ایک خطرناک فتنہ

ہمارا شہر حیدرآبادجہاں علم وادب کا منبع اور دینی اداروں اورتحریکات کا مرکز ہے، وہیں ہر قسم کے فتنوں کی آماجگاہ بھی ہے، ایک طرف اگر اس شہر کی دینی خدمات کا ایک روشن باب ہے تو وہیں اس شہر میں گمراہ فرقوں، باطل نظریات اور گمراہ کن خیالات کی بھی خوب آبیاری ہوئی ہے، شاید ہی کوئی فتنہ ہو جس نے اس شہر فرخندہ بنیاد کو دستک نہ دی ہو، اور شاید ہی کوئی جادۂ حق سے ہٹا ہوا گروہ ہو جس کے ماننے والے یہاں نہ ملتے ہوں، ملک کے کسی بھی کونے میں جب کوئی فتنہ سر اٹھاتا ہے تو اس کی گونج حیدرآباد میں ضرورسنائی دیتی ہے، یہاں ہر باطل نظریہ کے لیے کھاد فراہم ہوجاتی ہے ،جس وقت دہلی میں جھوٹے مدعی مہدویت شکیل بن حنیف کا فتنہ سر اٹھایا تھا اس کی گونج حیدرآبادمیں بھی سنائی دی، ہمایوں نگر مسجد عزیزیہ جیسے تعلیم یافتہ لوگوں کے علاقہ میں چند نوجوان اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جب وہ شکیل بن حنیف کی دعوت دے رہے تھے، یہ تو اچھا ہوا بروقت ان کی سرکوبی کی گئی، اطلاعات سے سے پتہ چلا ہے کہ حیدرآباد میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاصی تعداد شکیل بن حنیف کے دام فریب میں آچکی ہے، امریکہ اور یورپ میں پھیلنے والے فتنۂ گوہرشاہی سے بھی یہاں بعض افراد کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔
شہر حیدرآباد میں پنپ رہے مختلف فتنوں میں ایک فتنہ، فتنۂ انکار ِحدیث بھی ہے، جو عمل بالقرآن کے خوشنما غلاف میں اپنے پیر پھیلا رہا ہے، اس فتنہ سے متاثر افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے، یہ فتنہ کس قدر جڑ پکڑتا جارہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ ہفتہ شہر کے ایک انتہائی قدیم اردوروز نامہ میں بڑے اہتمام سے انکار ِحدیث پر مشتمل مواد شائع کیا گیا ہے، اور نیچے سلسلہ جاری ہے درج کیا گیا ہے’’قرآن اور مسلمان‘‘ کے حسین عنوان سے نمایاں طور پر گول ڈبہ میں دئے گئے اس مضمون کا آغاز جس طرح کیا گیا ہے اس سے خود مضمون کی خطرناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، مضمون کا آغاز یوں کیا گیا ہے’’اگر حدیثیں دین کا جز ہوتیں تو کیارسول اﷲ پر یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا تھا کہ وہ دین کے اس حصہ کو بھی مستند طور پر مرتب کرکے امت کو دے کر جاتے؟ احادیث کے مجموعے حضورا کی وفات کے بعد بہت عرصہ بعد لوگوں نے انفرادی طور پر مرتب کئے تھے، کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ رسو ل اﷲ ا دین کے ایسے اہم حصہ کو اس طرح چھوڑ کر چلے جاتے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم ا کے نزدیک یہ حصہ دین کا جز تھا ہی نہیں، جو لوگ اب احادیث کو دین سمجھ رہے ہیں ان سے یہ سوال پوچھئے ان میں سے کوئی بھی اس کا اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے گا‘‘اس مختصر سے اقتباس کو بار بار پڑھئے اور پھر دیکھئے کہ یہ امت کو ذخیرۂ احادیث سے کاٹنے کی کتنی گہری سازش ہے، اس میں صاف کہاجارہا ہے کہ احادیث دین کا جز ہی نہیں ہیں اور ان کو دین سمجھنا سراسر غلطی ہے، یہ در اصل فتنۂ انکار ِحدیث کا شاخسانہ ہے، ذیل کے مضمون میں اس فتنہ کے اہم خدوخال پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ احادیث شریفہ کے دین کا جز ہونے پر شروع سے امت کا اجماع ہے اور احادیث کی حفاظت عہد ِرسالت ہی سے کی جاتی رہی ہے، نیز اس فتنہ کے آغاز اور اس کی شخصیات اور ان کے نظریات کا بھی مختصر جائزہ لیا گیا ہے:
اسلامی تعلیمات میں جامعیت اور ہمہ گیر یت احادیثِ رسول سے آئی ہے؛ اگر شریعتِ اسلامی سے احادیثِ رسول ا کو علیحدہ کرلیا جائے تو اسلامی تعلیمات کے ایک بڑے حصہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا؛ چونکہ دستورِ حیات کی حیثیت سے مکمل دین پر عمل نفس کے لیے شاق گذرتا ہے اس لیے شکوک وشبہات کے مریض اور خواہش نفس کے غلام ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ کسی نہ کسی عنوان سے ذخیرۂ احادیث سے دامن چھڑالیا جائے، حدیث سے بے نیازی یا انکارِ حدیث کا فتنہ آج کی نئی پیداوار نہیں ہے؛ بلکہ نبیٔ رحمت انے اپنی حیات ہی میں اس فتنہ کے ظہور کی پیشین گوئی فرمائی تھی؛ چنانچہ آپ کا ارشاد ہے ’’خبردار! عنقریب ایسا وقت بھی آئے گا کہ کسی شخص کو میری حدیث پہونچے گی وہ اپنے تخت پر (بے نیازی کے ساتھ) ٹیک لگائے بیٹھ کر اس کے جواب میں کہے گا کہ ہمیں کتاب اﷲ کافی ہے، ہم صرف اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھیں گے (کسی اور کے کلام کی ہمیں ضرورت نہیں) خبردار! (اچھی طرح سمجھ لو) مجھے کتاب اﷲ دی گئی اس کے ساتھ اتنی ہی مقدار بھی دی گئی ہے (یعنی وحی متلو کے ساتھ وحی غیرمتلو بھی ہے) (ابوداؤد، ترمذی،مشکوٰۃ:۲۹)

