قران فہمی ،عقل اور سائینس
(Tariq Zafar Khan, Karachi)
از طارق ظفر قران فہمی ،عقل اور سائینس فی ظلال قران کی روشنی میں
سائنس کی نئی دریافتوں اور نظریات کو بہت مسحور کن اور دلکش انداز میں لیا جاتا ہے۔ ہر دور میں ان نظریات کو جذ باتی انداز میں حتمی مان کر ایک طوفان بد تمیزی برپا ہو جاتا ہے۔ ہر کس و ناکس، چاہے اس کا دور دورتک بھی سائنس کی فہم سے کوئی بھی واسطہ نہ ہو ، اپنی اپنی راگنی الاپنے لگتا ہے۔ خاص طور پر وہ طبقہ جس کا تعلق کسی طرح بھی مذہب ، غیر مذہب یا الحاد سے ہوتا ہے ، اس میں پیش پیش ہوتا ہے۔ جب سائنس اور جدید اکتشافات کا فتنہ اپنے عروج پر ہواور لوگ دین کی اساسیات میں بھی شک کرنے لگیں تو فتنہ ءتشکیک اپنے عروج پر ہوتا ہے، جیسا کہ آج کل کے دور میں ہے۔ ایسے میں سائنس کے دباوء میں آئے ہوئےکچھ مذہبی علماء کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قران میں بیان کیے ہوئےمعجزات اور واقعات کو ان قوانین قدرت کے مطابق بتایاجائے جو اس کائنات میں جاری ہیں۔ ان علماء نے سائنس کی کم فہمی کے باعث یہ تسلیم کرلیا کہ وہ قوانین قدرت جن کو انسانوں نے سمجھ لیا وہ کلی ہیں اور ان کے اندر استثناء ممکن نہیں ہے، لہذہ جس قدر معجزات وخلاف عادت واقعات قرآن میں مذکور ہیں ان کی ایسی تاویلات اور تعبیرات کی جاتی ہیں کہ وہ سائنس اور عقل انسانی کے مطابق ہوجائیں اور ایسے واقعات ہوجائیں جو معمول کے مطابق ہوتے ہیں اور بعض معجزات کی ایسی تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ معقول بن جائیں ۔ وہ یہ بھول گئے کہ قوانین قدرت ان قوانین قدرت تک محدود نہیں ہیں جن کا تمہاری عقل نے ادراک کرلیا ہے۔ جن قوانین قدرت کو انسان نے سمجھا ہے وہ قوانین قدرت کا نہایت ہی معمولی حصہ ہیں ۔ یہ عقل اگرچہ ایک مطلق قوت ہے اور یہ انفرادی واقعات وتجربات کے اندر محدود نہیں ہے۔ بلکہ عقل ان انفرادی واقعات سے ماوراء ایک مجرد حقیقت ہے لیکن یہ مجرد عقل بھی بہرحال ہمارے محدود وجود کے اندر کی حقیقت ہے اور ہمارا وجود محدود اور مقید ہے۔ اصل وجود باری تعالیٰ کا ہے جو غیر محدود اور لاانتہا ہے۔ اور یہ قرآن اس اصل وجود کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ لہٰذا اصل حاکم وجود مطلق اور اس کا قرآن ہے۔ اور قرآن جو فیصلے کردے ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے اور اپنے عقلی فیصلے قرآن سے اخذ کریں۔ اللہ کی قدرت بےقید ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ کی قدرت ان قوانین پر بھی حاوی ہے جو خود اللہ نے اس کائنات میں جاری کیے۔ اور یہ کہ عقل کوئی آخری حاکم اور سپریم جج نہیں ہے اور عقل کی معقولات ہی آخری معیار نہیں ہیں۔ کیونکہ سائنس کی تاریخ گواہ ہے کہ عقل ،علمی ارتقاء اور نئی دریافتوں کے ساتھ ساتھ ، اپنے نظریات بدلتی رہتی ہے ، اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں کسی آیت پر اس طرح غور نہیں کرنا چاہئے کہ ہم پہلے اپنے ذہنوں میں کچھ اصول طے کرلیں ، کچھ عوامی سوچوں کو قبول کرلیں اور ان موضوعات پر اپنے طور پر فیصلے کرلیں اور پھر آیات میں تاویل کریں بلکہ ہماری روش یہ ہونی چاہئے کہ ہم خالی الذین ہوکر قرآنی آیات سے نتائج اخذ کریں۔ ان آیات سے ایمان اور عقیدہ اخذ کریں اور ان آیات سے اپنی فکر اور اپنی سوچ اور اپنا ادراک اخذ کریں۔ اگر ان آیات میں کوئی بات طے شدہ ہو تو اسے طے شدہ سمجھیں ۔ یہ اس لئے کہ جس چیز کو ہم عقل انسانی سمجھتے ہیں اور قرآنی اور تاریخی اور کائناتی واقعات کو اس کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں یہ تو انسان کے محدود تجربات کا نتیجہ ہے اور نہایت غیر یقینی چیز ہے۔
|
|