پاکستانی تعلیمی نظام میں بہتری مگرکیسے ؟

ہمیں چھپر والے اسکول نہیں چاہئیں نہ ایسے اسکول جن میں صرف بھینسیں ہی بندھی رہتی ہیں۔ہمیں کاغذوں میں مت الجھائیں ایسے اسکول قائم کرکے دکھائیں جہاں حقیقت میں بچوں کی تعلیمی، اخلاقی و عملی تربیت کو ممکن بنایا جاسکے۔یہ وہ ریمارکس ہیں جو چیف جسٹس نے گورنر پنجاب شہباز شریف کی واٹر کیس میں طلبی کے وقت ادا کیے۔افسوس کا مقام ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے موجودہ حکومت کے بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح کیے گئے تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے دعوے صرف دعوے ہی نکلے۔کچھ صوبوں میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ اور اس کے لیے بجٹ میں اربوں روپے اضافے کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔پاکستان کو اس وقت توانائی، سیکیورٹی اور معاشرتی و معاشی شعبوں میں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ہم اپنا موازنہ دنیا کے دیگر ممالک سے کرتے ہیں تو ہمیں اپنی تعلیمی حالت کو دیکھ کر بڑی شرم محسوس ہوتی ہے۔

یونیسکو کی قیادت میں ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ تحریک کی جانب سے پیش کی جانے والی سفارش کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے جی ڈی پی کا کم سے کم 4-6 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے ۔جب تک ایسا نہیں ہوگا ، نہ تو تعلیم عام ہوگی اور نہ ہی خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوسکے گا۔آخر ہمارے ملک میں اس معاملے میں کوئی خاص پیش رفت ابھی تک کیوں نہیں ہوسکی؟۔شاید حکومتیں اس کام میں مخلص نہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی کہ ہم ٹیکسوں کے ذریعے سے اپنے جی ڈی پی کا بمشکل 10 فیصد ہی وصول کر پائے ہیں اور ہمارے بجٹ میں اکثر خسارہ ہی رہتا ہے۔ تعلیمی ماہرین کی سفارش ہے کہ قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرکے حکومت تعلیم کو لازمی قرار دے دے۔ ان کی یہ سفارش بھی ہے کہ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں اضافے کو ممکن بنانے کے لیے بعض دیگر شعبوں کے بجٹوں میں مطلوبہ حد تک کٹوتی کردی جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی اپنی پالیسیاں تبدیل کرنی چاہئیں۔پاکستان کا آئین تعلیم کے فروغ تقاضا کرتا ہے اور اس معاملے میں ہونے والی کوتاہی آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔مگر افسوس ہماری کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی کے ساتھ محسوس ہی نہیں کیا اور کارکردگی زیادہ تر لفاظی اور بیان بازی تک ہی محدود ہے۔ رہی بات تعلیم کے شعبے کے لیے 4 فیصد مختص کرنے کی تو یہ بات اس وقت تک ممکن نظر نہیں آتی جب تک ہمارے ٹیکس وصولی کے نظام میں انقلابی تبدیلی نہیں آجاتی۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں پرائمری تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ہمارے یہاں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ سکول سے متعلق اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اصل تصویر واضح ہوجائے گی۔ ہمارے بیشتر پرائمری سکول مجرمانہ غفلت اور عدم توجہی کا شکار ہیں جس کا اندازہ اس بات سے باآسانی اور بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر اسکول فرنیچر سے محروم ہیں اور اساتذہ کی تعداد بھی طلبا کی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔زیادہ تر سرکاری اسکولوں کی عمارتیں بوسیدہ اور خستہ حال ہیں جس کی وجہ سے طالب علموں کو کھلے آسمان تلے ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ہم نے ایسے اسکول بھی دیکھے ہیں جن کے کمروں کی چھتیں بھی غائب ہیں۔ بعض اسکول تو اس حد تک لاوارث ہیں کہ وہاں نہ تو بیت الخلا کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کا بندوبست۔ ان اسکولوں کی حالت جیل خانوں سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم و تربیت کا فقدان اور شعور کی تنزلی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی اخلاقی کمزوری پیدا ہورہی ہے۔ہر طرف بھیڑ چال اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے یہاں ایک باشعور پڑھے لکھے سمجھدار با اخلاق شہری کی تشکیل خواب بن چکی ہے۔بے چاری عوام مہنگائی کی چکی میں اتنا پس رہی ہے کہ اسے بچوں کو پڑھانا اضافی بوجھ محسوس ہوتا ہے نتیجہ ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی ناخواندہ ہے۔ چائلڈ لیبر دن بدن فروغ پارہی ہے، جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے آئے دن سڑکوں پہ کوئی نہ کوئی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے نکلا ہوتا ہے۔

حال ہی میں مختلف اداروں کے جاری کردہ جائزوں میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کے اہم شعبوں کی حالت زار اور کار کردگی کو زیربحث لایا گیا ہے۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبے کو تنزلی کا شکار قرار دیتے ہوئے بحرانی کیفیت کا شکار قرار دیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ہیومین کیپیٹل رپورٹ 2017کے مطابق پاکستان تعلیم اور ہنر مندی کے حوالے سے 130ممالک میں 125ویں نمبر پرہے جبکہ دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بھی عالمی مسابقتی رپورٹ 2017/18کے مطابق پاکستان اعلیٰ تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں120ویں پوزیشن پہ ہے۔ ٹائمز ہائر ایجو کیشن کی حالیہ جاری کردہ جامعات کی عالمی درجہ بندی کے مطابق صرف 4پاکستانی جامعات دنیا کی بہترین 1000جامعات میں شامل ہیں جبکہ 2016میں ان پاکستانی جامعات کی تعدادسات تھی۔ پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی شعبہ 187سرکاری و نجی جامعات اور 110سے زائد علاقائی کیمپسز کے ساتھ وفاقی اور صوبائی سطح پر 120ارب سے زائد سالانہ بجٹ کا حامل ہے۔اس اہم شعبہ میں بہتری لانے کے لئے مطلوبہ نتائج قابل،ایماندراور محنتی قیادت کے بغیر حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے تمام ا سٹیک ہولڈرز نے متعدد بار اس اہم شعبہ میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے میرٹ اور شفافیت پر مبنی تقرریوں کا مطالبہ کیا ہے۔

تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں متنازعہ تقرریوں سے اجتناب کرتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔اس سلسلے میں ماہرین اعلیٰ تعلیم اور سول سوسائٹی پر مشتمل ورکنگ گروپ برائے اعلیٰ تعلیمی اصلاحات کی متفقہ سفارشات کا بھی جائزہ لیا جائے تاکہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبہ کی حالت میں بہتر ی آسکے۔ امید واروں کے چناؤ کے لئے قائم کی گئی سرچ کمیٹیوں کے ممبران کی تقرری کا عمل بھی شفاف بنایا جائے۔تقرریوں کے عمل کے دوران متنازعہ امیدواروں کو زیر غور نہ لایا جائے۔ پاکستان کا روشن مستقبل میرٹ اور شفافیت پر مبنی تقرریوں سے مشروط ہے۔

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 11647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.