سقوط مشرقی پاکستان کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے
آزادی کی جدوجہد اس سوچ اور عزم کے ساتھ سامنے آئی کہ اب مقبوضہ کشمیر کی
بھارت سے آزاد ی کے لئے جو کچھ بھی کرنا ہے،کشمیریوں نے خود ہی کرنا
ہے۔مقبوضہ کشمیر کی بھارتی انتظامیہ نے کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کے خلاف
بدترین مظالم کا سہارا لیا لیکن کشمیریوں کا جذبہ آزادی تیز سے تیز تر ہی
ہوتا رہااور1986میں کشمیری مسلمانوںکی واضح اکثریت بھارت سے آزادی کے پلیٹ
فارم پہ اکٹھی ہو چکی تھی۔بھارت سے آزادی کے مطالبے پہ کشمیر کی سیاسی
جماعتوں کے '' مسلم متحدہ محاذ'' نے اس عزم کے ساتھ ریاستی اسمبلی کے
الیکشن میں حصہ لیا کہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے بھارت سے الحاق کی نام
نہاد قرار داد کو منسوخ کر دیا جائے گا۔بھارت نے کھلی آنکھوں سے نظر آنے
والی بدترین دھاندلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم متحدہ محاذ کے امیدواروں کو
شکست یافتہ ظاہر کیا۔اس پر مقبوضہ کشمیر میں ہر طرف آزادی کے حق میں بھارت
مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مغربی میڈیا کے مطابق ایسے کئی
مظاہروں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔بھارت نے حسب روایت
کشمیریوں کو اپنی طاقت سے کچلنا چاہا تو 1988ء سے آزادی کی مسلح جدوجہد
شروع ہو گئی۔تقریبا چھ سال کشمیری فریڈم فائٹرز کا اتنا غلبہ تھا کہ کئی
مواقع پر بھارتی فوج ان کی وجہ سے اپنے کیمپوں سے باہر نہیں نکل سکتی
تھی۔بھارتی فوج کی جنگی کاروائیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور کشمیری فریڈم
فائٹرز کی جدوجہد کو کمزور سے کمزور کرنے کے اقدامات میں بھی تیزی آتی چلی
گئی۔جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھارت کے ساتھ '' سیز فائر'' اورآزاد کشمیر
میں کشمیری فریڈم فائٹرز کے کیمپ بند کرانے کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر میں
بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت علامتی طور پر جاری رہی۔سیاسی جدوجہد کے خلاف
بھی مسلسل بدترین ظلم و ستم کی بھارتی پالیسی کے ماحول میں چند سال قبل
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مزاحمتی مسلح جدوجہد میں تیزی آنے لگی اور بڑی
تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان آزادی کی مسلح جدوجہدکی راہ اختیار کرنے
لگے۔بھارت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مطالبے کو کچلنے کے لئے بھرپور اور
مسلسل فوج کشی کے ساتھ ساتھ انتظامی اور عدلیہ کے حوالے سے بھی کشمیریوں کو
بدترین ظلم و ستم،قید و بند کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔
دوسری طرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام اپنی مقامی حکومتوں کے لئے
مالیاتی اور انتظامی اختیارات کے حصول لئے سیاسی و حکومتی سطح پہ مطالبہ کر
رہی ہیں۔تاہم آزاد کشمیر کے عوام آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے
سے کردار دیئے جانے کے بھی متمنی ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مقامی
حکومتوں کو تمام مقامی امور سے متعلق مکمل طور پر با اختیار کرنے کے حوالے
سے حکومت پاکستان کی سنجیدہ سرگرمیاں نظر آ رہی ہیںجس سے اس بات کو تقویت
ملتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مقامی
حکومتوں کو بااختیار اور ذمہ دار بنانے کے لئے آئینی ترامیم وغیرہ کی ضروری
کاروائی جلد ہی مکمل ہو سکتی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں غالب اکثریت رکھنے والے مسلمانوں کی اولین سیاسی
جماعت جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ایک باقاعدہ کنونشن منعقدہ
27جولائی1946ء کو سری نگر میں میں قائد کشمیر چودھری غلام عباس کی قیادت
میں ایک تاریخی اور انقلابی'' قرار داد آزاد کشمیر'' منظور کی تھی۔'' قرار
داد آزاد کشمیر''کشمیریوں کے سیاسی عزم اور نسل در نسل جدوجہد کی بنیادی
اساس ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی ممتاز و معروف شخصیت میرے والد گرامی،خواجہ
عبدالصمد وانی(1935-2001)1952میں کشمیر کے اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے
پاکستان سے پاسپورٹ پر علی گڑھ یونیورسٹی گئے تھے۔ وانی صاحب سناتے تھے کہ
وہ خاص طور پر ریاست جموں و کشمیر کے ممتاز و معروف صحافی،دانشور،سیاسی
