خواتین کا عالمی دن قریب ہے۔یہ دن مغرب سے ہمارے ہاں آیا
ہے،لیکن بہرحال اب ہمارے ہاں بھی منایا جارہا ہے۔اس دن کومنانے کاجوٹرینڈ
چل رہا ہے،وہ بھی مغرب کا ڈیزائن کردہ ہے۔چناں چہ خواتین کے عالمی دن شمعیں
روشن کی جاتی ہیں،واکس کا اہتمام کیا جاتاہے،مخلوط محافل منعقد کی جاتی ہیں
اور کانفرنسوں،سیمینارزاور ورک شاپس میں خواتین کی عظمت اجاگر کرنے کے
بجائے اس دین کو سب سے زیادہ تنقید وتعریض کا نشانہ بنایا جاتا ہے،جس نے
عورت کو حقوق کسی بھی دین ودھرم اور ملت ومذہب سے زیادہ دیے۔اسے عزت کا
مقام ومرتبہ دیا۔بیٹی ،ماں،بہن ،بیوی ہرروپ میں اسے عظمت وبلندی کی معراج
پرپہنچایا۔اسے تصویر کائنات کی رونق قراردیا،ماں ہونے کی حیثیت سے اس کے
قدموں کے نیچے جنت ڈال دی،دو بیٹیوں کی اچھی پرورش اور نکاح کرنے والے کو
نبی کریم ﷺ نے جنت میں اپنا ساتھی بتایا،شوہر کی فرماں برداری پر اسے جنت
کی سند دی کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے،اسے میراث میں مردوں
کی طرح شریک ٹھہرایا،اسے ذاتی ملکیت کا حق دیا،اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت
اﷲ کے پیارے حبیب ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے ایک ایک لمحے میں اپنے قول وعمل
سے تو کی ہی،دنیا سے پردہ فرماتے ہوئے بھی اسے نہیں بھولے۔اب بھی غیرجانب
دارغیرمسلم تک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کی عصمت وعزت کا
جو تحفظ کیا ہے،اور اس کے لیے معاشرے میں وقار سے جینے کی جو راہیں متعین
کی ہیں،وہ اسلام ہی کا خاصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب ویورپ کی خواتین اب بھی
اسلام ہی کو اپنی جائے پناہ سمجھتے ہوئے ایک بھاری تعداد میں اسلام قبول
کررہی ہیں۔اعداد وشمار سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دن کی مناسبت سے خواتین کی عظمت اور ان کے مقام
کو اجاگرکیا جائے،اسے معاشرے میں عزت ووقار سے جینے کا سبق دیا جاتا،جہاں
جہاں معاشرتی رسوم ورواج کی جکڑ بندیوں میں عورت کا استحصال ہورہا ہے ،اس
کی نشان دہی کی جاتی……لیکن مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اصل
ایجنڈا خواتین کی عظمت ہے ہی نہیں ۔اصل ایجنڈا تو اسلام کی تعلیمات کو
نشانہ بنانا اور ملک میں خواتین کے حوالے سے ہونے والے منفی رویوں کو،اگرچہ
واہ آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہوں،اجاگر کرناہے،چاہے اس کے لیے رائی
کا پہاڑ ہی کیوں نہ بناکر پیش کرنا پڑے،کہ وہاں سے عطا وانعام اسی بات کے
ساتھ مشروط ہے۔جس معاشرے میں عورت کی حیثیت محض ایک شو پیش یاجنسی ضرورت
پوری کرنے کے ایک آلے کی سی ہو،وہ خواتین کی عظمت اور ان کے حقوق کو کیا
جانے۔جس معاشرے اور تہذیب نے حقوق کے نام پر عورت پر گھر داری کے ساتھ ساتھ
ملازمت کا اضافی بوجھ بھی ڈال دیا ہو،اسے عورت کے حقوق سے کیا سروکار۔سو ،ان
کی ڈکٹیشن پر نکالے جانے والے جلوسوں ،محافل ومجالس اور پروگرامز میں عورت
کے اصل حقوق اور ان کے سب سے بڑے محافظ اسلام کی بات کیوں کی جائے گی!کون
نہیں جانتا ،کہ این جی اوز کو تو ایسی عورتوں کی تلاش رہتی ہے،جسے مظلوم
بناکر ڈالربٹورے جاسکیں،نہ کہ ایسی خواتین کی جو ایک باعزت زندگی گذاررہی
