدی ہو سکے نافذ
کردینا چاہئے الا یہ کہ اس میں تاخیر کی وجہ اورمعقول گنجائش ہو۔ کسی وارث
کے لئے جائز نہیں ہے کہ میت کی مالی وصیت ترک کرکے اپنے لئے مال جمع کرے
اور نہ ہی بلاوجہ تاخیر کرے ۔ وصیت کے علاوہ بچنے والے مال کو میت کے
وارثین میں منصفانہ تقسیم کرے ۔وراثت کی تقسیم سے قبل وارثوں کا حصہ جاننے
کے لئے علم الفرائض کے عالم سے رجوع کرے اور یہ بات دھیان میں رکھے کہ
تاخیر سے وراثت کی تقسیم وارثوں میں اختلاف اور تنازع کا سبب بن سکتی ہے ۔
بسااوقات زوروقوت والا وارث ضعیف وارثوں کا حق مارلیتا ہے یہ بڑا ظلم ہے اﷲ
کے یہاں اس کا سخت محاسبہ ہوگا۔ وراثت میں بیٹیوں کا حصہ نہیں نکالاجاتا ہے
جوان کے حق میں ظلم کے ساتھ وراثت کے باب میں اس زمانے کا بہت بڑا المیہ ہے
۔ مسلمانوں کو بطور خاص علماء وغیرشادی شدہ نوجوانوں کو سماج سے جہیز کی
رسم مٹانے اور بیٹیوں کو وراثت میں حق دینے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل منظور
کرنا چاہئے تاکہ نکاح اور وراثت میں شرع کی بالادستی قائم ہوسکے۔
(۴۲)میت اور احوال قبر:
میت کی تدفین کے بعد اس کے حالات دنیاوی حالات سے مختلف ہوجاتے ہیں ۔ موت
سے قبل اسے دنیاوی زندگی حاصل تھی اب وفات کے بعد برزخ کی زندگی مل رہی
ہے۔برزخ موت کے بعد سے لیکرقیامت تک کے درمیانی وقفے کو بولتے ہیں اور برزخ
کے معاملہ کو کسی بھی طرح دنیا وی معاملات پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ ویسے
بھی عالم برزخ اور قبر کے حالات غیبی امور میں سے ہیں ان میں اٹکل لگانا،
بلادلیل کوئی بات کہنا یا رائے وقیاس کرنا بالکل ممنوع ہے۔ میت کی بزرخی
زندگی سے متعلق کتاب وسنت میں جتنی دلیل وارد ہے بس اتنی ہی ذکر کی جائے گی
۔ مثلا قبر میں میت کی تدفین کے بعد سوال کے لئے منکرنکیر آتے ہیں ، مومنوں
کو سوال کے وقت ثابت قدمی اور کافروں کو رسوئی نصیب ہوتی ہے ۔ مومنوں کو
قبرمیں انواع واقسام کی نعمت اور کافروں کو مختلف قسم کاعذاب ملتا ہے،
مسلمانوں میں سے گنہگاروں کو بھی عذاب ملتا ہے ۔ میت کے بولنے ، سننے اور
جواب دینے کی دلیل ملتی ہے مگر یہ بولنا، سننا اور جواب دینا خاص مواقع سے
متعلق ہے اور یہ برزخ کا معاملہ ہے قبر میں بولنے ،سننے اور جواب دینے کو
دنیا میں بولنے ،سننے اور جواب دینے پر قیاس نہیں کرسکتے ۔اس لئے ہم مردے
کو اپنی بات نہیں سناسکتے اور نہ وہ ہماری پکار کو سنتے اور جواب دیتے ہیں
۔
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھ لیں کہ جس میت کو دفن نہیں کیا جاتا کئی
دنوں یا مہینوں تک اسٹور کرکے رکھا جاتا ہے آخر اس سے بھی منکر نکیر سوال
کرتے ہیں اور میت جواب دیتا ہے ۔ کیا کسی نے ایسے بے گوروکفن میت کو بولتے
دیکھا ہے ؟۔ قرآن آل فرعون پر صبح وشام آگ کا عذاب پیش کئے جانے کا ذکر ہے
، فرعون کی لاش لوگوں کے سامنے ہے کسی نے آگ نہیں دیکھی اور نہ ہی فرعون کو
درد والم سے روتے ہوئے دیکھا ہے۔نیند میں لوگ باتیں کرتے ہیں جبکہ بغل میں
جاگنے والا اس آدمی کی آواز نہیں سنتا ۔ اس مثال سے مقصود یہ ہے کہ بزرخ کے
معاملہ کو دنیا پر ہرگز ہرگز قیاس نہیں کیا جائے گا۔ اور عذاب جسم وروح
