اندھے کیمرے

سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت لاہور میں تقریباً سترہ سو( (1700 اہم مقامات پر آٹھ ہزار ) (8000 کیمرے نصب کئے گئے ہیں ۔ جن کیمروں میں دیکھنے کے لئے فائبر آپٹک کیبل کے ذریعے ان کیمروں کو ہیڈ آفس میں نصب شدہ دوسوتین (203) سکینروں سے ملایا گیا ہے۔اس سارے منصوبے پر تقریباً پندرہ (15) ارب روپے لاگت آئی ہے۔حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ ماڈرن ٹیکنالوجی کے تحت ان کیمروں کی تنصیب اور اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد لاہور دنیا کے ان چند محفوظ ترین شہروں میں شامل ہو گیا ہے کہ جن شہروں میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے شہریوں کے جا ن اور مال کی حفاظت کو بہت حد تک یقینی بنا لیا گیا ہے۔اس جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کسی بھی حادثے کی صورت میں پولیس زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں جائے حادثہ پر موجود ہوتی ہے۔حادثے کی پوری وڈیو کی مدد سے ملزموں کا آسانی سے سراغ لگایا جاتا ہے تا کہ انہیں انجام تک پہنچایا جا سکے گا۔

کچھ عرصہ پہلے تک بڑی مختلف صورت حال تھی۔ لاہور میں جگہ جگہ بورڈ لگے تھے ، ’’کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔‘‘ اس وقت تک پولیس اور پولیس کی کچھ بھٹکتی ہوئی آنکھیں تو نظر آ جاتی تھیں مگر کیمرے کہیں نظر نہ آتے تھے۔آج لاہور کیمروں سے بھرا پڑا ہے۔ مگران کیمروں کی آنکھیں یا تو اندھی ہیں یا پھر ان کیمروں میں دیکھنے والے اہلکار۔ اسی لئے لاہور میں چوریاں اور ڈاکے پہلے کی نسبت اب ماشااﷲکافی زیادہ ہونے لگے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس شاندار استعمال کے بعد پنجاب حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ جرائم کم ہو گئے ہیں ۔پولیس کی بگڑی عادتیں کم نہیں ہو سکتیں مگراس کے باوجود حکومت کی اس خواہش کے احترام میں لاہور کے تھانوں کے ایس ایچ او حضرات پوری تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی حادثے کی صورت میں پوری کوشش کرتے ہیں کہ ایف آئی آر درج نہ ہو مبادہ پنجاب کے خادم اعلیٰ کی عزت پر حرف آئے اورپھر ان کی اپنی کارکردگی بھی داغدارہونے سے بچ جائے۔

میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ آمدنی میں معقول اضافے اور افسران بالا کو خوش رکھنے کی خاطر لاہور کے ہر ایس ایچ او نے اپنے ڈاکو پالے ہوئے ہیں جو ایس ایچ او کی ٹرانسفر کی صورت میں جہیز کی صورت اس کے ساتھ نئی جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ پالتو نوجوان ایک تو پولیس افسروں کی اضافی آمدنی کا باعث ہیں اور دوسرا بے روز گاری میں کچھ کمی بھی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کیمرے اور جدید ٹیکنالوجی ان کا روز گار چھین لیں۔پولیس کے لوگوں کی اضافی آمدنی ختم کر دیں، ایسا ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب کیمرے تو لاہور میں بہت نظر آتے ہیں مگر دیکھنے والی آنکھیں نایاب ہیں۔

7 فروری کو شام کے وقت لاہور کے ٹمپل روڈ پر میری ایک قریبی عزیز نو بیاہتا بچی اپنے میاں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ کسی عزیز سے ملنے آئی۔ گاڑی ٹمپل روڈ سے ایک گلی میں داخل ہوئی۔ چند قدم پر گلی میں اپنے عزیزوں کے گھر کے سامنے انہوں نے گاڑی روکی۔ کچھ لوگ باہر نکلے اور باقی باہر نکلنے والے تھے کہ یک دم ایک موٹر سائیکل ان کے پاس رکی اور گن پوائنٹ پر خواتین کا تمام زیور اتروا لیا۔ جنکے گھر وہ آئے تھے ان کی وہ عزیزہ اوپر کھڑکی سے شور مچا رہی تھی۔ شور سن کر ارد گرد بہت سے لوگ کھڑکیوں سے جھانکنے اور شور کرنے لگے۔ موٹر سائیکل والوں نے چار فائر کئے ، موٹر سائیکل موڑی اور ہنستے ہوئے یہ جا وہ جا۔فائروں کی آواز سن کر ساری کھڑکیاں وقتی طور پر بند ہو گئیں۔ ڈاکو چلے گئے تو سارا محلہ حرکت میں آ گیا۔ بہت بڑے بڑے مشورے اور بس۔ 15 پر فون کیا گیا۔ واقعی پولیس فوراً آ گئی۔ان لوگوں میں کسی کاشہر میں کوئی ایک آدھ پولیس افسر بھی واقف تھاانہوں نے اسے بھی مدد کے لئے فون کیا کہ تھانے والوں کو فوری کاروائی کا کہا جائے۔

