رات کے تین بجے جونہی ڈاکٹر انعم نے گھر کے باہر قدم
رکھا،،کہیں سے یکدم کالا
سیاہ کتا اس پر بجلی کی تیزی سے حملہ آور ہوا۔
ایسا کہ کسی کو کچھ بھی سمجھنے کا ذرا بھی موقع نہیں ملا،،،!!! بس کتے کے
اچھلنے اور غرّانے کی آواز ہی آئی۔مگر ڈاکٹر انعم نے خود کو اتنی پھرتی
سےکتے
کی جمپ کی سمت سے دور کرلیا،،اور کرّے کی آواز نکالی،،یہ لفظ سنتے ہی کتا
میزبان کے قدم چاٹنے لگا۔
آفندی مسکرا دیا،،رانا ساری بات سمجھ گیا یہ ان کو چیک کیا گیا تھا،،،!
رانا نے
ستائشی نظروں سے ڈاکٹر انعم کی طرف دیکھا۔
آفندی نے میزبان کو تھپکی دی اور کہا،‘‘ویل ڈن،‘‘ ڈاکٹر انعم نے منہ بنا کر
رانا کی
طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو ‘‘دیکھا مجھے کوئی بھی کریڈٹ نہیں دینا اس نے‘‘
رانا انعم کے قریب آیا،،،اور سرگوشی میں کہاصحیح کہتی ہومیجر بہت ہی کھڑوس
ہے،،،انعم نے رونی سی صورت بنا لی۔
رانا شرارتی لہجے میں،اب بھی کہتا ہوں سوچ لو،،،! انعم کی کہنی سیدھی رانا
کی
پسلی میں پیوست ہو گئی۔رانا کی گھٹی ہوئی سی چینخ نکلی،،،!! آفندی بنا مڑے
ہی،،‘‘تم دونوں جلدی سے بڑے ہو جاؤ،،،!‘‘
راستہ بہت دشوار تھا،،،پتلی سی کچی زمین پر جیپ ہلکی سی رفتار سے اپنی منزل
کی طرف روانہ ہوگئی۔
اک طرف پہاڑ اور دوسری طرف دریا کا پانی تھا،،،اور اس پر سفید بنتی ہوئی
جھاگ،،
ہیڈ لائٹس خراب ہیں کیا،،،؟؟ انعم کی بات پر میزبان جو اب ڈرائیور بن چکا
تھا،،کہا
نہیں،،،پھر پشتو میں بولا،،ہم ایسے ہی سفر کریں گے۔نائٹ وژن گلاسز کا
استعمال
شروع ہو چکا تھا۔
رانا میزبان کو مخاطب کرکے بولا،،،ویسے تمہارا کتا،بالکل ہی کتا ہے۔
آفندی مسکرا کے بولا،،،ہی اِز ملین ڈالر بے بی،،،انعم مسکرا
کے،،،اوہ!!!!تھینکس،،،!
پھر سے خاموشی،،،!
آفندی بنا پیچھے دیکھے ہی بولا،،،بات پوری کرلو،،،انعم چڑ کے
بولی،،،تھینکس،،،
ایٹ لاسٹ یو لائک سم باڈی،،،! رانا کی زور دار ہنسی جیپ کے انجن میں گم ہو
گئی،،!
(جاری)
|