دونوں کو ہوتا ہے ۔
جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ قبر کا معاملہ غیبی ہے اس کے متعلق ہم اتنا ہی
جانتے ہیں جتنا قرآن وحدیث میں بیان کیا گیا ہے اور مردے ہماری پکار نہیں
سنتے ،نہ ہی انہیں ہمارے حال کی کوئی خبر ہوتی ہے ۔ لہذا مردوں کو پکارنا
جہالت، ان سے مدد مانگنا شرک اور ان کے لئے غیرشرعی امور انجام دینا بدعت
وخرافات ہے۔ ہمیں میت کے حق میں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہئے اور ان
کی طرف سے ایصال ثواب کے طور پر صدقہ وخیرات بھی کرسکتے ہیں ۔
(۴۳) میت کا خواب میں آنا:
یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی جانے پہچانے میت کو خواب میں دیکھے ، اپنے رشتہ
داروں کو بھی خواب میں دیکھ سکتا ہے ، کوئی عالم یا بزرگ بھی خواب میں
آسکتے ہیں حتی کہ نبی ﷺکو بھی خواب میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ خواب کی نوعیت
مختلف ہوسکتی ہے ، کبھی خواب سچا ہوسکتا ہے یعنی میت کی کیفیت واحوال معلوم
ہوسکتے ہیں تو کبھی شیطان ڈرانے کی غرض سے میت کی شکل اختیار کرکے خواب میں
آسکتا ہے ۔ ڈراؤنی خواب سے اﷲ کی پناہ طلب کی جائے اور عمدہ خواب ہوتو اس
کے ماہر سے تعبیر معلوم کیا جائے۔
خواب کے نام پر بدعتیوں میں گورکھ دھندے کئے جاتے ہیں ، خوابوں کو اپنے من
سے تراش کر لوگوں میں بیان کئے جاتے ہیں کہ میں نے فلاں کو خواب میں دیکھا
، فلاں برزگ خواب میں مجھے یہ پیغام دے رہیتھے ، مدینہ کے شیخ نے خواب میں
ایسا دیکھا، فلاں ولی نے مجھے نور کا تاج پہنایا۔ وغیرہ اس وقت تو حد
ہوجاتی ہے جب بدعتی اپنی شہرت کے لئیمصنوعی خوابوں کو نبی ﷺ کی طرف منسوب
کردیتا ہے ۔الیاس قادری کییہاں ایسے بے شمار خواب ہیں ۔
قادری صاحب کے یہاں باقاعدہ خواب اور کشف وکرامات کا ایک مستقل شعبہ ہے
جہاں لوگ اپنی مرضی سے جب چاہیں اور جیسے چاہیں خواب دیکھتے ہیں شرط یہ ہے
کہ خواب قادری صاحب کے حق میں دیکھے جائیں ورنہ سخت عتاب ہے۔ مفتی ابوداؤد
قادری نے الیاس قادری کے نام ایک مکتوب میں ان کی پول کھول دی ہے اور
مخالفات بریلویہ پہ زبردست سرزنش کی ہے ۔اس مکتوب میں خواب سے متعلق لکھتے
ہیں کہ امیر دعوت اسلامی کی تشہیر ونمائش کے لئے خوابوں اور کشف وکرامات کا
بھی باقاعدہ شعبہ ہے جہاں سے بکثرت اور مسلسل اس قسم کی نمائشی چیزوں کی
اشاعت ہوتی رہی ہے ۔دعوت اسلامی کے ایک مبلغ نے خواب دیکھا کہ حضور ﷺ نے اس
سے ارشاد فرمایا: الیاس قادری کو مجھ رحمۃ للعالمین کا سلام فرمانا اور ان
سے کہنا کہ تم خود ابراہیم قادری کو گلے لگالو،جب الیاس قادری سے یہ خواب
بیان کیا تو کہا اسے لوگوں میں بیان مت کرو ورنہ امت میں فساد پھیلے گاجب
دعوت اسلامی کے اراکین میں یہ بات آئی تو کہا معاذاﷲ کیا سرکار? امت میں
فساد ڈالنے کے لئے پیغام بھیج رہے ہیں؟
الیاس قادری کی بہن نے خواب دیکھا کہ ایک بار اس کے والدنوارانی چہرے والے
ایک بزرگ کے ساتھ تشریف لائے ، میرا ہاتھ پکڑکر کہا بیٹی ! تم ان کو
پہنچانتی ہو؟ یہ ہمارے میٹھے میٹھے مدنی آقا ﷺ ہیں ۔ پھر شہنشاہ رسالت مجھ
پر شفقت کرنے لگے اور کہا تم نصیب دار ہو۔