رہنما پنڈت پریم ناتھ بزاز سے ملنے کے لئے دہلی میں ان کے گھر گئے۔پنڈت
پریم ناتھ بزاز اور ان کی اہلیہ محترمہ نے ان کا گرمجوشی اور محبت سے
استقبال کیا۔وانی صاحب سناتے تھے کہ انہوں نے اصرار پہ ان کے ساتھ لذیذ
کشمیری کھانا بھی کھایا۔ وانی صاحب نے یہ واقعہ مجھے سناتے ہوئے بتایا تھا
کہ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے انہیں اپنی کتابیں ،رسائل و اخبار اور دستاویزات
بھی دکھائیں۔ اسی علمی ذخیرے میں سے وانی صاحب کو'' قرار داد آزاد کشمیر''
ملی۔وانی صاحب قرار داد آزاد کشمیر کی مکمل تحریر اپنے ساتھ لے آئے اور
انہوں نے قرار داد آزاد کشمیر کو شائع کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت اور دنیا
کے سامنے لایا۔اس سے پہلے آزاد کشمیر حکومت ،پاکستان اور بھارتی مقبوضہ
جموں و کشمیر میںبھی قرار داد آزاد کشمیر کا مکمل متن موجود نہ تھا۔خواجہ
عبدالصمد وانی (مرحوم) کی کشمیر کاز کے لئے اس اہم کاوش کا سرکاری سطح پہ
اعتراف کیا جانا تحریک آزادی کشمیر اور متنازعہ ریاست کے لوگوں کے حقوق کے
حوالے سے بھی اہم اقدام ہو گا۔
قرار داد آزاد کشمیر ۔ ''ہرگاہ کہ ہندوستان کے لئے نئے آئین کا ڈھانچہ مرتب
کرنے کاڈول ڈالا جا رہا ہے اور برطانوی ہند کے صوبہ جات اور ہندوستانی
ریاستوں کو ایک محدود اختیار والی یونین میں منسلک کرنے کے لئے جس آئین ساز
اسمبلی کو تشکیل دیا جا رہا ہے ،اس میں دس کروڑ ریاستی باشندوں کی نمائندگی
کے متعلق وزارتی سفارشات بالکل مبہم ہیں اور ریاستی عوام کو شبہ ہے کہ
انہیں مطلق عنان شہزادگان کے رحم و کرم پر چھوڑ ا گیا ہے۔مجلس عاملہ کی
رائے میں آئین ساز اسمبلی میں ریاستی عوام کو بھی اسی طرح اپنے نمائندے خود
منتخب کرنے کا حق دیا جائے جیسا کہ برطانوی ہند کے عوام کو حاصل ہے۔بالخصوص
جہاں تک ریاست جموں و کشمیر کا تعلق ہے ،مسلم کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ
ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں ریاست جموں و کشمیر کی طرف سے جو نمائندے
بھیجے جائیں ،لازمی طور پر کشمیر اسمبلی کے منتخب ممبروں کی طرف سے انتخاب
کردہ ہونے چاہئیں اور ان کاتناسب و طریق انتخاب اسی طرح ہونا چاہئے جیسا کہ
برطانوی ہند کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔مجلس عاملہ یہ مطالبہ بھی کرتی
ہے کہ مستقبل قریب میں جب ریاستوں کا ہندوستانی گروپوں میں شامل ہونا مقصود
ہو تو کسی گروپ میں شمولیت کا حق صرف ریاستی عوام کو ہونا چاہئے۔
نیز ہرگا ہ کہ آمریت اور جمہوریت کا دوش بدوش چل سکنا ممکن نہیں اور مجوزہ
آئین ساز اسمبلی جو ہندوستان کے مختلف اجزاء کے کے لئے آئین مرتب کرے گی
،اس کا انحصارآزاد اور جمہوری اصولوںپر ہو گا ۔اس لئے ضروری ہے کہ ریاست
جموں و کشمیر جو آبادی اور وسعت کے لحاظ سے صوبہ سرحد سے بہت بڑی اور سندھ
کے برابر ہے ،کا آئین بھی ان ہی اصولوں پر مرتب ہونا چاہئے ۔بنا بریںضروری
ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مطلق العنان اور غیر ذمہ دارانہ نظام حکومت کو
فی الفور ختم کر دیا جائے اور عوام کو اپنی پسند کا آئین حکومت بنانے کا
پورا پورا اختیار دیا جائے جو اپنے مخصوص حالات کے مطابق آزاد کشمیر کے لئے
جس طرز کا آئین حکومت چاہیں مرتب کریں۔اس کام کو سرانجام دینے کی خاطر جموں
و کشمیر کے لئے ایک آئین ساز اسمبلی کا قیام از بس ضروری ہے۔مجلس عاملہ
مہاراجہ کشمیر سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے موجودہ الوقت
فرسودہ اسمبلی کو توڑ کر اس کی جگہ فی الفور مطلوبہ اسمبلی کا قیام عمل میں
لایا جائے جو وسیع حق رائے دہندگی کے ساتھ تمام تر منتخب ممبران پر مشتمل
ہو اور جس میں ہر قوم اور فرقہ کی تناسب آبادی کے لحاظ سے جدا گانہ حق
نیابت کے ذریعے حق نمائندگی حاصل ہواور اسی اسمبلی کو ریاست جموں وکشمیر کے
لئے اپنی مرضی کا آئین حکومت بنانے کا اختیار سونپا جائے۔مجلس عاملہ کو
توقع ہے کہ مہارجہ کشمیر بدلے ہوئے حالات ،سارے ہندوستان کے مفاد اور اہل
ریاست کی بہتری کے پیش نظر عوام کا اپنی تقدیرکا خود فیصلہ کرنے کے جائز حق
کو تسلیم کر لیں گے۔مجلس عاملہ واضح طور پر اعلان کرتی ہے کہ اگر مندرج
بالامطالبات کے برعکس حکومت کشمیر نے کوئی اور راہ اختیار کی تو مسلم
کانفرنس اسے قبول نہیں کرے گی اور مسلم عوام مسلم کانفرنس کی قیادت میں
پوری طاقت کے ساتھ آزاد کشمیر کے لئے جدوجہد کریں گے۔'' |