فاران کی چوٹیوں سے آفتابِ نبوت طلوع ہواتو اس کی ضیاء
پاشیوں سے ایک عالم منور ہوا۔ جن خوش نصیبوں کے مقدر میں روزِ ازل سے سعادت
تحریر تھی وہ خاتم الانبیاء محبوبِ کائنات حضرت محمد ﷺ کے دست مبارک پر
ایمان لے آئے اور اپنی جان و مال سے اسلام کی ترویج و اشاعت میں مصروف
ہوگئے۔حق تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کے بدلہ میں انھیں رضی اﷲ عنھم و رضوا
عنہ کا پروانہ ابدی عطا فرمایا اور دنیاو آخرت کی سعادتوں سے سرفراز
فرمایا۔
مگر جو تیرہ بخت اپنی قلبی شقاوت کے باعث اسلام نہ لا سکے، دونوں جہانوں کی
رسوائی ان کا مقدر بنی اور وہ کفر کی ذلت لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان ہی
بد نصیبوں میں ایک جماعت منافقین کی تھی جو اپنی خباثتِ طبع کی بدولت کفار
سے بھی بڑھ گئے۔ کیونکہ کفار تو اسلام کی مخالفت کھلم کھلا کرکے اپنے دلوں
کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے ۔ لیکن منافقین کی جماعت آستین کے سانپ کے روپ
میں اسلام کی جڑیں کھودنے میں مصروف تھی۔ شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ ؒ
اپنی کتاب الایمان میں رقم طراز ہیں کہ مکہ مکرمہ میں کفار چونکہ پورے
اقتدار و طاقت کے مالک تھے اس لئے یہاں تو انہیں اسلام کی برملا دشمنی سے
کوئی امر مانع نہ تھالیکن مدینہ طیبہ میں آکر جب اسلام کو طاقت و شوکت میسر
آنے لگی تو اب پہلے کی طرح علی الاعلان دشمنی کرنے کا ان کو حوصلہ نہ رہا۔
اس لئے اب انہیں عداوت کی شکل بدل دینا پڑی اور یہیں سے نفاق کی بنیاد قائم
ہوگئی یعنی بظاہر مسلمانوں کے ساتھ رہنا اور اندرونی طور پر کافروں کا
ہمنوا ہونا۔جب مسلمانوں میں آ بیٹھنا تو ان کی سی باتیں کرنا اور جب کافروں
میں جاناتو اپنا رجحان ان کے ساتھ ظاہر کرنا۔اس جماعت کی اتنی اہمیت محسوس
کی گئی کہ ان کے نام پر قرآنِ پاک میں ایک مستقل سورت المنافقون نازل
فرمادی گئی اور اس کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر ان کے مکر
و فریب سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا۔
درحقیقت منافقین نے کبھی دل سے اسلام قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اسی حقیقت کا
وہ اپنی مجلسوں میں اعلان کرتے رہے۔ اگر وہ بالفرض ایسا کر لیتے تووہ
کفریات جو شب و روز ان کی زندگی کا مشغلہ بنے ہوئے تھے کیونکر ان سے سرزد
ہو سکتے تھے۔اس لئے یہ سمجھنا غلط ہے کہ نفاق کی حقیقت کفر و ایمان کے
درمیان ہے جس کی انتہا کفر تک بھی ہو سکتی ہے بلکہ نفاق ایسے بغضِ ایمانی
کا نام ہے جو ایسے نامناسب اعمال کا منشاء ہوکہ اگر ان کا صدور کسی مومن سے
بھی ہو جائے تو اس پر بھی نفاق کی تہمت لگ جائے۔پس نفاق کی حقیقت ایمان و
کفر کے درمیان نہیں بلکہ کفر سے بھی بالاتر ہے اور اسی وجہ سے قرآنِ کریم
نے اس کا مقام دوزخ میں کافروں سے بھی نیچے والا بیان فرمایا ہے۔
اب یقیناََ وہ خامی جو قلبی جزم و وثوق حاصل ہونے کے بعد ظاہری اعمال میں
نظر آتی ہے تو وہ بھی ایک بڑی خامی اور بڑی کوتاہی ہے۔ لیکن یہ وہ خامی
نہیں جس کے لئے مذہبِ اسلام میں کوئی گنجائش نہ نکلتی ہو۔ ایسے مسلمانوں کو
کافروں کی صف میں شامل نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ اس سیاہ کاری کی نوبت
یہاں تک آ جائے کہ پھر اس کی قلبی تصدیق بھی مشکوک نظروں سے دیکھی جانے
لگے۔
الغرض اصلاََ نفاق تو نفاقِ اکبر یا نفاقِ اعتقادی ہے یعنی بظاہر اﷲ تعالیٰ
کی توحید ، رسول اﷲ ﷺ کی رسالت، فرشتوں اور حشر کا اعتقاد رکھنا مگر قلب
میں اس کا پورا پورا انکار و انحراف مضمر ہونا۔ لیکن جب دورِ انحطاط میں