انکارِ حدیث کی بنیاد سب سے پہلے فرقہ معتزلہ نے رکھی، اس فرقہ نے عقل کو شریعت کے تابع کرنے کے بجائے شریعت اور امورِ شرعیہ کو عقل کے تابع کردیا، اس فرقہ کے ظہور سے قبل پہلی صدی تک امت احادیث صحیحہ کو قابل حجت سمجھتی تھی، فتنہ انکار حدیث پہلی صدی کے بعد کی پیداوار ہے، اس سلسلہ میں مشہور محدث مولانا بدر عالم میرٹھی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ترجمان السنۃ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اسلام میں تقریباً پہلی صدی تک صحیح احادیث کو بلا تفصیل متفقہ طور پر حجت سمجھا جاتا تھا،حتی کہ معتزلہ کی ابتدا ہوئی، ان کے دماغوں پر عقل کا غلبہ تھا؛ انہوں نے حشرونشر رؤیت ِباری تعالیٰ صراط ومیزان اور اس قسم کی احادیث کو قابل تسلیم نہ سمجھا اور اپنے اس مزاجی فساد کی وجہ سے اخبار ِ متواترہ کے سوا بقیہ احادیث کا سرے سے انکار کردیا اور بہت سی قرآنی آیات جو اپنے وجدان کے خلاف دیکھا ترک کر ڈالیں‘‘ (ترجمان السنۃ: ۹۲/۱)

بقول علامہ ڈاکٹر خالد محمود: ’’واصل بن عطا پہلی صدی کے آخر میں ابھرا اور عقل کے ھتیاروں کی تیزی میں بہت سے ذخیرۂ حدیث کو کچلتے ہوئے آگے نکل گیا۔ ‘‘(آثارالحدیث: ۴۰۳/۲)

