زہد کی حقیقت

زہد کے لغوی معنی کسی چیز سے بے رغبت ہونے کے ہیں۔شریعتِ مطہرہ کی اصطلاح میں آخرت کے لئے دنیا کے لذائذ و مرغوبات کی طرف سے بے رغبت ہوجانے اور عیش و تنعم کی زندگی ترک کردینے کو زہد کہتے ہیں۔رسول اﷲ ﷺ نے اپنے قول و فعل سے امت کو زہد کی ترغیب دی ہے اور اس کے دنیوی و اخروی ثمرات و برکات بیان فرمائے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (ایک دن کھجور کی چٹائی پر سوئے)جب سو کر اٹھے تو جسم مبارک پر اس چٹائی کی بناوٹ کے نشانات پڑے ہوئے تھے۔حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ اگر حضور ﷺ فرمائیں تو ہم آپ کے لئے بستر کا انتظام کریں اور کچھ بنائیں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ مجھے دنیا سے کیا تعلق اور کیا لینا؟ میرا تعلق دنیا کے ساتھ بس ایسا ہے جیسا کہ کوئی مسافر کچھ دیر سایہ لینے کے لئے کسی درخت کے نیچے ٹھہر ااور پھر اس کو اپنی جگہ چھوڑ کر منزل کی طرف چل دیا۔ اس پاک ارشاد میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح کوئی راہرو اپنے طویل سفر کے دوران کچھ وقت کے لئے آرام میں مشغول ہوتا ہے اور اس کی اصل منتہائے فکر سوائے منزلِ مقصود تک رسائی کے کچھ اور نہیں ہوتی تو کچھ ایسا ہی حال نبی اکرم ﷺ کا تھا کہ دنیا اور آخرت کی حقیقت جب آپ کے سامنے مکمل طور پر منکشف ہوگئی تو آپ ﷺ نے دنیا کے ساتھ فقط بقدرِ ضرورت تعلق رکھا اور اپنی تمام کاوشیں عالمِ آخرت کے لئے وقف کردیں۔

رسول اﷲ ﷺ نے سوچ سمجھ کر اپنے لئے زاہدانہ زندگی کا انتخاب کیا تھااور یہی آپ کی حقیقت شناس مبارک طبیعت کا بھی میلان تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے بیان فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھ دی کہ میرے لئے وہ مکہ کی وادی کو سونا بنا دیں اور سونے سے بھر دیں تو میں نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار؛ میں اپنے لئے یہ نہیں مانگتا بلکہ میں ( یہ پسند کرتا ہوں کہ) ایک دن پیٹ بھر کے کھاؤں اور ایک دن بھوکا رہوں۔جب مجھے بھوک لگے تو آپ کو یاد کروں ، آپ کے سامنے عاجزی اور گریہ و زاری کروں اور جب آپ کی طرف سے مجھے کھانا ملے تو میں آپ کی حمد اور آپ کا شکر ادا کروں۔(مسند احمد)

حضور ﷺ کی اس دعا کا ثمرہ تھا کہ آپ ﷺ کی زندگی کے اکثر صبح و شام فاقہ کی حالت میں گزرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے اہلِ بیت پر بھی یہ زاہدانہ رنگ اچھی طرح چڑھ چکا تھا۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کے گھر والوں نے جو کی روٹی سے بھی متواتر دودن پیٹ نہیں بھرا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دنیا سے اٹھا لئے گئے۔بعض روایات میں اس طرح سے بھی آتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے اہلِ خانہ پر دودو مہینے ایسے گذر جاتے تھے کہ کسی قسم کا اناج بلکہ پکنے والی چیز بھی گھر میں نہیں آتی تھی ، بس کھجور اور پانی پر دن کاٹے جاتے تھے یا کبھی پڑوس کے کسی گھر سے حضور ﷺ کے لئے دودھ آتا تو وہ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ استعمال کرلیتے تھے۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی ضروری ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ان پاک ارشادات اور آپ کے عمل سے بہت سے لوگ ناواقفی اور کم فہمی سے زہد کا مطلب یہ سمجھ لیتے ہیں آدمی دنیا کی ساری نعمتوں، لذتوں اور راحتوں کو اپنے اوپر حرام کرلے، نہ کبھی لذیذ کھانے کھائے، نہ ٹھنڈا پانی پیئے، نہ اچھا کپڑا پہنے، نہ کبھی نرم بستر پر سوئے اور اگر کہیں سے کچھ آجائے تو اس کو بھی اپنے پاس نہ رکھے ، خواہ جلدی سے کہیں پھینک دے۔بعض لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دنیا کو تو لات ماردینی چاہیے۔ اگر ایسے لوگوں کو دودن کھانے کے لئے روٹی نہ ملے تو دنیا کو لات مارنے کے لئے لات بھی نہ اٹھ پائے گی۔