مسلمانوں کے اندر بھی منافقوں کی سی خصوصی صفات پیدا ہونے لگیں تو اصحابِ
اصطلاح نے اسے نفاقِ عملی سے موسوم کیا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کے
نزدیک نفاقِ عملی انسان کے ظاہر و باطن کے تضاد کا نام ہے لہٰذا جو شخص
باطنی طور پر اسلامی عقائد کا معتقد ہو مگر ظاہری اعمال کی ادائیگی سے قاصر
ہو تو اس کو عملی منافق کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کا ظاہر بھی اس کے باطن کے
برخلاف ہے۔
لغوی اعتبار سے نفاق ایک قسم کے فریب و دھوکے کا نام ہے ۔ منافق کی پوری کی
پوری زندگی چونکہ اسی مذموم صفت کا مرقع ہوتی ہے اسی لئے اس کو منافق کہا
جاتا ہے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں منافق کی تلاوتِ قرآنِ کریم کو نازبو
کے درخت سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی خوشبو تو بڑی خوشگوار ہوتی ہے مگر مزہ
بڑا ناگوار ہوتا ہے۔اس تشبیہ سے مقصود یہی ہے کہ نازبو کی ظاہری خوشبو اور
مہک عمدہ ہوتی ہے مگر اس کا اندرونی ذائقہ سخت تلخ ہوتا ہے۔کسی پھل کی خوبی
صرف اس کی خوشبو پر منحصر نہیں بلکہ ذائقہ کا عمدہ ہونا بھی اہمیت کا حامل
ہے اسی طرح حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اصل خوبی صرف ظاہری اعمال سے نہیں بلکہ
باطن اور قلب کی سلامتی سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر قلب بیمار ہے تو ظاہری سلامتی
بیکار ہے۔
بعض احادیث میں جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زبانوں سے
بھی اپنے نفسوں پر نفاق کے خطرے کے الفاظ نظر آتے ہیں حالانکہ یہاں نفاق کا
کسی قسم کا شائبہ بھی نہیں ہوتابلکہ یہ انسان کے کمالِ ایمانی اور اپنے
اعمال کے پورے پورے محاسبہ کا ثمرہ ہوتا ہے۔ جب ایک کامل مومن اپنے نفس کا
محاسبہ شدت سے شروع کرتا ہے تو اس کو اپنے ہر عمل پر یہی شبہ گذرنے لگتا ہے
کہ کہیں اس میں ظاہر و باطن کا کوئی ادنیٰ سا اختلاف تو نہیں ہے۔اسی لئے وہ
اپنی ظاہری و باطنی اصلاح و فلاح پر کبھی مغرور نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ
بارگاہِ خداوندی میں لرزاں و ترساں رہتا ہے۔
ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ نماز سے فارغ ہوکر نفاق سے
پناہ کی دعا مانگ رہے ہیں۔اس نے پوچھا بھلا آپ کو نفاق کا کیا خطرہ ہے؟
انہوں نے بقسم فرمایا کہ آدمی اچھا خاصا مومن ہوتا ہے، پھر کسی فتنہ میں
مبتلا ہوجاتا ہے اور آن کی آن میں اس کا دل پلٹ جاتا ہے اور وہ نفاق میں
مبتلا ہوجاتا ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ان کو اپنے نفس
کے متعلق ہمیشہ نفاق کا خطرہ لگا رہتا تھا۔حضرت امام احمد رحمۃ اﷲ علیہ سے
پوچھا گیا کہ جس شخص کو اپنے متعلق نفاق کا خطرہ بھی نہ گذرتا ہو اس کے
متعلق آپ کاکیا ارشاد ہے؟ انہوں نے تعجب سے فرمایا کہ ایسا کون مومن ہوسکتا
ہے جس کو اپنے متعلق یہ خطرہ نہ آتا ہو۔
نفاق کی مذکورہ بالا اہمیت کے پیشِ نظر نبی کریم ﷺ کی جانب سے امت کو اس
سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں اور نفاق کی علامات بتلا دی گئی ہیں تاکہ
ان سے بچنا آسان ہو اور دنیا و آخرت کے خسارے سے حفاظت رہے۔ اس موضوع کی
چند احادیثِ مبارکہ درجِ ذیل ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
منافقوں کی چند علامتیں ہیں جن کے ذریعہ سے وہ شناخت کئے جا سکتے ہیں۔ سلام
کے بجائے ان کی زبانوں پر لعنت کا لفظ رہتا ہے۔ لوٹ کا مال ان کی خوراک
ہوتی ہے۔خیانت کا مال ان کا مالِ غنیمت ہوتا ہے۔مسجدوں کے قریب نہیں آتے