یہ حیرت انگیز بات ہے کہ دوسری صدی ہجری میں معتزلہ نے عقل کے غلبہ کے نتیجہ میں انکارِ حدیث کے جس فتنہ کی بنیاد رکھی تھی، تیرھویں صدی ہجری میں پھر یہ فتنہ دین کو عقل کے تابع کرنے کی اساس پہ ظہور پزیر ہوا، اس طرح تیرھویں صدی میں نیچری تحریک کا آغاز دراصل معتزلہ کی نشاۃ ثانیہ تھی، بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں یہ فتنہ برصغیر ہندوپاک میں سراٹھایا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں: ’’بیسویں صدی کے آغاز میں جب مسلمانوں پر مغربی اقوام کا سیاسی نظریاتی تسلط بڑھا تو کم علم مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب تھا وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں ترقی بغیر تقلید مغرب کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ لیکن اسلام کے بہت سے احکام اس کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، اس لیے اس نے اسلام میں تحریف کا سلسلہ شروع کیا تاکہ اسے مغربی افکار کے مطابق بنایا جاسکے، اسی لیئے اس کو اہل تجدد کہا جاتا ہے، ہندوستان میں سرسیداحمد خان مصر میں طٰہٰ حسین ترکی میں ضیاء گو ک اس طبقہ کے بانی تھے، اس طبقہ کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے تھے جب تک کہ حدیث کو راستہ سے نہ ہٹایا جائے؛ کیونکہ احادیث میں زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق ایسی مفصل ہدایات موجود ہیں جو مغربی افکار سے صراحۃً متصادم ہیں؛ چنانچہ اس طبقہ کے بعض افراد نے حدیث کو حجت ماننے سے انکار کیا، یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمد خان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علی الاعلان اور وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی اس کی صحت سے انکار کردیا خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید مطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا، اس ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند جواز دی گئی ۔ (درسِ ترمذی: ۲۶/۱)

فتنہ انکارِ حدیث کو اس وقت قدرے تقویت ملی جب اس کی باگ ڈور مولوی عبداﷲ چکڑالوی نے سنبھالی،یہ پہلا شخص تھا جس نے کھلے عام حدیث کا انکار کیا، مولوی عبداﷲ چکڑالوی کس شدت کے ساتھ انکارِ حدیث کے نظریہ پر قائم رہا،اس کا اندازہ اس کی تفسیر ترجمۃ القرآن بآیات القرآن کے ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے، ایک جگہ لکھتا ہے: ’’کتاب اﷲ کے مقابلہ میں انبیاء اور رسولوں کے اقوال وافعال یعنی احادیث قولی فعلی تقریری پیش کرنے کا مرض ایک قدیم مرض ہے‘‘ کسی جگہ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور شیٔ رسول اﷲ ا پر نازل ہوئی تھی؛ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سوا کسی اور چیز سے دینِ اسلام میں حکم کرے گا تو وہ مطابق آیات مذکورہ بالا کا فر اور فاسق ہوجائے گا‘‘ (تفسیر ترجمۃ القرآن: ۴۲)

حدیث کے تعلق سے عبداﷲ چکڑالوی کی یاوہ گوئی کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجئے: ’’فی الحقیقت حدیث میں اس قدر لغویات ہزلیات اور دور ازکارباتیں مندرج ہیں کہ وہ اس کی شکل کو نہایت بدنما بناتی ہیں؛ لیکن واضعین حدیث نے یہ بڑی کاریگری کی کہ اس کو خاتم النبیین کی طرف منسوب کیا اور اس طرح اس کے بدشکل چہرہ پر سفید پاؤڈر ملادیا‘‘ (ترجمان الفرقان: ۱۰۹)

اس سے آگے بڑھ کر اس نے سرے سے حدیث کی حاجت ہی کا انکار کیا اور لکھا ’’قرآن مجید میں دینِ اسلام کی ہرایک چیز‘‘ من کل الوجوہ مفصل ومشرح طور پر بیان ہوگئی ہے تو اب وحی خفی یاحدیث کی کیا حاجت رہی؛ بلکہ اس کا ماننا اور دینِ اسلام میں اس پر عمل درآمد کرنا سراسرکفر وشرک اور ظلم وفسق ہے، مولوی عبداﷲ چکڑالوی نے اہلِ قرآن کے نام سے ایک گروہ کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد انکار حدیث تھی، عبداﷲ چکڑالوی کے بعد اسلم جیراج پوری نے اس فتنہ کو آگے بڑھایا، اسلم جیراج پوری متشدد منکر حدیث تھا، حدیث کے تعلق سے اس کے گمراہ کن عقائد کا اندازہ اس کی کی کتابوں کے چند اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے: ایک جگہ لکھتا ہے:
’’نہ حدیث پر ہمارا ایمان ہے اور نہ اس پر ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا، نہ حدیث کے راوی پر ہمارا ایمان ہے نہ اس پر ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے؛ پھر یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایسی غیر ایمانی اور غیریقینی چیز کو ہم قرآن کی طرح حجت مانیں (مقام حدیث، بحوالہ آثار الحدیث: ۴۱۳/۱)