معلوم ہوا کہ مال و دولت کانام دنیا نہیں بلکہ خدا سے غافل ہونے کا نام دنیا ہے۔ کپڑے، سونا ، چاندی، مال و دولت اور بیوی بچے دنیا نہیں ہیں۔ اگر یہ چیزیں کسی کو اﷲ سے غافل نہیں کرتی ہیں اور وہ اﷲ کی مرضی کے مطابق زندگی گذارتا ہے، اپنی دنیا کو اﷲ کی نافرمانی میں نہیں لگاتا ہے تو یہ شخص اﷲ والا ہے، ہرگز دنیا دار نہیں۔اور اگر کوئی شخص مفلس ہے ، تنگی ترشی اور فاقوں میں زندگی گذارتاہے لیکن اﷲ سے غافل ہے، نافرمانیوں میں مبتلا ہے تو یہ شخص پکا دنیا دار ہے۔ معلوم ہوا کہ عین امارت اور بادشاہی میں آدمی دیندار اور ولی اﷲ ہوسکتا ہے اور عین مفلسی اور فاقہ کشی میںآدمی اﷲ تعالیٰ سے دور پکا دنیا دار ہوسکتا ہے۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا کے بارے میں زہد اور بے رغبتی ، حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اور اپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ زہد کا اصل معیار اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمھارے پاس اور تمھارے ہاتھ میں ہو اس سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اﷲ کے پاس اور اس کے قبضے میں ہے اور یہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اور ناخوشگواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی چاہت اور رغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ تکلیف اور ناگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آئے۔ (جامع ترمذی)

درحقیقت قرآن و حدیث کو صحیح طریقے سے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد جو صورتحال واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ کے رسول ﷺ ہم سے یہ نہیں چاہتے کہ ہم دنیا کو بالکلیہ چھوڑ کربیٹھ جائیں۔ عیسائی عقیدہ کے مطابق انسان اس وقت تک اﷲ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ بیوی بچوں، گھر بار اور کاروبار کو چھوڑ کر گوشہ نشین نہ ہوجائے لیکن نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ تم دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلو، کمائی نہ کرو، تجارت نہ کرو ، مال حاصل نہ کرو، مکان نہ بناؤ، بیوی بچوں کے ساتھ نہ ہنسو بولو، کھانا پینا چھوڑ دو۔ اس قسم کا کوئی حکم شریعتِ محمدیہ میں موجود نہیں۔ہاں؛ یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا انسان کی آخری منزل نہیں ، یہ سمجھنا غلط ہے کہ ہماری جو کچھ کارروائی ہے وہ اس دنیا سے متعلق ہے، اس سے آگے ہمیں کچھ نہیں سوچنا اور کچھ نہیں کرنا ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ دنیا درحقیقت اس لئے ہے کہ تم اس میں رہ کر اپنی آنے والی ابدی زندگی یعنی آخرت کی زندگی کے لئے کچھ تیاری کرلو اور آخرت کو فراموش کئے بغیر اس دنیا کو اس طرح استعمال کرو کہ اس میں تمہاری دنیاوی ضروریات بھی پوری ہوں اور ساتھ ساتھ آخرت کی جو زندگی آنے والی ہے اس کی بھلائی بھی تمھارے پیشِ نظر ہو۔

چنانچہ جو شخص بھی مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق زاہدانہ زندگی اختیار کرتا ہے اس کے لئے حدیثِ پاک میں اس کے زہد کا نقد صلہ دنیا ہی میں ملنے کی بشارت مذکور ہے۔حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ بھی زہد اختیار کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت پیدا کرے گا، اس کی زبان پر حکمت کو جاری کرے گا اور دنیا کے عیوب، اس کی بیماریاں اور ان کا علاج اس کو آنکھوں سے دکھا دے گا اور اس کو سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچا دے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی)

Muhammad Faisal
About the Author: Muhammad Faisal Read More Articles by Muhammad Faisal: 27 Articles with 24386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.