جیسے جیسے مُلک میں اگلے متوقعہ عام انتخابات2018ء کے دن
قریب آتے جارہے ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی جارہی
ہیں، سیاسی چپقلش اپنی جگہہ، مگر اِس سیاسی لڑائی میں حد تو یہ ہے کہ
سیاستدان بی جمالو کی طرح الزام تراشیوں میں ذاتی اور خاندانی گڑے مُردے
بھی اُکھاڑرہے ہیں جو اِن کے سیاسی بالغ ہو نے اور نہ ہو نے کا اشارہ ہے
ایسا کیو ں ہے؟ بات یہ سمجھ آئی ہے کہ ممکن ہے کہ شائد اِنہیں ابھی تک یہ
یقین نہیں ہوپارہاہے کہ اگلے عام انتخابات اپنے وقتِ مقررہ پر ہوں گے، یا
پھر ؟ اِس مخمصے اور دوسرے خدشات کی شکار ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں
کچھ خود کو سنبھال نہیں پارہی ہیں کہ اگر مُلک میں اگلے متوقعہ انتخابات
ہوتے ہیں تو اِنہیں عوام الناس میں کس نئے یا پرا نے منشور کے ساتھ جا نا
ہے، کیو ں کہ رواں حکومت کے جاری پانچ سالوں میں سِوا ئے لڑنے جھگڑنے ایک
دوسرے کی ٹا نگیں کھینچنے اور دھرنے دینے ذرا ذرا سے ذاتی اور قومی مسائل
پر احتجاج کرنے اور کرا نے کے نہ تو برسرِ اقتدار جماعت اور نہ ہی اپوزیشن
کی پارٹیوں نے چند ایک سی پیک منصوبے اور آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کے
عوام الناس کی فلا ح اور بہبود کے لئے کچھ بھی تو تاریخ ساز کا نامہ انجام
نہیں دیاہے کہ عوام الناس کے بجلی ، گیس ، پانی ، خوراک ، علاج ، تعلیم اور
دیگر بنیادی حقوق جیسے تھوڑے بہت بھی مسائل دیرپا اور دائمی بنیادوں پر حل
ہو کر کم یا ختم ہوتے عوام کے بنیادی مسائل جیسے ستر سال پہلے تھے آج آبادی
کے بے لگام اضافے کے باعث ابھی ابتر حالت میں ہیں اور مزید خراب ہو گئے ہیں
ایسے میں ہماری وہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں جنہیں اگلے الیکشن میں حصہ لینا
ہے، یہ بڑی عجیب و غریب صُورتِ حال سے دوچار ہیں بہرحال، طرح طرح کے مخمصوں
اور خدشات کی شکار تمام جماعتیں اپنے تئیں انتخا بی محاذ کی تیار یوں میں
مصروفِ عمل ہورہی ہیں اور عوام سے ووٹ لینے کے لئے رنگ برنگین گولے گنڈے کی
تیاریوں میں لگی ہو ئی ہیں۔
آہا آہا..!! اَب اِس میں کیا نیا ہے؟یہی تو گزشتہ 50/45سالوں سے پی پی پی
کرتی آئی ہے،آج بلاول زرداری بھٹو نے بھی پرانا والا ری پلے چلادیاہے، جیسا
کہ بلاول زرداری بھٹونے کہا ہے کہ ’’ آئندہ الیکشن روٹی کپڑا اور مکان کے
نعرے پر لڑیں گے‘‘ یاد پڑتا ہے کہ پہلے بھی تو پاکستان پیپلز پارٹی اِس ہی
نعرے اور منشور پر ساری انتخابی مہم چلاتی رہی ہے اور انتخابات لڑتی آئی ہے
مگر اَب اِس نعرے میں کیسا کیا کچھ نیا ہے ؟ کہ بلاول جواپنے نوجوان خون کے
ساتھ نئے جوش اور جذبے اور حوصلہ لیئے پی پی پی میں نت نئی اور جدید
تبدیلیاں لا نے کے خواہشمند دکھا ئی دیتے ہیں بہرکیف، بڑے تعجب کی بات ہے
کہ آج اِنہوں نے بھی اگلا الیکشن اپنی جماعت کے وہی پرا نے اور فرسودہ نعرے
روٹی کپڑا اور مکان پر لڑنے کا عزم ظاہر کرکے بہت سوں کو ضرور ما یوس
کردیاہے آج یہ سب جانتے ہیں کہ روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ اِن کے نانا شہید
ذوالفقار علی بھٹوکا لگایا ہواتھا جِسے بعد میں ان کی والدہ مرحومہ شہید را
نی بے نظیر بھٹو نے لگایا اور جب تک یہ حیات رہیں اِن کی پارٹی اِس نعرے کے
بدولت بھا ری مینڈیٹ کے ساتھ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بناتی رہی مگر
بعدازشہادت متحرمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بلاول کے بابا آصف علی زرداری نے
بھی اِس نعرے کو بلند کیا اور وفاق و سندھ میں حکومتیں بنا ئیں باقی
دوصوبوں میں پی پی پی کی کمزورمخلوط حکومتیں رہیں مگر یہ سب جانتے ہیں کہ
جتنے بھی عرصے زرداری کی حکومت قائم رہی اِس میں وفاق اور اِن کے صوبہ سندھ
