دنیا اور آخرت کی عزّت اور کامیابی

ایسی صورت میں کیا حال ہوتا ہے یہ بات وہ جانتا ہے جس کے ساتھ بیت رہی ہوتی ہے یا اس کا اللہ جانتا ہے یہ ہیں سیکولرازم کے کارنامے کہ دنیا ہی دنیا ہے آخرت واخرت کچھ نہیں اس لئے چار دن کی زندگی ہے اور سیکولرازم کے ٹیسٹ کیا ہیں کہ فرینڈ شپ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے ماں کے ساتھ پہن کے ساتھ اور پھوپھی اور خالہ اور بھابھی کے ساتھہ جنسی تعلقات اختیار کرنے کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ورنہ تم ہم میں سے نہیں ہو اب پاکدامنی کا دور ختم ہو چکا ہے یہی پاکدامنی ہے کہ راز کی بات راز رہنے دو اور مینج کرو اگر اور کچھ نہیں تو کھسرے بن کر ناچ گانا کرو جیو ہنسو کھیلو اورموج مستی کرو ورنہ سمادھی بنا دیا جاتا ہے

آسان الفاظ میں دنیا اور آخرت کی عزّت اور کامیابی کا معیار اپنا اپنا ہے سیکولر گروپ بندی اور پارٹیاں جن باتوں میں عزّت اور کامیابی ڈھونڈتے ہیں وہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور غیرت مندی کا معیار کچھ اور ہے اور اسلام میں عزّت اور کامیابی کا معیار بدل دینا اور اسلام کے نام لیواوں کو بیک ورڈ اور شدّت پسند کہنا موجودہ سیکولر طبقوں کا فیشن بن چکا ہے جس کی شدّت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور اسلام پسند لوگوں کو لوگوں نے اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے اور بے دین لوگوں سے پیسے لے کر اہل اسلام کو منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے اور گھر میں نوکروں چاکروں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور گھر کے اندر گری پڑی چیزوں کی طرح رکھا جاتا ہے اور نماز کے بارے میں کہنے پر بہت زیادہ برا منایا جاتا ہے کہ اسے گھر سے فارغ کرنے اور بوریا بستر گول کرنے کے بارے میں احکامات جاری کیے جاتے ہیں کہ یہاں پر مذہبی باتیں کرنی ہیں تو جاو یہاں سے گھر میں ہم سیکولر لوگوں کی حکمرانی ہے ہم نماز پڑھیں نا پڑھیں روزا رکھیں نا رکھیں کبیرہ گناہوں کا سر عام ارتقاب کریں تم نے اپنی قبر میں جانا ہے ہم نے اپنی قبر میں جانا ہے ہمیں محنت مزدوری سے ہی فرست نہیں ہے حقوق العباد پورے کرنا بھی تو اوّلین فرائض میں شامل ہے تم نے نمازیں پڑھنی ہیں تو اس کا تمھیں جرمانہ ادا کرنا ہوگا کیونکہ گھر میں تم بھی تو رہتے ہو وہ جرمانہ مال جان عزّت کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے یا غلام بن چپ چاب سب کی خدمت کرتے رہو اور بے عزّتی الگ سے آج کل نیا زمانہ ہے ہم اگر گے ہیں اور مردوں سے جنسی تعلقات رکھتے ہیں تو یا پرائی اور بازرو عورتوں سے تعلقات رکھتے ہیں تو اس میں تمھارا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے چپ چاپ نوکروں کی طرح رہو اگر رہنا ہے تو ہم شراب پئیں جوا کھیلیں جو جی میں آِئے کریں کونسا پولیس کیس بن سکتا ہے ہم پر ہمارے تعلقات بڑے لوگوں کے ساتھ ہیں لیکن اگر تم نے تبلیغ سے باز نہیں آنا تو ہم ایک طرف ٹھنڈی تار لگا کر دوسری طرف گرم تار لگا کربجلی سے پٹاخہ چلا دیں گے اب وہ دور نہیں ہے کہ ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پرسورج بھی رکھ دو تو بھی ہم اللہ کے دین سے نہیں ہٹیں گے -

