عورت کی آزادی کے حوالے سے مروجہ سوچ کو کیا کہوں۔
عورت کی آزادی کو کیا معنی پہنائے جائیں۔ عورت ماں ہے ، بہن ہے،بیٹی ہے
بیوی ہے۔زمانہ جہا لیت میں عورت کو خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث تصور کیا
جاتا تھا اور عورت کو خاندان کی بدنامی کا عنصر سمجھا جاتا تھا۔عرب جو کہ
زبان پہ بہت قادر تھے اور شاعری اُن کے گھر کی باندھی تھی وہ جس شخص کی
کوئی بیٹی ہوتی تو وہ اُس کے ایک ایک اعضا کی نشاندہی کرتے اور لڑکی کا نام
لے لے کر شاعری کرتے یوں بیٹیوں کے باپ یہ بے عزتی برداشت نہ کر پاتے وہ
بچی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے ۔ رب پاک نے عورت کو ترکہ میں سے
حصے دار بنایا اور اﷲ پاک نے کھول کھول کر قران مجید میں وراثت کی تقسیم کو
تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمایا۔ عورت کو مرد کے لیے باندھی نہیں بلکہ اگر وہ
ماں ہے تو اُس کے قدموں تلے جنت کو قرار دیا۔ اگر وہ بیٹی ہے تو اچھی پرورش
کرنے پر والدین کو جنت کی بشارت دی اور اگر وہ بہن ہے تو اُسکو عزت واحترام
دیا اگر بیوی ہے تو اُس کو ہر قسم کی مالی مشکلات سے آزاد کروا کر مرد کی
یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ گھر کا معاشی نظم و نسق خود چلائے اور عورت گھریلو
امور کو انجام دئے بچوں کی پرورش کرئے اور معاشرئے کو بہترین نسل تیار کرکے
دے۔ اسلام سے پہلے عورت کو انتہائی گھٹیا مخلوق کا درجہ دیا گیا۔ ہندو مذہب
میں تو مرد کے مرتے ہی عورت کو بھی اُسکے خاوند کے ساتھ زندہ ہی جلا دیا
جاتا جسے ستی کی رسم کہا جاتا ہے۔ عورت کو معاشرئے میں غلام سے بھی بدتر
حثیت حاصل تھی۔ گویا کہ عورت ہونا جرم بن جاتا۔ اﷲ پاک کے نبی پاکﷺ نے عورت
کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔عورت کی آزادی کے حوالے سے مختلف آراء پائی
جاتی ہیں لیکن راقم کے نزدیک صرف ایک بات ہی فی زمانہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔
عورت موجودہ حالات میں کمانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے تو اُسے کن کن مشکلات
سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ حالات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہیں اسلام نے
تو سینکڑوں سال قبل ہی معاشی ذمہ داری مرد پر ڈال دی تاکہ عورت عزت و
احترام کے ساتھ گھر کا نظم و نسق سنبھالے اورخوش وخرم پاکیزہ زندگی بسر
کرئے اور معاشی پریشانیوں سے آزاد ہوجائے۔ذرا تصور فرمائیں عورت جب معاشی
سرگرمیوں کے لیے ملازمت بھی کرتی ہے پھر اُس کو گھر کے معاملات بھی دیکھنا
پڑتے ہیں تو اُس کو دوہری مشقت کرنا پڑتی ہے۔ راقم یہاں عورتوں کی ملازمت
کے خلاف بات نہیں کر رہا ۔عورت کو کام ضرور کرنا چاہیے تاکہ معاشرئے کے
نظام میں روانی رہے لیکن عورت سے کام اتنا ہی لینا چاہیے جتنا یہ صنف نازک