ہوں۔یہاں تو ہر سال نئی نئی مختاراں مائی،ملالہ اور اس نوع کے مختلف کردار
تلاشے ہی نہیں ،تخلیق بھی کیے جاتے ہیں۔
این جی اوز اور ان کی گماشتاؤں سے تو وفا کی امید رکھنا ہی کارے دارد
ہے،لیکن اس دن کی مناسبت سے کیا ہم دنیا کو ایک مظلوم وبے بس قیدی کی طرف
متوجہ نہیں کرسکتے،کہ وہ بھی تو خاتون ہے،اگر خواتین کے حقوق مقدم ہیں ،اور
ہونے بھی چاہییں ،تو اس مظلوم وبے بس اور لاچار وبے کس خاتون کو اس کا حق
کون دے گا؟جس کا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے،جس کے سینے میں رب کی لاریب کتاب
قرآن مجید محفوظ ہے،جس کو اﷲ تعالیٰ نے بلا کی ذہانت عطا فرمائی ،کہ وہ
فزکس میں اس ملک کا نام عالم میں روشن کرسکتی تھی،اس حافظہ قرآن سائنس دان
کا آخر کیا جرم تھا،کہ ایک خوں خوار درندے اور مطلق العنان حکم ران نے،صرف
اسلام دشمنوں سے ڈالر بٹورنے کے لیے بچوں سمیت کراچی سے اسلام آباد جاتے
ہوئے اغوا کروایا،اس کے معصوم بچوں کا کیا قصور تھا،بچوں کے حقوق کا تو ہر
معاشرہ داعی ومناد رہا ہے،پھر سالوں بعد اس کا سراغ افغانستان کی جیل میں
ملا،وہاں سے اس کو امریکا منتقل کیا گیا،اور ایک جھوٹے مقدمے میں اسے اسی
سال سے زاید کی سزا سنا کر پس دیوار زنداں کردیا گیا،جہاں وہ روز جیتی اور
روز مرتی ہے،اس سے اس کی آزادی کس جرم میں سلب کی گئی؟ ظلم وستم اور جبر
وتشدد کا وہ کون سا حربہ ہے،جواس کے ساتھ مغرب کے درندے روا نہیں رکھے ہوئے
ہیں؟کیا عافیہ صدیقی کے ساتھ بزعم خود سپرپاور امریکا میں کیا جانے والا یہ
ظلم خواتین حقوق کے دعوؤں پر بدنما داغ نہیں ہے؟اس کو جھوٹے مقدمے میں سزا
سنا کر انصاف کا خون کیا گیا ،اس پر منصفان عالم کی حمیت کیوں حرکت میں نہ
آئی؟تب سے اب تک،کئی سال بیت چکے،ہماری یہ مظلوم ومعصوم بہن،صرف مسلمان
ہونے کی پاداش میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہی ہے،جس کا ہر مسلمان اور ہر
پاکستانی مجرم ہے۔
عافیہ موؤمنٹ کے محمد ایوب صاحب بتارہے تھے ہم قانونی جنگ لڑرہے ہیں،اگر
اوباما کی ریٹائرمنٹ کے دنوں میں ہمارے حکم ران ایک خط ان کے نام عافیہ کی
رہائی کے لیے لکھ دیتے،تو آج ہماری مظلوم حافظہ قرآن بہن آزاد فضا میں سانس
لے رہی ہوتی،لیکن بے حمیت حکم رانوں سے،جنھوں نے ووٹ بھی عافیہ کے نام پر
لیا تھا،اتنا نہ ہوسکا۔ہم پاناما پاناماکھیلتے رہ گئے اور موقع ہاتھ سے نکل
گیا۔
ہماری خواتین کے حقوق کے تمام علم برداروں سے گذارش ہے کہ وہ اس مرتبہ
8مارچ کو عافیہ ڈے کے طور پر منائیں۔اپنی قیدی بہن کے حق میں عالمی برادری
کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرائیں ۔اس سلسلے میں ہم میں سے ہر شخص،تنظیم اور
ادارے کو اپنی بساط بھر کوشش کرنی چاہیے،کہ یہ ہم سب کا اجتماعی المیہ اور
اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے۔اس سلسلے
میں عافیہ موؤمنٹ کے تحت ہونے والی تمام کوششوں کو اﷲ تعالیٰ بارآور وثمر
بار فرمائے اور اہل وطن کو وہ دن جلد سے جلد دیکھنا نصیب ہو،جب ہماری یہ
مظلوم ،بے بس ،بیمار ولاچار مگر عظیم بہن آزاد فضامیں سانس لے رہی ہو۔
ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد |