جو کرنا ہے ابھی کرلو

دن بھر آفس میں کام کر کے جب رات اپنی گاڑی سے گھرآرہا تھا تو بدن کا ہر ہر جوڑ درد کی وجہ سے دکھ رہا تھا، بدن کا ہر ہر حصہ گویا کہ ٹوٹ رہا تھا، اوپر سے شہر کے ٹریفک نے رہی سہی کسر پوری کردی، ہر ہر سگنل پر رکنے کی وجہ سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ آج کی پوری رات ٹریفک میں ہی گزر جائے گی،،، خیر کافی وقت گزرنے کے بعد جب اپنے علاقے میں داخل ہوا تو سانس میں سانس آئی۔
جب گھر کے قریب پہنچا اور گھر نظر آنے لگا تو جلدی کے چکر میں گلی میں داخل ہوتے ہی گاڑی کا ہارن بجانا شروع کر دیا کہ میرے گھر کے سامنے پہنچنے سے پہلے ہی گھر کا دروازہ کوئی نہ کوئی کھول دے،،،،
یہ کیا ہو ا۔۔؟؟
یہ کیسی آواز آئی،،؟؟ گاڑی میں سے ایک عجیب سی آواز آنے پر بے ساختہ یہ کلمات زبان پر جاری ہوگئے،،
جب گاڑی روکی اور باہر آکر چیک کیا تو،،،،،
اوہ میرے خدا!!! یہ بھی اِس وقت ہونا تھا،،،، اچانک گاڑی کا پچھلا ٹائیر پنکچر ہونے پر میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔
اب کیا کروں،، کہاں جاؤں،، کہاں پھنس گیا ِِ؟؟
اتنی تھکن کی حالت میں میری تو اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ میں اسپئیر ٹائیر نکالوں اور تبدیل کرلوں، اب کروں تو کیا کروں؟؟؟ ٹائیر تبدیل کروں یا۔۔۔ گلی میں تو آگیا ہوں گاڑی یہیں لاک کر کے گھر چلا جاؤں؟؟
بالخیر تھکن کے آگے میں ہتھیار ڈال دئیے ، اور گاڑی لاک کر کے اپنے گھر چلا گیا اور یہ سوچا کہ صبح اٹھ کر پہلے ٹائیر تبدیل کرونگا، پھر پنکچر والے کو یہ ٹائیر بنانے کے لئے دیتا ہوا آفس چلا جاؤنگا۔۔۔آفس جانا بھی کل بہت ضروری ہے کسی صورت چھٹی نہیں کرسکتا، کل ایک اہم میٹنگ ہے جس میں میرے پراموشن(promotion) کی بات بھی ہونی تھی،، یہ سب وہ خیالات تھے جو میں اپنی گاڑی سے اتر کر گھر آتے آتے سوچ رہا تھا۔۔۔
بالآخر کئی مشقتیں اٹھانے کے بعد جب گھر میں داخل ہوا تو گویا کچھ سکون کا سانس آیا،، اور جب اپنے کاموں سے فارغ ہو ا ور بستر پر آکر لیٹا تو معلوم نہیں کب نیند آئی اور کب میں گہری نیند میں سو گیا ۔۔۔
صبح جب الآرم بجا تو معلوم نہیں کب میں نے اٹھ کر اسکو بند کر دیا اور دوبارہ سوگیا، کل رات کی تھکن کا احساس مجھے اب تک ہورہا تھا،،، اب ہونا کیا تھا جب میں وقت پر ناشتے کے لئے نہ پہنچا تو ملازمہ نے آکر اٹھایا۔۔
صاحب جی ،،، اٹھ جائیں آفس کا ٹائم ہوگیا ہے۔۔
بس اتنی آواز میرے کانوں میں آنی تھی کہ میری نیند جیسے کسی نے جادو کر کے ایسے غائب کر دی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔
اور جب ٹائم دیکھا تو میرے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی۔ گھڑی میں 8.55 ہو رہے تھے اور مجھے ۹ بجے آفس میں ہونا تھا۔ اب کیاکرتا بھاگتا بھاگتا جیسے تیسے کپڑے تبدیل کئے اور ناشتہ کئے بغیر گھر سے نکل پڑا اور جیسے ہی گاڑی کے پاس آ یا تو یہ دیکھ کر مزید ٹیشن بڑھ گئی کہ گاڑی کا ٹائیر پنکچر ہے اور اگر میں رات کو تبدیل کر لیتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
چلو ابھی تبدیل کرلیتا ہوں!!! یہ سوچ کر جب میں نے گاڑی کی ڈگی سے ٹایئر نکالنے کے لئے دوڑا اور جب ٹائیر نکالا تو ۔۔۔۔
میں سر پکڑ کر زمین پر ہی بیٹھ گیا کہ ہائے میرے خدا،،،،!!!
یہ ٹائیر بھی پنکچر ہے یہ پچھلی دفعہ جب تبدیل کیا تھا تو اسکا پنکچر لگوانا تھا لیکن میں نے سستی کی وجہ سے نہیں لگوایا اور مزید سستی یہ کہ اگر میں رات کو ہی دیکھ لیتا تو رات کو ہی دونوں ٹایئروں میں پنکچر لگوا لیتا ۔۔۔۔ لیکن اب کیا کروں کیسے آفس جاؤں،،،،؟؟؟؟
یہ کہانی اس شخص کی تھی جس نے اپنے وقت کی قدر نہ کی اور وقت کو تھوڑی سی سستی کی وجہ سے ضائع کر دیا لیکن۔۔۔۔۔۔
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئی کھیت۔۔۔
کہیں ہمارا بھی تو ایسا ہی معاملہ نہیں ہم ذرا سی سستی کی وجہ سے اپنے وقت کو ضائع کر دیتے ہیں کہ چھوڑو یار۔۔۔۔ بعد میں کر لینگے ۔۔ کل کر لینگے۔۔۔ پھر کبھی کر لینگے۔۔۔ آج دل نہیں چاہ رہا ۔۔۔ تو یاد رکھیئے کہ کل کبھی نہیں آتا۔۔
آج کا کام آج کرو کل پر مت چھوڑو کیونکہ کل مزید دوسرے کام ہے۔۔۔
یہی اس کہانی کا سبق ہے کہ ’’جو کرنا ہے ابھی کرلو‘‘

Mudarris Ahmed Raza Madani
About the Author: Mudarris Ahmed Raza Madani Read More Articles by Mudarris Ahmed Raza Madani: 5 Articles with 7148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.