اسی بہن نے ایک اور خواب سنا یاکہ بڑے بھائی جان نے مجھے خواب میں اپنی قبر
کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا جب مجھے قبر میں رکھا گیا اور میری
طرف عذاب بڑھا تو بھائی الیاس کا ایصال میرے عذاب کے درمیان حائل ہوگیا۔
ایک بارخود الیاس قادری نے خواب دیکھا ایک مجلس سجی ہوئی ہے ، جس میں صحابہ
کرام حاضر خدمت ہیں، اعلی حضرت بھی حاضر خدمت ہیں ،آپ یعنی الیاس کے سر پر
عمامہ ہے ۔حضور نے اعلی حضرت کے سرسے عمامہ اتارکر الیاس قادری کے سر پر
رکھ دیا۔ نعوذباﷲ من ذلک
الیاس قادری کی کتاب فیضان سنت میں مذکور ہے ایک شخص نے خواب دیکھا کہ حضور
ﷺ الیاس عطار کے والد سے اس کا تعارف کرارہے ہیں ، الیاس عطار کے والد نے
اس شخص سے کہا الیاس عطار کو کہنا اس کی امی نے بھی سلام بھیجا ہے ۔ اس
واقعہ پر مفتی ابوداؤد قادری نے لکھا ہے کہ خواب دیکھنے والا فخر سے کہہ
رہاہے کہ میں نے الیاس عطار کے والد سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی جبکہ
فخر تو اسے حضور ﷺ سے مصافحہ کرکے کرنا چاہئے تھا۔ حضور ﷺ کو اس نے اہمیت
نہیں دی ۔ مزید آگے لکھتے ہیں : کیا الیاس عطار کی امی کا سلام بھیجنا اس
بات کا ثبوت نہیں ہے کہ الیاس عطار منگھڑت خوابوں کے ذریعہ اپنے سارے
خاندان کے تعلقات حضور ﷺ سے دکھانا چاہتے ہیں؟
(۴۴)قبر ستان میں نماز پڑھنے کا حکم:
نہایت افسوس ناک امر ہے کہ جس کام سے نبی ﷺ نے اپنی امت کو وفات کے وقت منع
کیا تھا لوگ اس کام سے بھی باز نہیں آئے ۔ذرا حدیث رسول ? پڑھیں اور امت
مسلمہ کی حالت زار پر غور فرمائیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں :
قال رسولُ اﷲِ -صلی اﷲ علیہ وسلم -فی مَرَضِہ الذی لم یَقُمْ منہ : لعنّ
اﷲُ الیہودَ والنَّصاری ؛ اتخذُوا قبورَ أنبیائِہم مساجدَ . لولا ذلک أبرزَ
قبرَہ ، غیرَ أنہ خَشِیَ ، أو خُشِیَ أَنْ یُتَّخَذَ مسجدًا .(صحیح
البخاری: 1390)
ترجمہ: رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے جس مرض سے صحت یاب نہ ہو سکے اسمیں
فرمایا :اﷲ تعالی کی لعنت ہو یہود ونصاری پر کہ ان لوگوں نے اپنے نبیوں کی
قبروں کو سجد گاہ(عبادت کی جگہ )بنالیا ،حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ اگر
یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر باہر بنائی جاتی مگر یہ خوف لاحق تھا لوگ آپ
کی قبر کو مسجد بنالیں گے۔
نبی ﷺ کی بیماری کے وقت کے اس فرمان سے قبروں کو سجدہ گاہ بنانیکی شدت کا
پتہ چلتا ہے لیکن افسوس در افسوس مسلمانوں نے نبی ? کے اس فرمان کی بھی قدر
نہیں کی اور لوگوں کی قبروں پہ عبادت گاہ تعمیر کرلئے ۔
قبرستان وہ جگہ ہے جہاں مردوں کو دفن کیا جاتا ہے ، وہ نماز پڑھنے کی جگہ
نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
اجعلوا فی بیوتِکم من صلاتِکم، ولا تتَّخِذوہا قبورًا (صحیح البخاری:1187)
ترجمہ: اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان وہ جگہ ہے جہاں نماز نہیں پڑھی جائے گی
بلکہ بصراحت رسول اﷲ ﷺ نے قبرستان میں نماز پڑھنے سے بھی منع کیا چنانچہ آپ
ﷺ کا فرمان ہے :