اسلم جیراج پوری کے بعد نیاز فتح پوری میدان میں اترا، اس نے بھی انکارِ حدیث میں ہر طرح کی حدود کو پھلاند دیا؛ حتی کہ اس نے مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار حدیث کو ٹھرایا؛ چنانچہ وہ لکھتا ہے: ’’اگر مولویوں کی جماعت واقعی مسلمان ہے تو میں یقینا کافر ہوں اور اگر میں مسلمان ہوں تو یہ سب نامسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کے نزدیک اسلام نام ہے صرف کورانہ تقلید کا اور تقلید بھی رسول واحکام رسول کی نہیں بلکہ بخاری ومسلم ومالک وغیرہ کی اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی کیفیت یقین کی اس وقت تک پیداہی نہیں ہوسکتی جب تک ہرشخص اپنی جگہ غور کر کے کسی نتیجہ پر نہ پہونچے قصہ مختصر یہ کہ اولین بیزاری اسلامی لٹریچر کی طرف سے مجھ میں احادیث نے پیدا کیا‘‘ (آثارالحدیث: ۴۱۷/۲)

منکرین حدیث کے حلقے میں ایک مشہورنام تمنا عمادی کاہے، اس نے دوسروں کے مقابلہ میں قدرے علمیت کا سہارا لیا؛ انکارِ حدیث کے لیے وضع حدیث کا سہارا لیا اور براہ ِ راست انکار کے بجائے ان روایتوں کو مسترد کردیا جو ان کی فہم میں خلاف قرآن ہیں، نیز ائمہ حدیث پر بے اعتمادی کا اظہار کیا؛ چنانچہ اس کے بقول وہی حدیث صحیح ہے جو قرآن سے قریب تر ہو اور باقی سب غلط ہے، چاہے ان کے راوی کتنے ہی ثقہ کیوں نہ ہوں اور وہ صحاح ستہ کی متفق علیہ حدیثیں بھی کیوں نہ ہوں اور وہ ایک حدیث جو قرآن سے قریب تر ہے اس کا راوی کیسا ہی مجروح کیوں نہ ہو اور وہ صحاح ستہ سے باہر ہی کی حدیث کیوں نہ ہو بلکہ شیعوں کی اصول کافی وغیرہ ہی کی حدیث کیوں نہ ہو؛ منکرین حدیث میں ایک نام ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا ہے، انہوں نے اپنی کتابوں ’’قرآن اور سلام‘‘،’’ جہانِ نو ‘‘وغیرہ میں شدت کے ساتھ انکارِ حدیث کانظریہ پیش کیا ہے؛ البتہ غلام احمد پرویز کے دور میں یہ فتنہ بامِ عروج کو پہونچا؛ اس نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ اس فتنہ کو پروان چڑھایا، بقول علامہ خالد محمود:’’آپ کا اندازتصنیف کچھ زیادہ سلیقہ دار اور الجھا ہوا ہے جس میں جھانک کر اصل فتنے کی نشاندی کرنا واقعی ایک بڑا مشکل کام ہے آپ نے تفسیر مفہوم القرآن نو جلدوں میں تحریر کی ہے جو حسن عبارت اور حسن طباعت میں نفیس کتاب ہے؛ لیکن اس میں کس طرح اسلام کے مسلم نظریات سے کھیلا ہے اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انکارِ حدیث کا نظریہ پرویز صاحب کو کہاں تک اسلام سے دور لے گیا ہے‘‘ (آثارالحدیث: ۴۲۲/۲)

غلام احمد پرویز نے اس فتنہ کو مستقل تحریک اور مکتب فکر کی شکل دے دی انہوں نے اپنے کئی خیالات کی اشاعت کے لیے پاکستان میں اپنے سرکاری اثرورسوخ کا خوب استعمال کیا ، جدید تعلیم یافتہ لوگ کسی درجہ میں ان کے اردگرد جمع ہوگئے پرویز نے اپنے اس موقف پر ادبی انداز میں خاصا لٹریچر مہیا کیا ،پہلے اس خیال کے لوگوں کو چکڑالوی کہا جاتا تھا، اب انھیں پرویزی کہتے ہیں۔ (آثارالحدیث: ۲۲۴/۲)