یا زندہ چلادیں گے یا دیوار میں چن دیں گے اور پھر ان دھمکیوں کو سن کر اسلام پسندوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے اور صبر شکر کرکے بذدلوں اور نوکروں کی طرح جینا پڑتا ہے اور پھر گناہ سیکولر لوگ کرتے ہیں اور سزا اسلام پسندوں کو بھگتنا پڑتی ہے کوئی قانون کوئی پولیس کوئی برادری کوئی رشتے داری کام نہیں آتی اور اس طرح سے ابتدائے اسلام کے مظالم کی طرز پر کلمہ گو سیکولر بہن بھائیوں سے ماریں کھانی پڑتیں ہیں اور اوپر سے میڈیا پر تجزیہ نگاروں کی بے عزّتیاں الگ سے سننے کو ملتی ہیں کہ مسلمان تو ہم نے ختم کر دئے ہیں یہ کون اسلام اسلام کرتا پھرتا ہے ان کو پکڑوں مارو گھسیٹو اور کام پر لگاو نہیںتو پاگل کتّے کے کاٹے کے مریض قرار دے کر گولی مار دو اور اب تو مشہوری دی جاتی ہے کہ انوکھا علاج کیا جات ہے کہ آرے کے اوپر باریک باریک ٹکڑے کر کے فیڈ بنالو اور مرغی خانے کے برائلروں کے کام آئے گی ابھی تو صرف یہ دھمکیاں ہی دی جاتی ہیں لیکن اگر میڈیا والوں کو اسی طرح سے کھلی چھٹی ملی رہی تو یہ نوبت جلد آنے والی ہے لیکن ہمارے پولیس فوج اور سیاست دان اورعدلیہ کو کوئی اس معاملے ہوش نہیں ہے ایسا سر عام کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس شناختی کارڈ نا ہو اسے گولی مار کر دفن کردو یہی بہترین حل ہے ایسا وکیل پولیس اہلکار اور کونسل والے کہتے ہیں اہل اسلام کو اور ڈاکٹر بھی اگر پیسے نہیں ہیں پاکٹ میں تو تجربات کے لئے آپریشن شروع کر دیتے ہیں کہ نئے سرجن تیار کرنے میںمدد ملے گی اور جسم کے پارٹس بیچ ڈالتے ہیں یہ کام کئی دہائیوں سے ہورہا ہے اس پر قابو پانا مشکل ترین عمل بنتا جارہا ہے باتیں انسانی حقوق کی کی جاتی ہیں اور کام یہ ہو رہے ہیں اور پھر بھی سیکولر اور غیر مسلم دودھ کے دھلے ہوئے ہیں اور مسلمان دہشت گرد ہیں اور جو لارے لگائے جاتے ہیں کہ فلاں ملک میں بے روزگاری الاونس دئے جاتے ہیں مفت تعلیم اور مفت علاج فراہم کیا جاتا ہے گھر اور روزگار فراہم کیا جاتا ہے چائلڈ الاونس اور فری اولڈ ہوم دئے جاتے ہیں وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو دین اسلام کو چھوڑ کر مکمل طور پر بے دین ہونے کا احساس نا دلا دیں اور داڑھی مونڈ کر انگریزوں والا لباس پہن کر تمام کبیرہ گناہوں میں شامل ہونے اور ساتھ دینے کی یقین دہانی نا کرا دیں -

اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرنے والے اور ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو چاہے مال جان اور عزّت ہی ہو لازمی قرار دے دیا گیا ہے جتّی کہ بوڑھے ماں باپ کو بھی اگر وقت دینا ہے تو ان کے لئے کوئی چیز لے کر حاضری دینا لازمی قرار دے دیا گیا ہے ماں کا چہرہ دیکھنا ہے کوئی کمپنی دینی ہے تو بھی پے منٹ دینی ہوگی ورنہ ثواب کی بجائے عذاب بھی مل سکتا ہے عزّت کی بجائے بے عزّتی بھی مل سکتی ہے اور تو کون اور میں کون جاو اور جاکر کوئی کام دھندہ کرو بے کار میں وقت ضائع نا کرو اور بعض اوقات تو ماں باپ گھر سے نکال دیتے ہیں کہ جاو اور کہیں ڈوب کے مر جاو کہ جس اللہ کی تم عبادت کرتے رہے ہو وہ تمھیں کہیں نا کہیں رہائش اور نعمتیں دے ہی دے گا اللہ تمھیں اچھا موقع فراہم کرے اور واپس مڑ کر نہیں آنا تو ایسی صورت میں کیا حال ہوتا ہے یہ بات وہ جانتا ہے جس کے ساتھ بیت رہی ہوتی ہے یا اس کا اللہ جانتا ہے یہ ہیں سیکولرازم کے کارنامے کہ دنیا ہی دنیا ہے آخرت واخرت کچھ نہیں اس لئے چار دن کی زندگی ہے اور سیکولرازم کے ٹیسٹ کیا ہیں کہ فرینڈ شپ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے ماں کے ساتھ پہن کے ساتھ اور پھوپھی اور خالہ اور بھابھی کے ساتھہ جنسی تعلقات اختیار کرنے کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ورنہ تم ہم میں سے نہیں ہو اب پاکدامنی کا دور ختم ہو چکا ہے یہی پاکدامنی ہے کہ راز کی بات راز رہنے دو اور مینج کرو اگر اور کچھ نہیں تو کھسرے بن کر ناچ گانا کرو جیو ہنسو کھیلو اور

