عادل پر تنقید جاری تھی کہ وہ غلط فیصلے کر رہا ہے مجھے
اس پر ترس آرہا تھا کہ وہ بیچارہ ملازم آدمی ہے اُسے تو جو حکم مل رہا ہے
وہ بجا لا رہا ہے اب یہ اور بات ہے کہ اس نے ضمیر کی بادشاہت کو چھوڑ کر
کسی کی ملازمت کو ترجیہ دی یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کس کی نوکری کر
رہا تھا مگر اتنا کہا جا سکتا تھا کہ وفا دار تھا جس کا بھی تھا مگر عوام
سے وفاداری نہ کر سکا اُس کا قصور بھی شائد نہ ہو کیونکہ کوی شہابِ ثاقب اس
کا پیچھا کرتے کرتے اُس کا مالک بن بیٹھا تھا اور وہ اپنے مالک پر نثار ہو
رہا تھا وہ ایک اعلی اور شان و شوکت والی نوکری تھی اور اختیارات لا محدود
مگر فیصلہ کا اختیار کہیں اور تھا
میں خیال ہوں کسی اور کا
مجھے سوچتا کوئی اور ہے-
ن سے نا معلوم
|