فتنہ انکارِ حدیث اب ایک تحریک اور جماعت کی شکل اختیار کرگیا ہے، پاکستان میں تو اس تحریک کے باقاعدہ ادارے ہیں جن سے سینکڑوں افراد وابستہ ہیں، ان اداروں سے انکارِ حدیث کے موضوع پر لٹریچر کی اشاعت عمل میں آتی ہے، ہندوستان میں بھی منکرین حدیث کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے، عرب ممالک بالخصوص مصر وغیرہ میں بھی اس فتنہ کی جڑیں مضبوط ہیں، ہمارے اکابر نے جہاں دیگر باطل فرقوں اور فتنوں کا تعاقب کیا ہے وہیں اس فتنہ کا بھی بھرپور تعاقب کیا ہے، عصر حاضر کے معروف عالم دین ممتاز صاحبِ قلم شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بنیادی طور پر منکرینِ حدیث کے تین نظریات ذکر کئے ہیں؛ پھر ان کی مدلل طریقہ سے تردید فرمائی ہے مولانا تحریر فرماتے ہیں :’’منکرین حدیث کی طرف سے جو نظریات اب تک سامنے آئے ہیں وہ تین قسم کے ہیں‘‘
(۱) رسول کریم ا کا ذمہ صرف قرآن پہونچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، آپ کی اطاعت من حیث الرسول نہ صحابہؓ پر واجب تھی اور نہ ہم پر واجب ہے (معاذ اﷲ) اور وحی صرف متلو ہے اور وحی غیرمتلو کوئی چیز نہیں ہے؛ نیز قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے حدیث کی حاجت نہیں۔
(۲)آنحضرت ا کے ارشادات صحابہؓ پر تو حجت تھے لیکن ہم پر حجت نہیں۔
(۳)آپ ا کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں‘‘ (درس ترمذی: ۲۶/۱)

ان تینوں نظریات کا باطل اور خلاف قرآن وسنت ہونا واضح ہے، صرف قرآن کو واجب الاطاعت سمجھ کر پیغمبر کی اطاعت کی نفی کرنا خود نص قرآن کے خلاف ہے، قرآن مجید میں بار بار اﷲ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت پر زور دیا گیا ہے؛ جگہ جگہ اطیعوااﷲ کے ساتھ واطیعواالرسول کا ذکرہے۔

سورۂ نساء میں رسول اﷲ ا کی اطاعت اور آپ کے ارشادات کے واجب الاتباع ہونے کا تذکرہ دوٹوک انداز میں کیا گیاہے اور جو ایسا نہ کرے اس کے ایمان کی نفی کی گئی ہے، ارشاد ہے:فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیماً(النساء:۶۵) قسم ہے آپ کے رب کی یہ ایمان دار نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اورفرمانبرداری کے ساتھ قبول کریں۔

پیغمبر کی حقیقت صرف ڈاکیہ کی نہیں بلکہ پیغمبر شارع اور کتابِ الٰہی کا شارح ہوتا ہے، پیغمبر کی شرح ووضاحت کے بغیر کتاب الٰہی کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں، ارشادِ خداوندی ہے: وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیہم(النحل:۴۴)اور ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ آپ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے کھول کھول کر بیان کریں، تبیین کتاب کے علاوہ تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیۃ النفس آپ کے فرائض ِمنصبی میں سے ہے؛ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:ھوالذی بعث فی الامیین رسولاً منہم یتلو علیھم آیاتہ ویزکیہم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین(الجمعۃ: ۲) اگر آپ کے ارشادات اور احادیث کو حجت نہ مانا جائے تو پھر کتاب اﷲ کی تشریح اور کتاب وحکمت کی تعلیم کیسے ممکن ہوسکتی ہے، اس سلسلہ میں خود قرآن کریم کا اسلوب سب سے بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

