نگاہِ مرشد

سلسلہ شطاریہ قادریہ کے مشہور و معروف پنجاب کی دھرتی کی آن بان بے باک صوفی حضرت بلھے شاہ ؒ کے مرشد جب ناراض ہو گئے مر شد کو منانے کی سر توڑ کوششیں دم تو ڑ گئیں جب تمام سفارشیں فیل ہو گئیں سارے دروازے بند ہو گئے تو بلھے شاہ نے اپنے مرشد کے مرشد حضرت غو ث محمد گوالیاری ؒ کے مزار پر جانے کا ارادہ کیا جس طرح دنیا میں ہر انسان کا کو ئی نا زک حساس رشتہ ایسا ہو تا ہے جس کو بندہ انکار نہیں کر سکتا اِسی طرح بلھے شاہ نے سو چا کہ اپنے مرشد کے مرشد کا سفارشی خط لایا جا ئے کیونکہ حضرت عنایت قادری ؒ سارے زمانے کو انکار کر سکتے ہیں لیکن اپنے مرشد کو کبھی انکا ر نہیں کر سکتے ‘بلھے شاہ تاریک اندھیرے میں بے یار و مدد گار تھے کہ اچانک روشنی کا مینار سر زمین گوالیار میں نظر آیا پھر طویل سفر کر کے قصور سے گوالیار اپنے دادا مرشد محمد غوث گوالیاری ؒ کے مزار پر پہنچے یہاں پر آکر کتنے شب و روز عبادت ذکر اذکار مراقبہ میں گزرتے چلے گئے آپ ؒ کی آہ بکاہ فریاد اورسسکیوں ہچکیوں سے مزار گو نجتا رہتا رات کے سنا ٹے میں آپ ؒ کا گریہ نیم شب درو دیوار کو ماتم کدے میں تبدیل کر تا آپ ؒ کا جسم ہجر کی آگ کا آتش فشاں بن چکا تھا جس کے دن رات آہوں سسکیوں نالہ فریاد کے سوتے پھوٹتے چیخ و پکار کے پٹا خے پھو ٹتے ‘بلھے شاہ ؒ سراپا عشق و گداز ہجر بن چکے تھے آپ ؒ کی حرکات و سکنات سے ماتمی اثرات دیکھنے والوں کو بھی متا ثر کر تے یہ سلسلہ دن کے بعد رات کو بھی جا ری رہتا آخر کا ر تھک ہا ر کر دادا مر شد کے قدموں کی طرف سو جا تے ہجر فراق کی یہ گھڑیاں صدیوں پر محیط ہو چکی تھیں بلھے شاہ جدائی کی آگ میں جھلس رہے تھے ہجر کا یہ سفر ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہا تھا آخر طویل صبر آزماگھڑیوں شب و روز کے بعد دادا مرشد کو بلھے شاہ ؒ پر ترس آگیا ایک رات بلھے شاہ ؒ آہوں سسکیوں کا نذرانہ پیش کر تے دربار کی جالیوں کے قریب سو رہے تھے کہ حضرت شیخ محمد غو ث گوالیاری ؒ خواب میں جلوہ افروز ہو ئے اور کہا سید زادے تم کئی دنوں سے یہاں پڑے ہو اِس وحشت دیوانگی رونے کی وجہ کیا ہے اِس فقیر سے کیا چاہتے ہو بلھے شاہ ؒ کے ضبط کا بندھن ٹو ٹ گیادھاڑیں ما ر کر روتے ہوئے التجا کی کہ میر ے مرشد آپ ؒ کے مرید حضرت عنایت قادری ؒ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں اُن کی نا راضگی میرے لیے دنیا و آخرت کی بر بادی ہے مجھے اِس بربادی سے صرف آپ بچا سکتے ہیں خدا کے لیے میری حالت زار پر رحم فرما ئیں بے نیاز درویش حضرت محمد غوث ؒ نے بلھے شاہ ؒ کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایااور سینے کو انوار ِ معرفت سے مزید روشن کر دیا اور فرمایا میاں تان سین کی قبر پر لگے بیری کے درخت کی ڈھائی پتیا ں کھا ؤ تمھا رے مرشد تم سے راضی ہو جا ئیں گے محترم قارئین خالق کائنات اپنے پسندیدہ بندوں کو قیامت تک کے لیے امر کر دیتا ہے شہرت کے انداز نرالے میاں تان سین کے مر نے کے بعد اُن کی قبر پر بیری کا پو دا پھوٹا جو گردش ایا م سے تن آور درخت بن گیا درویش کی فیضان نظر کا کما ل دیکھیں کے میاں تان سین کے مر نے کے بعد بھی اﷲ تعالی نے میاں تان سین کا فیض کس طرح جا ری رکھا صدیوں سے مو سیقی سے رغبت رکھنے والے میاں تان سین کے دربا ر پر جاتے ہیں بیری کے ڈھائی پتے کھا کہ مو سیقی کا عرفان حاصل کر تے ہیں مو سیقی کا شعبہ بہت وسیع ہے گلو کار اور سازوں