سفر

آمنہ ایک خوبصورت، پڑھی لکھی، نفیس لڑکی تھی. بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی، جیسے ہی اس نے ایم اے کا امتحان دیا تو ساتھ ہی اماں کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی. ہر ملنے جلنے سے اس بات کا تذکره ضرور کیا جاتا کہ اگر کوئی اچھا لڑکا نظر میں ہو تو ضرور بتائیے گا. رشتے آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو انکشاف ہوا کہ" اچھا لڑکا" ڈہونڈنا تو کوہ نور ہیرا ڈہونڈنے جیسا ہے اور اچھا سسرال ڈہونڈنا تو گویا" کے ٹو " سر کرنے جیسا ہے.

آمنہ تو اس بات سے بہت برافروختہ ہوئے کہ ہر دفعہ اس کو گڑیا کی طرح سجا سنوار کر آنے والوں کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ ان کو چائے اور لوازمات کے ساتھ نہ صرف سرو کرے بلکہ ساتھ ہی ان کو اپنے ماضی سے لے کر مستقبل تک کی تفصیلات سے بھی آگاہ کردے. سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کے رنگ، عمر،قد اور وزن پر بھی اکثر اوقات یہ تبصرہ کرتے وقت لڑکے کی ماں بہنیں اکثر یہ بھول جاتی تھیں کہ وہ بھی اسی کمرے میں موجود ہے.

آج آمنہ نے دل میں تہیہ کیا کہ وہ اس فرسودہ اور جاہلانہ رسم و رواج کا شکار نہیں بنے گی اور اپنے آپ کو خود ترسی کا شکار نہیں ہونے دیگی.
آج جب اماں نے اس کو تیار ہونے کے لیے کہا.
تو اس نے بڑے سبہاو سے اماں کا ہاتہ پکڑ کر کہا
"میری پیاری اماں؛ ساری زندگی آپ نے مجھے خودداری کا سبق دیا ہے، اب آپ کیسے یہ سبق بہول سکتی ہیں؟

جو لوگ مجھے صرف ایک انسان ہی سمجہنے کو تیار نہیں، وہ مستقبل میں بھی میری عزت نفس کو کچلنے میں دریغ نہیں کرینگے. سوال میری عمر، وزن،رنگ، تعلیم یا نوکری کا نہیں بلکہ اس طریقے کا ہے جس کے تحت یہ اعتراضات کرکے مجھے رد کر دیا جاتا ہے. لڑکی کے والدین کو لگتا ہے کہ جیسے کوئی سوال کرنے کا یا کوئی اعتراض کرنے کا کیا کوئی حق نہیں؟

خاندانی لوگ گھر گھر رشتہ دیکھنے کے بہانے لوگوں کی بیٹوں میں نقص نہیں نکالتے اور نہ ہی یہ اندازے لگاتے ہیں کہ کدھر رشتہ ہونے پر کتنا جہیز ملے گا. آپ اللہ پر یقین رکہیں، نہ ہم لوگوں نے اپنے بہیا کی شادی اس طرح سے کی ہے اور نہ آئندہ بھی اس طرح کرینگے.

اماں یہ سن کر آبدیدہ ہو گئی اور اس کے سر پر ہاتہ رکھ کر اٹھ گئی.

آج ٹھیک چہ ماہ بعد آمنہ کی شادی کی تقریب تھی. نسیم آنٹی کا گھرانہ بہت امیر تو نہیں مگر دینی اور اخلاقی اقدار سے مالامال تھا. کب انہوں نے آمنہ کو قرآن خوانی پر دیکھا اور اسے پسند کیا. ایک دن وہ بےتکلفی سے غیر رسمی طور پر ان کے گھر آئی اور آمنہ کا ہاتہ اپنے بیٹے سہیل کے لئے مانگ لیا. آج شادی کے دن جہاں دلہا اور دلہن شاداں اور کامران تہے اس سے زیادہ ان کے والدین شاد تھے کیونکہ ایک بیٹی کو وداع کررہے تھے اور ایک اپنی بیٹی کا استقبال کررہے تھے. یہ حقیقتا گھر سے گھر تک کا سفر تھا ،سسرال کا سفر نہیں تھا.

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 262973 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More