قرآن میں سابقہ انبیاء ِکرامؑ کے اقوال وارشادات بکثرت ذکر کئے گئے ہیں؛ پھر ان انبیاء کرامؑ کی اطاعت کو ان کی اقوام کے لیے واجب قرار دیا گیا اور نہ ماننے والوں کو عذاب کی دھمکی دی گئی؛ اگر انبیاء کے اقوال اور خود انبیاء واجب الاتباع نہ ہوتے تو ان کی بات نہ ماننے والوں پر عذاب کیوں نازل کیا جاتا، اس مسئلہ پر غور کرنے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جن انبیاء پر آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ان کی تعداد بہت کم ہے باقی بیشتر انبیاء پر کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوئی، ایسے میں اگر ان کے ارشادات واقوال بھی حجت نہ رہیں تو پھر ان کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، احادیث رسول کا اس لیے بھی حجت ہونا ضروری ہے کہ قرآن میں عموماً ہر شعبہ سے متعلق صرف بنیادی اصولوں پر اکتفا کیا گیا ہے، تفصیلات سے تعرض نہیں کیا گیا؛ حتی کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے اسلامی ارکان کی بھی تفصیلات مذکور نہیں، اگر احادیث حجت نہ ہوں اور رسول اﷲ ا کی ذات بابرکت واجب الاتباع نہ ہو تو پھر اسلام پر عمل ہی ناممکن ہے۔

جہاں تک وحی غیرمتلو کے انکار کا تعلق ہے تو یہ بھی خود قرآنی وضاحتوں سے ٹکرانے والی بات ہے، قرآنی آیات خود وحی غیرمتلو کی شہادت دیتی ہیں، سورۂ بقرہ میں تحویل قبلہ کے ضمن میں ارشاد ہے:وماجعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ(البقرۃ:۱۴۳) آیت میں جس قبلہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد ’’بیت المقدس‘‘ ہے، ’’جعلنا‘‘کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم اﷲ نے دیا تھا؛ جب کہ پورے قرآن میں کہیں یہ حکم نہیں ملتا، جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ حکم اﷲ نے وحی غیرمتلو کی شکل میں دیا تھا، اس قسم کی دسیوں آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔

منکرین احادیث کا دوسرا نظریہ کہ احادیث صحابہؓ کے لیے تو حجت تھیں لیکن ہمارے لیے حجت نہیں خود قرآن سے مسترد ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر نبی کریم ا کو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے رسول قرار دیا گیا ہے، آپ کی کتاب کو ساری انسانیت کے لیے ہدایت اور خود آپ کو ساری انسانیت کے لیے رحمت قرار دیا گیا، ارشادِ ربانی ہے: قل یا ایھاالناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا ً(الاعراف:۵۸) دوسری جگہ ارشاد ہے: وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیراً (الانبیاء: ۷ ۱۰)

منکرین احادیث کا تیسرا نظریہ جوعموماً ان کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعتراضات میں مضبوط اعتراض سمجھا جاتا ہے، وہ یہ کہ احادیثِ رسول حجت ضرور ہیں؛ لیکن وہ ہم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچیں، عموماً منکرین حدیث اس نظریہ کو بڑے شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں؛ لیکن یہ نظریہ جس شدت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اتنا ہی بودا اور بے بنیاد ہے؛ اگر اس نظریہ کو درست مان لیا جائے تو پھر قرآن سے بھی نعوذ باﷲ کنارہ کشی اختیار کرلینی پڑے گی؛ اس لیے کہ قرآن مجید جن واسطوں سے ہم تک پہنچا ہے؛ انہی واسطوں سے احادیثِ رسول بھی پہنچی ہیں، قرآن مجید سے حفاظتِ احادیث کا کھلا ثبوت ملتا ہے، ارشادِ ربانی انانحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون(حجر:۹) میں قرآن مجید کی حفاظت کا جو ذمہ لیا گیا ہے اس میں حفاظت احادیث بھی داخل ہے، اس لیے کہ حفاظتِ قرآن کا مطلب صرف الفاظِ قرآن کی حفاظت نہیں بلکہ معانی قرآن اور تشریحات ومطالب قرآن بھی اس میں شامل ہیں اور احادیثِ رسول دراصل آیاتِ قرآنیہ کی تشریحات ومطالب ہیں،ان کے بغیر ان آیات کے حقیقی مصداق تک رسائی ممکن نہیں؛ پھر غور کرنے کی بات ہے کہ جب آپ نے احادیث کے واجب الاتباع ہونے کو تسلیم کرلیا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ احادیث محفوظ ہیں ورنہ خدا تعالیٰ بندوں پر ایسی چیز کیسے ضروری قرار دیں گے جو انکے بس سے باہر کی ہے۔