موج مستی کرو ورنہ سمادھی بنا دیا جاتا ہے ہاتھ پاوں کاٹ کر صرف دھڑ کو رہنے دیتے ہیں اور اس پر پھول چڑھا کر پوجا کی جاتی ہے کہ اس کو ہم نے رکھا ہی اسی لئے تھا کہ ہمیں نرگ سے چھٹکارہ دلائے اور دنیا میں ہماری مشکلات آسان کرے پہلے یہ پوچھا جاتا ہے کہ بھئی جس کی میّت پر ماتم اور سینہ کوبی کی جاتی ہے اور قبر پر ماتم کیا جاتا ہے اس کو کیا ملتا ہے تو اہلحدیث یہ کہتے ہیں کہ میّت کو عذاب دیا جاتا ہے اور سیکولر لوگ کہتے ہیں کہ یہ کام آسان ہو گیا کہ ہم تو جی بھر کے روئیں گے پیٹیں گے تاکہ اس کو ابھی عذاب شرو ع ہوجائے اسی طرح سے ہندو اپنی فلموں میں کہتے ہیں کہ ہم نے تمھارے ہی پاب داداوں کو پتھّر اور لوہے اور دوسری دھاتوں میں بدل دیا اور پوچتے ہیں تاکہ ان کو عذاب ہوتا رہے اور ہم اوپر والے سے کہہ دیں گے کہ انہوں نے ہمیں سمجھایا ہی نہیں تھا اس لئے اے مالک ہمارے حصّے کا عذاب بھی تو ان کو دے دے تو ہم تو ایسی مار مارتے ہیں اور ہمارا اوپر والا ہماری پراتھنائیں سنتا ہے اور ہمارے مسئلے حل کرتا ہے اسی لئے پوری دنیا پر ہمارا دین پھیل گیا ہے اور اوپر والاہمیں عزّت دیتا ہے اس لئے شرک کرنا اور سود سمیت دوسرے تمام کبیرہ گناہوں ارتقاب ہمارے لئے جہاد ہے ان کاموں کو کرتے ہوئے مارے جائیں تو ہماری شہادت ہے یہ ہی وہ باتیں ہیں جو سیکولرازم کے موجد اور راہنما کرتے ہیں کہ جیت ہماری ہی ہوتی ہے اس لئے ہم نے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے اور ہمارا ہی مذہب ہے ہر طرف اور عجیب عجیب دلائل دیتے ہیں کہ جوحید پرس ہیں وہ کھایا پیا بھی ایک چیز کریں یا پانی پئیں یا دودھ پئیں یا روٹی کھائیں یا سالن کھائیں جو مکسچر پیتے ہیں وہ ہمارے لحاظ سے شرک ہی ہے لہٰذا تم ہم سے زیادہ مشرک ہو اس لئے ملے جلے کام کرو ہندووں سے مسلمان شادیاں کریں اور مسلمان سکھوں سے سب مل جل کر رہیں چھوڑیں لڑائی جھگڑے اوپر والا ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ ہمیں پخش دے گا ہمارا تویہ ہی ماننا ہےتو اس موضوع پر یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ قوم کو اجتماعی توبہ کرنی ہوگی وردیوں کے ساتھ ساتھ داڑھیاں بھی سنّت کے مطابق سجانی چاہییں سب کو اپنے اپنے بچّوں کی تربیّت کرنی چاہئے کہ وہ جب سات سال کے ہو جائیں تو ان کو ساتھ لے کر مسجد میں جائیں جب 10 سال کے ہو کر نماز نا پڑھیں تو پٹائی کرکے نماز کا پابند بنائیں ورنہ ٹی وی ڈتاموں اور فلموں والے اور ناچنے گانے والے اور جسم فروشی کادھندہ کرانے والے لے جائیں گے اور وہ مار مار کے ناچنے اور گندی فلمیں بنانے پر مجبور کر ہی دیتے ہیں اور پوری نسل تباہ ہو جاتی ہے پچّوں کو کول بھیجنے کی بحائے اپنے ساتھ لے جائیں ان کو اپنا کام سکھائیں ان کو پاس بٹھائیں ان کو لکھنا پڑھنا سکھائیں اور ان کو برائی کے کاموں کی بچائے نیکی کے کاموں کے ذریعے روزی کمانے پر مار کر مجبور کریں جیسے برائی کرانے والے کرتے ہیں ان سے زیادہ پہتر ماحول فراہم کریں جہاد کی تربیت کرائیں اس کے لئے ریٹائر فوجیوں کی خدمات حاصل کرلیں اور حکومت ایسے سکول بنائے جن میں جہاد کی تربیت دیں-

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.