چین کی سائنسی قوت
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چین کی سائنسی قوت تحریر: شاہد افراز خان ، بیجنگ
دنیا بھر کے معتبر تحقیقی اداروں، عالمی اشاریوں اور بڑے سائنسی ناشرین کی تازہ رپورٹس میں گزشتہ چند برسوں کے دوران چین کی سائنسی قوت میں غیر معمولی اضافے کا احاطہ کیا گیا ہے، جسے عالمی سطح پر تحقیق اور جدت کے شعبے میں ایک "تابناک ابھار" قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کی واضح علامت ہے کہ چین تحقیق کے معیار، جدت کے دھارے اور سائنسی قیادت میں بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط اور فیصلہ کن مقام حاصل کر چکا ہے۔ یہ بڑھتا ہوا کردار نہ صرف داخلی ترقی کے اہداف کو تقویت دے رہا ہے بلکہ عالمی پائیدار ترقی کے ایجنڈے میں بھی نئی توانائی شامل کر رہا ہے۔
نیچر انڈیکس 2025 کے سائنس سٹیز سپلیمنٹ میں پہلی بار عالمی سرفہرست دس سائنسی مراکز میں چینی شہروں کی اکثریت دیکھی گئی۔ 2023 کی درجہ بندی میں پانچ چینی شہر شامل تھے، جو 2024 میں بڑھ کر چھ ہو گئے۔ اس طرح چین نے پہلی مرتبہ عالمی فہرست میں اکثریتی نمائندگی حاصل کی۔
اشاریے کے بنیادی پیمانے "شیئر" کے مطابق بیجنگ مسلسل نویں سال دنیا کا سب سے بڑا سائنسی شہر قرار پایا، جب کہ اس کی سائنسی پیداوار میں ایک برس کے دوران 9 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ شنگھائی، گوانگ ژو، ووہان، نانجنگ اور ہانگ ژو بھی عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ شنگھائی نے تحقیقی پیداوار میں تقریباً 20 فیصد کا نمایاں اضافہ دکھایا، جس سے ملک کی مجموعی تحقیقاتی حرکیات مزید مستحکم ہوئیں۔
مزید تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ کیمیاء، طبیعیاتی علوم اور زمین و ماحولیاتی علوم میں چینی شہروں نے عالمی سطح پر سب سے مضبوط پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ کیمیاء کے میدان میں سرفہرست دس مقامات پہلی بار مکمل طور پر چینی شہروں کے پاس رہے، جب کہ دیگر دو شعبوں میں چھ نمایاں مقامات چین کے حصے میں آئے۔ بیجنگ تینوں شعبوں میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔
عالمی ادارۂ املاکِ دانش کی جانب سے جاری گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 میں "شینزین-ہانگ کانگ-گوانگ ژو" کلسٹر کو دنیا کا نمبر 1 سائنسی و تکنیکی مرکز قرار دیا گیا، جب کہ چین پہلی بار دنیا کی دس سب سے جدید معیشتوں میں شامل ہوا ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ چین بڑے پیمانے پر تحقیق، جدت اور صنعتی ترقی کے ایک ہم آہنگ ماڈل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
عالمی تعاون کی نوعیت میں بھی چین کی قیادت نمایاں طور پر مضبوط ہوئی ہے۔ بین الاقوامی تحقیقی جریدے "پی این اے ایس" میں شائع ایک مطالعے کے مطابق، چین اور برطانیہ کے مشترکہ تحقیقی منصوبوں میں نصف سے زیادہ کی قیادت چینی سائنس دانوں کے پاس ہے۔ یہی رجحان امریکہ اور یورپ کے ساتھ تحقیق میں بھی دیکھا جا رہا ہے، جو اس تبدیلی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
کلیر ویٹ کے ہائیلی سائیٹڈ ریسرچرز 2025 انڈیکس میں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز نے 258 اندراجات کے ساتھ دنیا بھر میں پہلا مقام حاصل کیا، جس نے روایتی طور پر اس فہرست میں نمایاں برتری رکھنے والے اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
سوئیڈن کے تحقیقی ادارے ایس ٹی آئی این ٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اگر تحقیقی حجم کے بجائے اعلیٰ اثر رکھنے والی اشاعتوں کو معیار بنایا جائے تو چین ریاضی، کمپیوٹنگ اور انجینئرنگ میں امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ رجحان گزشتہ دو دہائیوں کی مسلسل سرمایہ کاری، تحقیقاتی ڈھانچے کی مضبوطی اور سائنسی ماحول کے وسیع استحکام کی عکاسی کرتا ہے۔
نیویارک یونیورسٹی کے 70 برسوں پر مشتمل ایک جامع سروے کے مطابق، دنیا بھر میں 2023 میں شائع ہونے والے ریموٹ سینسنگ تحقیقی مقالات کا 47 فیصد حصہ چین کے محققین کے پاس رہا۔ اس شعبے کی تیزرفتار ترقی نے چین کو زمینی مشاہدے، موسمیاتی تجزیے اور قدرتی وسائل کے سروے جیسے شعبوں میں نمایاں عالمی مقام فراہم کیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر چین کی تحقیق نہ صرف علمی حوالوں میں نمایاں ہو رہی ہے، بلکہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف سے متعلق پالیسی عمل اور عالمی معیار کے تعین میں بھی موثر کردار ادا کر رہی ہے۔
اسپرنگر نیچر کی عالمی رپورٹ کے مطابق چین پائیدار ترقیاتی اہداف سے متعلق علمی اشاعتوں میں سب سے بڑا حصہ دار ہے، جب کہ اس کی تحقیق کا عالمی پالیسی دستاویزات میں مسلسل حوالہ دا جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، چین کی ایس ڈی جی تحقیق میں سے 25 فیصد حوالہ جات عالمی اداروں بالخصوص عالمی ادارۂ صحت ، کی سرکاری دستاویزات میں شامل ہیں۔ 2022 کے بعد صحت اور ماحولیات کے میدان میں اس اثر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو عالمی پالیسی سازی میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کی گواہی دیتا ہے۔
علاوہ ازیں، عالمی سائنسی رسائل کی ایڈیٹوریل قیادت ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر یہ اشارہ دے رہی ہے کہ چین کا بڑھتا ہوا علمی اثر عالمی تحقیق کے ڈھانچے میں ایک نیا توازن پیدا کر رہا ہے۔ سائنسی تحقیق کی بین الاقوامی نوعیت کے باوجود یہ امر نمایاں ہے کہ چین نہ صرف تحقیق کی مقدار بلکہ معیار، اثر پذیری اور کثیر شعبہ جاتی ہم آہنگی میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
عالمی اداروں کے متفقہ مشاہدات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ چین تحقیق، جدت اور سائنسی ترقی کے میدان میں ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ سائنسی شہروں کی عالمی درجہ بندی میں بڑھتا ہوا اثر، اعلیٰ اثر رکھنے والی تحقیق میں نمایاں برتری، بین الاقوامی شراکت داریوں میں مضبوط قیادت، اور پائیدار ترقی کے عالمی ایجنڈے میں وسیع کردار ، یہ تمام عوامل اس حقیقت کو تقویت دیتے ہیں کہ چین عالمی سائنسی ماحول میں ایک مستحکم اور دیرپا مقام حاصل کر چکا ہے۔موجودہ رجحانات سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آئندہ برسوں میں چین کا تحقیقی اثر مزید بڑھے گا، اور سائنسی قیادت میں اس کا کردار عالمی سطح پر طویل مدتی اثرات چھوڑے گا۔ |
|