ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس
کیلئے اس نے جدوجہد کی اور پھر اسکی جد و جہد کو دیکھا جائے گا اور پھر اسے
اسکا پورا پورا بدلہ جائے گا ‘‘ اس آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان جب تک
کسی چیز کو حاصل کرنے کیلئے سعی یعنی جدّوجہد نہیں کرے گا تو اسے کچھ بھی
حاصل نہ ہوگا چاہے یہ اسکی روزی کا مسئلہ ہو یا کوئی اور مقصد، اس کیلئے
کوشش کرنا شرط ہے۔یہ دنیاوی زندگی کی مثال ہے آخرت کی زندگی میں بھی اگر
کوئی یہ چاہتا ہے کہ میں وہاں بھی کامیاب و کامران ہو جاؤں یعنی دوزخ سے بچ
جاؤں اور جنّت میں داخل ہو جاؤں تو اس کیلئے بھی سعی کرنا ضروری ہے۔
انسانی زندگی جسم اور روح کا مرکّب ہے جسم تو ایک مختصر زندگی گزارنے کے
بعد ختم ہو جاتاہے مگر روح باقی رہتی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ مرنے
کے بعد عالم برزخ میں وہ ایک نئے وجود میں ڈھل جاتی ہے۔ روح کی زندگی اتنی
طویل ہے کہ اس مدّت کا تعیّن نہیں کیاجاسکتا۔
جب انسان فوت ہو جاتا ہے اور قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو قیامت تک وہ
قبر میں پڑا رہے گا، اب قیامت میں کتنا عرصہ باقی ہے یہ کوئی نہیں جانتا،
پھر جب قیامت کا آغاز ہو گا تو صو ر پھنکا جائے گا اور تمام مخلوقات ختم
ہوجائے گی اور پھر کتنا عرصہ اسی حالت میں پڑی رہے گی اس مدّت کا تعیّن بھی
مشکل ہے اور صور پھونکنا کئی بار ہے آکر کار تمام مخلوقات ختم ہو جائے گی
اور میدان حشر میں جمع ہو جائے گی اور حساب و کتاب شروع ہو جائے گا اور
جنتی جنت میں اور دوزخی میں چلے جائیں گے اور وہاں کتنا عرصہ رہیں گا اس کا
کوئی تعیّن نہیں کر سکتا ازروئے قرآن اسے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کہا گیا ہے۔
بہرحال یہ روح کی زندگی کا مختصر بیان ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح انسان کی جسمانی زندگی عارضی ہے اسی طرح اسکی
راحت و تکلیف بھی عارضی ہے، دیکھیں ایک مزدور یا ملازمت پیشہ یا ایک
دکاندار دن بھر محنت کرتا ہے اور تھکا ہارا شام کو گھر واپس آتا ہے مگرجب
رات کووہ آرام کرتا ہے تو صبح کو پھر سے تازہ دم ہو جاتا ہے اور اپنے کام
پر چلا جاتا ہے، اسی طرح خدا نخواستہ کوئی حادثہ وغیرہ پیش آ جائے اور کوئی
چوٹ لگ جائے تو علاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بیماری لگ جائے تو
دواسے ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر با لکل بھی ٹھیک نہ ہو تو پھر مو ت آکر ہر
قسم کی جسمانی بیماریوں اور پرشانیوں کا خاتم کر دیتی ہے۔
دیکھا جائے تو انسان کی عمر ہے ہی کتنی یہی کوئی پچاس ساٹھ یا زیادہ سے
زیادہ سو برس جو آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں کوئی حیثیّت ہی نہیں رکھتی،
ازروئے قرآن آخرت کی زندگی کا ایک دن دنیا کی زندگی کے ایک ہزار سال کے
برابر ہے اس حساب سے اگر کسی کی عمر سو سال بھی ہو تو آخرت کے مقابلہ میں
اسکی زندگی صرف ڈھائی منٹ کی بنتی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل اور دائمی زندگی روح کی زندگی ہے جو ہمیشہ
باقی رہنے والی ہے اور کبھی ختم نہ ہوگی چاہے وہ آرام و راحت کی زندگی ہو
یا خدا نخواستہ عذاب کی زندگی!