الأرضُ کلَّہا مسجدٌ إلَّا المقبرۃَ والحمَّامَ(صحیح الترمذی:317)
ترجمہ: ساری زمین مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ ہے) سوائے قبرستان اور غسل خانہ
کے ۔
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جائے گی اور
نہ ہی نماز پڑھنے کے لئے وہاں مسجد بنائی جائے گی نیز اگر کسی مسجد میں قبر
ہو تو وہاں بھی نماز کا یہی حکم ہے ۔جو قبرستان میں یا قبروں پہ نماز پڑھتے
ہیں وہ سب سے برے لوگ ہیں ۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے :
واعلَمُوا أنَّ شَرَّ الناسِ الذین اتَّخذُوا قُبورَ أنْبیائِہمْ
مَساجِدَ(صحیح الجامع:233)
ترجمہ: اور جان لو !بدتر ین لوگ وہ ہیں جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں
بنالیں۔
اسی طرح قبروں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا یا قبر کے پاس نماز پڑھنا جائز
نہیں ہے ، اگر نماز قبر والے کے لئے ہوتو شرک اکبر ہے ۔ قبرکے پاس نماز
پڑھنے یا قبرکی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کی ممانعت والی دلیل "قبروں کو
سجدہ گاہ نہ بناؤ" بھی ہے کیونکہ اس حدیث کا معنی ہے قبرکی طرف منہ کرکے
نماز پڑھنا یا قبر کے پاس نماز پڑھنا منع ہے ۔ دوسری حدیث میں صراحت کے
ساتھ قبر کی طرف نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تجلِسوا علی القبورِ ولا تصلُّوا إلیہا(صحیح مسلم:972)
ترجمہ: قبروں پرنہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف نماز پڑھو۔
لہذا قبرستان میں یا اس کی حدود میں بنی مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے
، نہ ہی اس مسجد میں نماز جائز ہے جس میں قبر ہو ۔ اگر کسی کی نماز جنازہ
چھوٹ گئی ہوتو وہ قبر کے پاس قبلہ رخ ہوکر نماز جنازہ ادا کرسکتا ہے بس
،باقی نوافل یا پنچ وقتہ نمازیں قبرپہ یا قبرستان میں یا قبرستان کی مسجد
میں جائز نہیں ہے ۔ بعض قبرستان کے بغل میں یا کونے پر یعنی قبرستان کی
باؤڈری سے الگ مسجد بنی ہوتی ہے اس مسجد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ
قبرستان میں داخل نہیں ہے۔
(۴۵)قبروں کی زیارت کے اقسام :
قبروں کی زیارت کے متعلق عوام میں بڑی غلط فہمیاں ہیں ، قبورومزارات کی
زیارت کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا جاتا ہے جوکہ ناجائزوممنوع
ہے۔آج کل تو قبروں کے نام سے گرانقدر تجارت کی جاتی ہے ، وہاں عجیب وغریب
کرشمے دکھاکر لوگوں کو اپنے فریب کا شکار بنایا جاتا ہے ۔ قبروں کا طواف،
عرس ومیلے، غیراﷲ کے لئے نذرونیاز،قبروں کو سجدہ ، مردوں سے استغاثہ ،
مجاروں کے شیطانی کرشمے ، عورتوں کی عفت وعصمت سے کھلواڑ جیسے بڑے بڑے گناہ
کئے جاتے ہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ قبروں کی زیارت مسنون ہے مگر قبر اور
مردوں کے نام پر تجارت کرنا سراسر ایمان کے منافی ہے ۔ حیرت ہے ان لوگوں پر
جو قبروں کی مسنون زیارت کی بجائے یہاں اپنا ایمان ضائع کرتے اور کرواتے
ہیں ۔ نیچے میں قبروں کی زیارت کے اقسام بیان کرتا ہوں تاکہ ہمیں زیارت
قبور کے سلسلے میں صحیح رہنمائی مل سکے ۔ قبروں کی زیارت کے تین اقسام ہیں
