ادھوری جیت

میاں شہباز شریف کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھال لیے جانے کے بعد اگلا بڑا مرحلہ اس جماعت کی صوبائی تنظیم کا ہوگا۔پارٹی میں شہباز شریف کو بہت زیادہ اہمیت رہی تو ہے مگراب تک انہوں نے پنجاب تک توجہ مرکوز رکھی۔دوسرے صوبوں اور مرکز میں اب تک جو باڈ ی تشکیل پائی تھی۔ا س میں چھوٹے میاں صاحب کی بجائے بڑے میاں صاحب کی سوچ کو کلی برتری رہی۔اب چھوٹے میاں صاحب دوسرے صوبوں اور مرکز میں اپنی سوچ کے مطابق باڈیاں تشکیل دینے کی پلاننگ کریں گے۔مرکزی صدارت کے بعد دوسری بڑی سیٹیں بھی جب تک ان کی سوچ کی ہنموا نہ ہوجائیں گی۔ چھوٹے میاں صاحب کو اطمینان نہ ہوگا۔ان کے علاوہ ان قوتوں کوبھی مایوسی ہورہی ہے جوہر پلیٹ فارم سے نوازشریف کا نام مٹادینے کی تمنا رکھتے ہیں۔شہبازشریف کی بطور قائم مقام سلیکشن ان لوگوں کے لیے خوش کن تھی۔مگر یہ تلخ حقیقت بھی بے چین کررہی ہے کہ جس انداز سے وہ ٹیک اوور کرنے کیے جانے کا کہہ رہے تھے۔اس طرح سے نہیں ہوسکا۔

سیاست کی شطرنج پر ابھی جانے او رکتنی چالیں چلی جائیں گی۔صدارت کی تبدیلی تو ہو چکی مگر نوازشریف کو ابھی تک بے دست وپا تصور کرنا آسان نہیں۔شہبازشریف کی پارٹی صدارت کی حمایت توہوئی مگریہ بات عیاں تھی کہ یہ مشروط حمایت تھی۔اس حمایت سے اگر نوازشریف کی انگلی کی اٹھان اور ان کی آنکھوں کا اشارہ نکال دیاجائے۔تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ابھی مرکز میں دیگر اہم عہدے بھی طے ہوئے ہیں۔ابھی پنجاب کی صدارت اور اس کی ذیلی تنظیم بھی قرار پانی ہے۔ابھی دوسرے صوبوں مین بھی باڈیاں بننی ہیں۔نوازشریف کی انگلی ابھی کئی اہم فیصلوں کا سبب بنے گی۔نظریہی آرہا ہے کہ موجودہ تنظیمی ڈھانجہ کم ازکم اگلے دو چار سال تک ری پلیس کرنا ممکن نہ ہوگا۔نوازشریف کی سوچ کا حامل یہ تنظیمی ڈھانچہ جب تک موجود رہا۔بڑے میاں صاحب کو پاکستان سیاست سے کھرچنا ممکن نہیں۔پھر یہ پہلو کہ ابھی تک نام کھرچنے والے عوام الناس کو مطمئن نہیں کرپائے۔الٹا عوام میں نوازشریف کا بیانیہ زیادہ مقبول ہے۔شہبازشریف کے لیے یہ آسان نہ ہوگا کہ وہ موجودہ تنظیمی ڈھانچے کو کسی چھوٹے موٹے لیٹر سے الٹ پلٹ کرپائیں۔

شہبازشریف کی صدارت مسلم لیگ (ن)میں مائنس ون فارمولے کی ایک ٹوٹی پھوٹی شکل ہے۔چھوٹے میاں صاحب کو کچھ لوگوں کی جانب مسلسل پٹی پڑھائی جارہی تھی۔انہیں اکسایا جاتارہا تھاکہ وہ بڑے بھائی کے خلاف بغاوت کردیں۔ مجبور کیا جاتارہا کہ وہ پارٹی کے اندر ایک بڑا دھڑا ہمنوابنا کر نوازشریف کو غلط اور غیر دانشمند قرار دے کر پارٹی کمان سنبھال لیں۔شہبازشریف نے پارٹی کمان سنبھالنے میں کامیاب ہوچکے۔مگر یہ طریقہ کار ان کے مہربانوں کی تشفی نہیں کرپایا۔مائنس نواز فارمولے کی اس کامیابی میں چھوٹے میاں صاحب کا رول زیادہ اہم نہیں خیال کیاجارہااسے شہباز شریف کی جدو جہد سے زیادہ خفیہ قوتوں کا کمال کہا جارہاہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے نوازشریف کو گھر بھجوانے کا معاملہ۔تب بھی عمران خاں اور ان کے جوڑی دار کی پروفیسری ناکام ہوئی۔فرمائشیوں نے اس جوڑی کو نکھٹو تصور کرنے کے بعد ہی ان کی طرف سے وید ہاشمی کے کان پڑاپلان بی اپنایا گیا۔شہبازشریف کو ملی پارٹی صدارت بھی کسی پلاننگ سے نہیں بلکہ پارٹی کی کسی وقتی مجبوری کا نتیجہ ہے۔مائنن نوازشریف کی تمنا کرنے والوں کو ادھوری جیت ملی ہے۔جس طرح سے پارٹی کوہائی جیک کروانے کاخوا ب دیکھا گیا۔پورانہیں ہوسکا۔آنے والے دنوں میں اس ٹوٹے خواب کی بہت سی نئی کرچیاں اس جیت کے ادھوراپن کی جھلک دکھاتی رہیں گی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.