نے کتنی ترقی کی ؟ وہ سب کے سامنے ہے؟ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر
حکومت بنا نے والے زرداری کی حکومت کے دوران عوام الناس کو روٹی کی بجا ئے
روزانہ کڑوی روٹی اور کپڑے کے بجا ئے ڈیلی دہشت گردی کی نظر ہوجا نے والے
معصوم عوام کو کفن ملااور مکان کی جگہہ غریب اور مفلوک الحال عوام کو قبرکی
آغوش نصیب ہوئی ۔
تاہم خبر ہے کہ اسلام آباد میں سُپر مارکیٹ کے مقام پر ممبرسازی کے لئے لگا
ئے گئے کیمپ اور کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران پاکستان پیپلز
پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے اپنے مخصوص دانشمندا نہ اور سیاسی
فہم فراست سے لبریز لب ولہجے کا استعمال کرتے ہو ئے کہا کہ ’’ عوام کو یہ
غرض نہیں کہ نواز شریف کو کیوں نکالا؟بلکہ عوام اپنے مسا ئل کا حل چاہتے
ہیں اور آج عوام کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف پی پی پی کے پاس ہے،ہم
آئندہ الیکشن خالصتاََ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے پر لڑیں گے، پاکستان
کے عوام روزگاری،غربت اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘آہا آہا ’’اور
پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو عوام کے مسائل کا حل چاہتی ہے‘‘
اقتدار کے بعد کیسا حل ؟ کہاں کا حل؟ اِس موقع پر اُنہوں نے اپنی معصومانہ
سیاسی تدبر سے یہ بھی کہا کہ ’’2018ء کے انتخابات میں ہماری کامیا بی ہوگی
جبکہ ہم روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے پر انتخابات میں حصہ لیں گے‘‘ا ﷲ خیر
کرے، بلاول زرداری بھٹو کے بابا نے اپنے سابقہ دورے حکومت میں عوام کو کیا
دے دیا تھا اور اَب دیکھتے ہیں کہ اگلے اقتدار کے دعویدار زرداری کے بیٹے
بلاول یہ نعرہ لگا کر اقتدار کے حصول کے بعد مُلک کے 85فیصد غریب عوام کو
کیا دیں گے؟اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ’’ ن لیگ کو اپنا چیئر مین
سینیٹ لا نے کو چیلنج کرنے اور کراچی میں متحدہ کے خاتمے کا انکشاف کرنے
والے بلاول زرداری اگلے الیکشن میں کراچی کے کتنے فیصد حصے کے فاتح قرار
پاتے ہیں؟اور یہ ہارس ٹریڈنگ کا انکار کرکے بھی ہارس ٹریڈنگ کے مرتکب ہوکر
اپنا چیئر مین سینیٹ لا نے میں کب کامیا ب ہوتے ہیں؟ یہ بھی چند دِنوں میں
لگ پتہ جا ئے گا سیاست مفروضوں اور خیالی پلاؤ پر نہیں کی جا تی ہے سیاست
ہمیشہ ہی سے نقد کا سودا رہی ہے اور آج بھی دنیا میں وہی سیاسی جماعتیں
کامیا بی کے ہمیشہ جھنڈے گاڑتی ہیں جو مُلکی اور عوامی مفادا ت کے حقیقی
منشور اور فوری عملی جا مہ پہنانے والے منصوبے اور اقدامات لے کر عوام النا
س کی دہلیز پر جا تی ہیں کر اچی میں پی پی پی والے سے گزشتہ 25سالوں سے بند
ایک سرکلر ریلوے تو چلائی نہیں جا سکی ہے یہ پورے مُلک میں حکومت کے خواب
دیکھ رہے ہیں آج پاکستان و سندھ اورکراچی کے غیور عوام نہ متحدہ ، نہ پی
ایس پی اور نہ پی ٹی آئی اور نہ ن لیگ میں سے کسی اور کو پسند کرتے ہیں آج
اگر پاکستا ن اور سندھ و کراچی کے عوام اﷲ اور رسول ﷺ کے بعد کسی کو اپنا
مسیحا اور حاجت روا مانتے ہیں تو بس وہ چیف جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف
جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں جنہوں نے پورے پاکستان اورتمام صوبوں کے پریشان
حال عوام کی دادرسی کرنے کی اپنی ذمہ داری قبول کرلی ہے آج یہی وجہ ہے کہ
پاکستا نی عوام جمہوریت کی موٹی سیاہ چادر میں لپیٹے سیاسی بازی گروں اور
جوکروں ، قومی لیٹروں سے چھٹکارہ چاہ رہے ہیں اگر اِن قومی چوروں کا احتساب
کئے بغیر اگلے عام انتخابات میں یہی ڈرامے باز سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہی
دوبارہ اقتدار میں آتی ہیں تو پھر تو مُلک و قوم اور قومی خزا نے کا تو اﷲ
ہی حافظ ہے۔(ختم شُد)
|