احادیثِ رسول کس قدر محفوظ ہیں اس کا اندازہ تاریخ تدوین حدیث سے لگایا جاسکتا ہے، احادیث کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے منکرین حدیث کی جانب سے یہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ احادیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں عمل میں آئی، عہدِرسالت اور عہدِ صحابہؓ میں حفاظتِ حدیث کا اہتمام نہیں کیا گیا؛ جبکہ یہ بات سراسر خلافِ حقیقت ہے، تدوینِ حدیث پر لکھی گئی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ا اور صحابہؓ کے زمانہ ہی سے حفاظت حدیث کا اہتمام ہوتے آرہا ہے، عہدِرسالت اور عہدِصحابہ میں حفاظتِ حدیث کے تین طریقے رائج تھے (۱)حفظ (۲)تعامل (۳)کتابت۔

سب سے پہلے تو صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد صحبت نبوی ا میں رہ کر آپ کے ارشادات کو ذہن میں محفوظ کرتی تھی، عربوں کو اﷲ تعالیٰ نے حیرت انگیز حافظہ عطا فرمایا تھا، دورِ جاہلیت میں وہ ہزاروں اشعارزبانی یاد رکھتے تھے، معمولی اشعار کا جب یہ حال تھا تو احادیثِ رسول جو دین کا سرچشمہ ہیں کسقدر اہتمام سے یاد نہ کئے جاتے ہوں گے، حضور ا اپنے ارشادات کے ذریعہ آپ کی باتوں کو یاد رکھنے اور انہیں دوسروں تک پہونچانے کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے؛ چنانچہ صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین بکثرت احادیث یاد رکھا کرتے تھے، دوسرا طریقہ تعامل کا تھا، یعنی آپ کے ہر ارشاد کو عملی جامہ پہناکر محفوظ کرلیا جاتا تھا۔

صحابہؓ جانتے تھے کہ نبی کا ہرقول وفعل واجب الاتباع ہے؛ پھر انہیں نبی کریم ا سے حد درجہ محبت تھی؛ چنانچہ وہ آپ کی ہرہربات کو عملی زندگی کا جز بنادیا کرتے تھے اور کسی بھی چیز کو محفوظ کرنے کا یہ ایک نہایت مؤثر طریقہ ہے۔

تیسرا طریقہ کتابتِ حدیث کا تھا، نبی کریم ا کے زمانہ میں محدود پیمانہ پر ہی سہی احادیث کے لکھنے کا طریقہ بھی رائج تھا، بعض صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین متفرق طور پر احادیث کو لکھوایا کرتے تھے؛ بعض صحابہؓ اپنے شخصی صحیفہ میں محفوظ کیا کرتے تھے؛ چنانچہ عہد صحابہ میں احادیث کے کئی مجموعی ذاتی ڈائری کی نوعیت کے پائے جاتے تھے، مسند احمد کے مطابق حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص جو احادیث نوٹ کرتے تھے اس کا نام ’’الصحیفۃ الصادقہ‘‘ رکھا تھا، حضرت عمرؓ کا صحیفہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا، جس میں دیات اور قصاص وغیرہ سے متعلق احادیث درج تھیں، زکوٰۃ، صدقات اور عشر وغیرہ سے متعلق جو احادیث خود حضورا نے املا کروائی تھیں، ان کے مجموعہ کو کتاب الصدقہ کہا جاتا تھا، اسی طرح صحیفہ ابن عباس صحیفہ جابر بن عبداﷲ صحیفہ سعد بن عبادہ اور دیگر صحابہ کے صحف ملتے ہیں۔