پولیس کی موقع پر رسمی کاروائی کے بعد وہ لوگ تھانے پہنچ گئے کہ ایف آئی آر درج کرائی جائے۔ایس ایچ او صاحب بڑی اچھی طرح ملے۔ پوری طرح ہمدردی کا اظہار کیا۔ سفارشی فونوں کا بھی تذکرہ کیا اور مشورہ دیا کہ ایف آئی آر درج نہ کرائیں ۔ کیس خوامخواہ لمبا ہو جائے گا۔ بہتر ہے تین چار دن انتظار کریں۔آپ لوگوں نے جو حلیہ بتایا ہے ویسے کچھ لوگ ہماری نظر میں ہیں کچھ کیمروں کی مدد لیں گے۔ امید رکھیں کہ تین چار دن میں ہم کچھ نہ کچھ آپ کے زیورات برآمد کر لیں گے۔ایس ایچ او صاحب کی یقین دہانی پر انہوں نے چار دن انتطار کیا پھر ان سے رابطہ کرنے کی کافی سعی کی مگر ہر دفعہ یہی پتہ چلتا کہ وہ کسی ڈیوٹی پر ہیں۔ایف آئی آر بھی عملے نے ایس ایچ او صاحب کی اجازت کے بغیر درج کرنے سے انکار کر دیا۔

کسی سینئیر بیوروکریٹ کی مداخلت پرہوم سیکرٹری پنجاب کے حکم سے ایف آئی آر درج ہو گئی۔ مدعیوں نے دو چار دن کیس کے پیچھے بھاگ دوڑ کی ۔ شریف اور سادہ لوگ تھے۔ کسی نے ڈرا دیا کہ ڈاکہ مارنے والے ان لوگوں کا باقاعدہ ایک گروہ ہے اور انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ کیس کی پیروی ان سے دشمنی کے مترادف ہے ۔ وہ ڈر گئے ، مقدمے کی پیروی کرنے کی بجائے انہوں نے چپ سادھ لی ہے اور صابر اورشاکر ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ ایک دن انہیں کہا گیا کہ کچھ لوگ پکڑے ہیں آ کر شناخت کریں۔ اس قدر ڈرانے کے بعد شناخت کی دعوت دیناعجیب تھا۔ وہ ڈرے ہوئے لوگ کیسے کسی کو پہچاننے کی جرآت کر سکتے ہیں۔ پولیس والے کیمروں میں ان کی شکل کیوں نہیں دیکھتے ۔ لوگوں کو امتحان میں کیوں ڈالتے ہیں۔ ٹیکنالوجی حاصل ہونے کے باوجود تفتیش کے وہی گھٹیا طریقے۔

یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ پولیس کے چھوٹے اہلکار ان ڈاکوؤں کو یقیناً گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان سے زیورات بھی برآمد کر لئے جائیں گے۔مدعی ڈر کے مارے پیروی نہیں کر سکتے او ر نہ ہی کریں گے۔برآمد کی ہوئی جیولری بندر بانٹ ہو جائے گی۔میری وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ ایسے معاملات کا خصوصی نوٹس لیں ۔ ٹیکنالوجی کی برآمد کے بعد لوگوں کو تنگ کرنے کی بجائے تفتیش کے جدید طریقے اپنائے جائیں۔عام افسروں کو ٹریننگ دی جائے ۔ ٹیکنالوجی کا استعمال سکھایا جائے۔پولیس کا کچھ دیانتدار افسروں پر مشتمل ایک مخصوص سیل بنایا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ برآمد کی ہوئی چیزیں حقدار کو ہر حال میں پہنچ جائیں اور اس سیل کی کارکردگی پر پوری نظر رکھی جائے۔ لاہوریوں کو ڈاکو پال افسروں سے بچانا بھی بہت ضروری ہے۔ اس نئے سیل کی تشکیل ان افسروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بھی ہو گی۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441210 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More