بجز بیہودہ بکواس کرتے ہوئے ۔ نہ خود کسی سے الفت رکھتے ہیں اور نہ ان سے
کوئی الفت رکھتا ہے۔ رات میں شہتیروں کی طرح بستروں پر پڑے رہتے ہیں اور دن
میں شور مچاتے پھرتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ
جس شخص میں یہ چاروں باتیں جمع ہوجائیں تو وہ پورا منافق ہے اور جس میں
کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی
یہاں تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے۔ جب اس کے پاس کوئی چیز امانت رکھی جائے تو اس
میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو توڑ ڈالے اور جب
جھگڑا کرے تو بے قابو ہوجائے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی
نیت اس کے عمل سے بہتر رہتی ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے زیادہ خوشنما
نظر آتا ہے اور ہر شخص کا عمل اس کی نیت کے تابع رہتا ہے۔جب مومن کوئی عمل
کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے دل میں ایک نور چمک اٹھتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو
عورتیں اپنے نفسوں کو اپنے شوہروں سے خلع کرکے علیحدہ کرلیتی ہیں تو وہ بھی
منافق ہیں۔انہی کی ایک اور روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مرگیا
اور اس نے اﷲ کے راستہ میں نہ کبھی جنگ کی، اور نہ اس کے دل میں اس کا خطرہ
گذرا تو وہ اپنے ساتھ نفاق کا ایک شعبہ لے کر مرا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس امت پر
اگر خطرہ ہے تو صرف اس منافق کا ہے جو باتیں بڑی پر حکمت بنائے مگر اس کے
کارنامے صرف ظلم کے ہوں۔
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
منافق کی مثال اس بکری کی ہے جو نر کی تلاش میں دو گلّوں کے درمیان کبھی
اِس طرف اور کبھی اُس طرف ماری ماری پھرتی ہے۔
آخری حدیث میں منافق کو ایسی بکری سے تشبیہ دی گئی جو نر کی تلاش میں دربدر
رہتی ہے۔اسی طرح مادہ پرست بزدل منافق اپنے ذاتی نفع کی غرض سے کبھی کافروں
اور کبھی مسلمانوں کے در پر دکھائی دیتا ہے اس کا مطمعِ نظر صرف دنیا کی
دولت اور اپنی جان کا تحفظ ہو تا ہے۔وہ مردوں کی طرح حالات کا سامنا کرنے
سے قاصر ہوتا ہے اور عورتوں کی طرح دوسروں کی آغوش میں پناہ کا متلاشی ہوتا
ہے۔
مذکورہ بالا تمام احادیث کابغور مطالعہ کریں اور پھر اپنے معاشرے کے ہر
شعبہ زندگی پر ایک عمیق نگاہ دوڑائیں تو محسوس ہوگا کہ نفاق کی بیماری
ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔ ہمارے قول و فعل کا تضاد کسی اہلِ
نظر سے پوشیدہ نہیں۔حکمران طبقہ سے لے کر ایک عام آدمی تک اپنے طرزِ حیات
میں منافقین کے اعمال لئے ہوئے ہے۔اور پستی کی انتہا یہ ہے کہ ہمیں اپنے
قلب و روح کی اس بیماری کا احساس تک نہیں لہٰذا اس کے علاج کی طرف توجہ نہ
ہونے کے برابر ہے۔اس صورتحال کا لازمی نتیجہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے کہ
آج دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ان کی وقعت نہ
ہونے کے برابر ہے۔ان میں صالح اور دیانت دار قیادت کا فقدان ہے۔ کفار کی
عملداری اکثر مسلم ممالک پر عملاََ قائم ہو چکی ہے۔
اگر ہم مسلم امہ کے نشاۃِ ثانیہ کے خواہش مند ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ
ہم اپنے کردار میں موجود قول و فعل کے تضاد کو ختم کریں۔منافقین کی سرشت کو
چھوڑ کر اہلِ ایمان کی عادات و اطوار کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تاکہ
خالقِ کائنات کی رحمتیں ہم پر مبذول ہوں اور دنیا و آخرت کی سعادتیں ہمارا
مقدر ٹھہریں۔
|