سے کھیلنے والے فنکار میاں تان سین کی بیری کے ڈھائی پتے کھا نے والے آواز اور فن مو سیقی میں مہا رت حاصل کر تے ہیں کیونکہ تان سین اپنے مرشد سے جنون کی حد تک عشق کر تے تھے مرشد کے وصال کے بعد بھی تان سین مزار پر حاضر ی دیتے مرشد کے قدموں میں بیٹھ کر گھنٹوں گایا کرتے یہ نغمہ آرائی شراب معرفت پر مبنی ہو تی اِن گانوں میں معرفت الٰہی عشق الٰہی مرشد سے عشق مرشد کی جدائی کا رنگ غالب ہو تا مرشد کو یا د کر کے میاں تان سین خو د بھی روتے اور زائرین کو بھی رلا تے میاں تان سین نے جب مٹی کی چادر اوڑھی مرشد کے قدموں میں تہہ خا ک ہو گئے تو بعد میں جب بھی مو سیقی سے شغف رکھنے والا کو ئی آکر عقیدت و احترام سے بیری کے ڈھا ئی پتے کھا تا ہے تو اُس پر مو سیقی کے اسرار کھلنے شروع ہو جا تے ہیں آواز میں سریلا پن پیدا ہو جا تا ہے نئی نئی طرزیں بھی آنا شروع ہو جا تی ہیں یہاں پر قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ کما ل بیری کے پتوں کا نہیں ہے بلکہ کما ل تو حضرت محمد غوث گوالیاری ؒ کے فیض کا ہے کہ جو بھی عقیدت و احترام سے در بار پر انوار پر حاضر ہو تا ہے مو سیقی سے خا لی جھو لی بھر کر واپس جاتاہے کیونکہ حضرت محمد غو ث گوالیاری ؒ تان سین سے بہت محبت فر ماتے تھے تان سین نے جب ہندو مذہب چھوڑ کر ایمانی دولت حاصل کی تو مرشد اورمرید کا یہ رشتہ اور بھی با کمال ہوگیا کما ل بیری کے پتوں میں نہیں ہے بلکہ کما ل تو مرشد کی دعا میں تھا کہ چار سو سال گزرنے کے بعد بھی ہندو ستان بلکہ دنیا پر میاں تان سین کی حکو مت قائم ہے لو گ آج بھی تان سین کو ہی مو سیقی کا شہنشاہ ما نتے ہیں تان سین بھی اسلا م حاصل کرنے سے پہلے ایک عام مو سیقار تھے عام گو ئیے تھے لیکن جب غلا می مرشد میں آئے تو مرشد کی نگا ہ نے خاک کے ذرے کو آسمان کا چمکتا ستا رہ بنا دیا یہ مرد کامل کی نگا ہ تھی کہ پتھر پا رس کا روپ دھا رگیا تا ریخ تصوف کے اوراق ایسے ہزاروں واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب ڈاکو چور گنا ہ گار ایک لمحے میں برائی سے اچھا ئی میں ڈھل گیا جو زمانہ جہا لت میں لو گوں کو لو ٹتا تھا نگا ہ مر شد کے بعد دوسروں کے لیے مشعل راہ بن گیا مثنوی روم کے خالق نے کیا خو ب کہا ہے ۔
مو لوی ہر گز نہ شد مولا ئے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
’’مولانا روم اس وقت تک مو لو ی ( عالم ) نہ بن سکے جب تک انہوں نے حضرت شمس تبریز کی غلامی اختیار نہ کر لی ‘‘اِسی لیے تان سین کو بھی مو سیقی میں لا زوا ل شہرت ملی تو مرشد کے قدموں سے لپٹنے کے بعد ‘آج اگر اہل دنیا اُن کی قبر پر بیری کے پتوں کے فیض کا ذکر کر تی ہے تو یہ بھی فیضان مر شد ہی ہے یہاں ایک با ت کا ذکر بہت ضروری ہے کہ میاں تان سین کی بیری کے پتے کھا نے والا ہر شخص فیض یاب نہیں ہو تا بلکہ آواز میں سریلا پن اور مو سیقی میں اعلیٰ مہا رت اُسی کو نصیب ہوتی ہے جس کو حضرت محمد غو ث ؒ کی طرف سے اجا زت یا فیض ملتا ہے فیض بیری کے پتوں میں نہیں ہے بلکہ فیض تو نگا ہِ مرشد میں ہے جو جس پر پڑ جا ئے اُسے خاک سے اکسیراور پتھر سے پا رس میں تبدیل کر دیتی ہے جو بھی با ادب ہو کر درویش کے در پر فیض کی نیت سے حاضر ہو تا ہے وہ خا لی جھو لی بھر کر با مراد ہو کر واپس جاتاہے اندھوں کو بینا ئی گو نگوں کو گو یا ئی با ادب لوگوں کو ہی نصیب ہو تی ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.