روح کی اس دونوں قسم کی زندگی کے بارہ میں قرآن پاک میں واضح رہنمائی ملتی
ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جس نے کیا نیک کام مرد ہو یاعورت اور وہ
ایمان پر ہے تو ہم دیں گے اسکو ایک اچھی زندگی اور بدلہ دیں گے اسکو حق
انکا بہتر کاموں پر جو وہ کرتے تھے‘‘(انّحل:97پ:14)۔
تفسیر میں لکھا ہے کہ جو کوئی مرد یا عورت نیک کاموں کی عادت رکھے یعنی
ایمان اور معرفت صحیحہ کی روح اپنے اندر رکھّے تو اللہ تبارک و تعا لیٰ
ضرور اسکو پاک و ستھری اور مزیدار زندگی عطا کریں گے، مثلاً دنیا میں حلال
روزی، قناعت اور غنائے قلبی ، سکون و طمانیّت، ذکر اللہ کی لذت، حب الٰہی
کامزہ، کامیاب مستقبل کا تصوّر اور تعلق مع اللہ کی مٹھاس جس کے بارہ میں
کسی بزرگ نے فرمایا کہ اگر بادشاہو ں کو یہ پتہ چل جائے کہ شب بیداروں کو
رات کے اٹھنے میں کیا لذّت و قلبی دولت حاصل ہوتی ہے تو اس کے چھیننے میں
وہ اسی طرح لشکر کشی کیا کریں جیسے وہ ملک گیری کیلئے کرتے ہیں(تفسیر
القرآن از مولانا شبّیر احمد عثمانیؒ )۔
یہ روح کی آرام و راحت والی دائمی زندگی کی مثال ہے، اس کے عکس روح کی
تکلیف و عذاب والی زندگی کے بارہ میں یوں بیان کیا گیا ہے ارشاد باری
تعالیٰ ہے’’ اور جس کو ملا اسکا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں تو وہ کہے
گا کہ کاش مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اور میں جانتا ہی نہ کہ میرا حساب
کیا ہے کاش کہ موت میرا کام تمام کر دیتی میرے مال نے بھی مجھے کچھ نفع نہ
دیا اور میر غلبہ بھی مجھ سے جاتارہا (حکم ہوگا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق
پہنا دو پھر اسے دوزخ میں ڈال دو پھر اسے ایسی زنجیر میں کہ جسکی پیمائش
ستّر ہاتھ کی ہے جکڑدو بیشک یہ اللہ عظمت والے پر ایمان نہ لاتا تھا اور
مسکین کے کھانے پر رغبت نہ دلاتا تھا پس آج اسکا نہ کوئی دوست ہے اور نہ
سوائے پیپ کے اسکی کوئی غذا ہے جسے گناہگاروں کے سوا کوئی نہ کھائے
گا‘‘(الحاقہ:۳۶)۔
سورۃ الرّحمٰن میں بیان کیا گیا ہے کہ’’ مجرم صر ف حلیے سے ہی پہچان لئے
جائیں گے انکی پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لئے جائیں گے پس تم اپنے رب کی
کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے یہ ہے وہ جہنّم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے وہ
اسکے اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگائیں گے‘‘(الرّحمن:۴۴)۔
یہ روح کی عذاب والی زندگی کی مثال ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی، بہرحال ضرورت
اس چیز کی ہے کہ انسان اپنی اس زندگی کے نفع و نقصان کے بارہ میں غور و فکر
کرے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرے جس نے ہمیشہ باقی رہنا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اچھے اعمال کرنے کی توفیق
عطافرمائے آمین! |