کر سکتی ہے۔ اُسے اذیت سے دوچار نہیں کر دینا چاہیے۔کہ وہ گھر اور دفتر کے
درمیان فٹ بال بن جائے۔ اِس طرح کا توازن رکھ کر اگر عورت کو کوئی ایسا کام
کرنے کو مل جاتا ہے تو اسے ضرور کرنا چاہیے ۔عورت کو ہراساں کیا جانا معمول
بن چکا ہے۔ گو خاتون محتسب کے ادارئے کا قیام صوبہ پنجاب کی حد تک عمل میں
آچکا ہے لیکن خود ہی غور فرمائیں کتنے فی صد خواتین جا کر اِس محتسب کے
دفتر میں یہ درخواست دیتی ہیں کہ مجھے ڈیوٹی کی جگہ فلاں شخص نے ہراساں
کیا۔عورت کی عزت و احترام کے لیے معاشرے میں روحانی انقلاب کی پھر سے ضرورت
ہے وہ انقلاب جو نبی پاکﷺ کا عطا کردہ ہے ہے تاکہ زمانے کی آنکھوں میں حیا
ہو۔قوانین تو بے شمار ہیں اور مروجہ نظام میں قوانین پر عمل درآمد کی کوئی
صورت نظر نہیں آتی۔خواتین کی آزادی کے حوالے سے دنیا بھر میں بے شمار
تحریکیں چل رہی ہیں اور بہت سی تنظیمیں بھی میدان عمل میں ہیں۔ عورت کو
مارکیٹینگ کے لیے بطور ماڈل نیم برہنہ پیش کرنا کونسی آزادی ہے اور اِس سے
معاشرئے کی کس طرح خدمت بجا لائی جارہی ہے۔ عورت کو باپردہ ہونے کا حکم اُس
کے لیے قید نہیں بلکہ اُس کی عزت و ناموس کی حفاظت اور احترام کے لیے بہت
بڑی سہولت اور عزت و تکریم کا مقام ہے۔ دنیا کے کسی معاشرے میں فحاشی کے حق
میں وکالت نہیں کی جاسکتی ، ہر مذہب عورت کی عزت و ناموس کو اعلیٰ و ارفعٰ
مقام دیتا ہے ۔اِس لیے جو خواتین خواہ وہ ملازمت پیشہ ہیں یا گھر کے انتظام
وانصرام میں مصروف رہتی ہیں پردئے میں رہنے سے اُن کے احترام میں بے حد
قدرومنزلت پائی جاتی ہے۔دین نے جو حدود قیود معاشرئے کے ہر فرد کے لیے مقرر
کی ہیں اُن کے پیچھے نفسیاتی طور پر جو پہلو کا ر فرما ہے وہ یہ ہے کہ کسی
طور بھی کوئی بھی فرد فطرتی روش سے ہٹنے نہ پائے۔اﷲ پاک ہر انسان کا خالق و
مالک ہے اور اپنے بندئے سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اُتنی محبت ستر مائیں مل
کر بھی نہیں کر سکتی وہ خدا اپنی مخلوق کی بے عزتی بے حرمتی کیسے برداشت کر
سکتا ہے۔اِس لیے فطرتی تقاضے اُسی صورت پورئے ہو سکتے ہیں جب معاشرئے کا
ایک ایک فرد ایک دوسرئے کی عزت و ناموس کو مقدم رکھے۔ نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے
کہ اﷲ کے بندئے کے دل کو دُکھانا کعبہ کو ڈھانے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔عورت
کی آزادی کی رٹ لگانے والے عورت کو جسم فروشی کی طرف لگا تے اور مالی مفاد
حاصل کرتے ہیں کیا یہ آزادی ہے۔ عورت کو اپنے مالی فائدئے کے لیے بطور شو
پیس، پیش کرنا کیا یہ آزادی ہے۔پاکستانی معاشرئے میں خواتین کو بہت زیادہ
مسائل کا سامنا ہے پرائمری تعلیم سے لے کر ثانوی و اعلیٰ تعلیم تک کے مواقع
بہت کم ہیں۔ ملازمتوں کی کمی ،ٹرانسپورٹ کے مسائل،معاشرتی اونچ نیچ امارت
اور غربت کے درمیان خلیج کا حائل ہونا، جہیز کی لعنت وٖغیرہ۔عورت کو بطور
پروڈکٹ سمجھنے کے عمل کی نفی کرنے کی از حد ضرورت ہے۔ |