منکرین حدیث، مسلم شریف کی ایک حدیث کو بنیاد بناکر عہدِ رسالت میں کتابت ِحدیث کی نفی کرتے ہیں، مسلم کی حدیث ہے: لاتکتبوا عنی ومن کتب عنی غیرالقرآن فلیمحہلیکن وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ بات آپ نے کس سیاق اور کن حالات میں فرمائی تھی یہ بالکل ابتدائے اسلام کی بات تھی جب قرآن ابھی نازل ہورہاتھا اورپورے طور پر ایک نسخہ میں مدون نہیں ہوا تھا، متفرق طور پر صحابہ کرام کے پاس لکھا ہوا تھا اور صحابہ خود پورے طور پراسلوب ِ قرآن سے آشنا نہیں تھے، آپ نے کتابت احادیث کی ممانعت اس لیے فرمائی کہ کہیں کہ وہ قرآن کے ساتھ گڈمڈ نہ ہو جائیں؛ لیکن جب یہ خطرہ ختم ہوا تو آپ نے نہ صرف کتابتِ حدیث کی اجازت دی بلکہ اس کی تلقین فرمائی۔

منکرین حدیث کتابت حدیث کی ممانعت پر دلالت کرنے والی حدیث کو تو بڑی فراخ دلی سے قبول کرتے ہیں؛ لیکن ان حدیثوں کو خاطر میں نہیں لاتے جن سے احادیث کی کتابت کی ترغیب ثابت ہوتی ہے، ابوداؤد اورمستدرکِ حاکم میں حضرت عبداﷲ بن عمر وبن عاصؓ کا واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اﷲ ا سے سنی گئی ہرچیز لکھ لیا کرتا تھا، قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور ا سے سنی گئی ہرچیز قید ِتحریر میں لاتے ہو حالانکہ حضور ا بھی انسان ہیں آپ دورانِ گفتگو کبھی خوش رہتے ہیں کبھی غصہ میں، قریش کے کہنے پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور نبی کریم ا کے سامنے سارا واقعہ رکھا تو آپ نے اپنی انگلی سے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میری زبان سے ہمیشہ حق ہی نکلتا ہے (ابوداؤد: ۵۱۳/۲)

انکار حدیث کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں ہے یہ دراصل امت مسلمہ کو شریعت اسلامی سے دور کرنے کی صہیونی وصلیبی سازش ہے، بقول مولانا سمیع الحق صاحب:
’’مرزائیت کی طرح انکار حدیث بھی سامراجی منصوبوں اور صہیونی سازشوں کا ہی ایک حصہ ہے‘‘
دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں: ’’یہ فتنہ اپنی فتنہ سامانیوں کے لحاظ سے اسلام کے لیے ان فتنوں سے کسی طرح کم نہیں جو تاریخ کے ہردور میں اہل الحاد وزندقہ اور پھر جھوٹے مدعیان نبوت نے منصبِ نبوت میں دجل وتلبیس کرکے اسلام کے خلاف کھڑے کئے‘‘ (خصوصی شمارہ، شاہ راہِ علم، رجب، شعبان، رمضان ۱۴۲۶ھ)

اس فتنہ کے بانیوں کے افکار کس قدر گمراہ کن ہیں، ذیل کے اقتباسات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے :’’میرا دعویٰ تو صرف اتنا ہے کہ فرض بھی دو ہیں اور ان کے اوقات بھی دو ہیں، باقی سب نوافل ہیں‘‘ (عباداﷲ اختر طلوع اسلام: ۵؍اگست ۱۹۵۰ء)

’’آج کے مسلمان دونمازیں پڑھیں؛ کیوں مسلمان نہیں ہونگے‘‘(طلوع اسلام: ۶؍اگست ۱۹۵۰ء)

’’حدیث کا صحیح مقام تاریخ وغیرہ کا ہے اس سے تاریخی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں؛ لیکن دینی صحت کے طور پر نہیں پیش کیا جاسکتا ہے‘‘ (اسلم جیراج پوری، طلوع اسلام: ۱۷؍ڈسمبر ۱۶۵۰)

’’حدیث کا پورا سلسلہ ایک نجی سازش ہے اور جس کو شریعت کہا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی پیدا کردہ ہے‘‘ (پرویز، طلو ع اسلام: ۷؍اکتوبر ۲۹۵۲ء)

’’حج کے دن بارہ بجے تک دس کروڑ روپئے کا قومی سرمایہ ضائع ہوجاتا ہے اور یہ دس کروڑ ہرسال ضائع ہوتے ہیں‘‘ (طلوع اسلام: یکم ستمبر ۱۹۵۰ء)

Syed Ahmed Wameez
About the Author: Syed Ahmed Wameez Read More Articles by Syed Ahmed Wameez: 29 Articles with 21786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.