۔
(۱)پہلی قسم : یہ مردوں کے ساتھ خاص اور عورتوں کے حق میں کبھی کبھار مشروع
ہے۔ وہ یہ ہے کہ قبروں کی زیارت اہل قبور کے لئے دعا اور آخرت کی یاد دہانی
کے لئے ہونبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
زوروا القبورَ فإنَّہا تذَکِّرُکمُ الآخرۃَ(صحیح ابن ماجہ:1285)
ترجمہ : تم قبروں کی زیارت کرو، اس سے آخرت یاد آئے گی۔
ایک دوسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں ۔
کنتُ نہیتُکم عن زیارَۃِ القبورِ ألا فزورُوہا ، فإِنَّہا تُرِقُّ القلْبَ
، و تُدْمِعُ العینَ ، وتُذَکِّرُ الآخرۃَ ، ولا تقولوا ہُجْرًا(صحیح
الجامع:4584)
ترجمہ:میں نے تمہیں زیارت قبور سے روکا تھا لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو
کہ اس سے رقت قلب پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی
ہے اور بری بات نہ کہو۔
اس حدیث میں زیارت قبر کا جو مقصد بیان کیا گیا اس کا محتاج عورت بھی ہے
اور یہاں زیارت قبر میں مردوں کی طرح عورت بھی شامل ہے،آپ ﷺ نے لعنت صرف ان
عورتوں پر بھیجی ہے جو بکثرت قبروں کی زیارت کرتی ہے اور جو کبھی کبھار
زیارت کرے اس پر لعنت نہیں ہے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان دیکھیں :
لعنَ رسولُ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیْہِ وسلَّمَ زوَّاراتِ القبورِ(صحیح
ابن ماجہ:1290)
ترجمہ : نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے زیادہ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر
لعنت فرمائی ہے۔
عورت کا قبروں کی زیارت کرنے سے متعلق کئی دلائل ملتے ہیں جیسے حضرت عائشہ
رضی اﷲ عنہا کا اپنے بھائی عبداﷲ عبدالرحمن کی قبر کی زیارت کرنا ، آپ رضی
اﷲ عنہا کا رسول اﷲ ﷺ سے زیارت قبر کی دعا پوچھنا اور قبرکے پاس بیٹھی رونے
والی عورت کو نبی ? کا دلاسہ دینا وغیرہ ۔ اس لئے دلائل کی رو سے عورتوں کا
کبھی کبھار قبروں کی زیارت کرنا قوی معلوم ہوتا ہے۔
(۲) دوسری قسم : یہ کہ قبر کے پاس قرات کرنے کے لئے،یا وہاں نماز پڑہنے کے
لئے ، یا وہاں ذبح کرنے کے لئے جایا جائے تو یہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل
میں سے ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
من عملَ عملا لیسَ علیہِ أمرُنا فہو ردٌّ(صحیح مسلم:1718)
ترجمہ : جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں سے نہیں تو وہ باطل و مردود
ہے۔
(۳) تیسری قسم : یہ ہے کہ قبر کی زیارت میت کے لئے ذبیحہ پیش کرنے اور اس
سے ان کا تقرب حاصل کرنے یا اﷲ کے علاوہ میت کو پکارنے کی غرض سے یا ان سے
مدد مانگنے کی نیت سے ہو تو یہ شرک اکبر ہے،گرچہ میت نبی یا صالح یا ان کے
علاوہ ہی کیوں نہ ہو۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ
الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ (المائدۃ:72)
ترجمہ : جو اﷲ کے ساتہ شرک کرتا ہے اﷲ اس پر جنت کو حرام کردے گا اور جہنم
اس کا ٹہکانہ ہے۔
نوٹ : جنازہ کے مسائل کی کثرت کی وجہ سے عنوان میں معمولی تبدیلی کردی گئی
ہے نیز یہ مضمون ابھی جاری رہے گا۔ ان شاء اﷲ |