اسلام میں حقوق نسواں کی تاریخ درخشان روایات کی امین ہے
۔روز اول ہی سے اسلام نے عورت کی مذہبی،سماجی،معاشرتی ،قانونی،آئینی،سیاسی،اور
انتظامی کردار کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی
فراہم کی۔اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی ،ذلت اور ظلم و استحصال کے
بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی،اسلام نے ان تمام قبیح رسومات کا قلع قمع کر
دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطاءکیے جس
سے وہ معاشرے میں اس عزت ،تکریم ،وقار اور بنیادی حقوق کی مستحق قرار پائی
جس کے مستحق مرد ہیں اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی عزت ،تکریم ،وقار اور
بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں پرہر
فرد معاشرے کا ایک فعل حصہ ہوتا ہے ۔اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق
چودہ سو سال قبل اس وقت دیے تھے جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی
بھی معاشرے میں پیدا نہیں ہوا تھا ۔عورت کو مرد کی مساوات کا نظریہ دنیامیں
سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا اور اس غلامی سے نجات دلائی جس میں و صدیوں سے
جکڑی ہوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں
فرمایا گیا کہ”تم (مرد)ان کے (عورت ) کے لیے لباس ہو اور وہ تمہارے لیے
لباس ہیں“۔جومرد کے حقوق ہیں وہ ہی عورت کے ہیں اور کسی کو کسی پر کسی بھی
طرح کا کوئی امتیاز نہیں ہے اگر مرد و زن کو کسی بھی طرح ایک دوسرے پر
برتری حاصل ہے تو وہ صرف تقوی کی بنیاد پر ہے ۔اسلام انسانیت کے لیے
تکریم،وقاراور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا اسلام سے قبل معاشرے کا ہر
کمزور طبقہ طاقت ور کے زیر نگیں تھا ،تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے
زیادہ نا گفتہ بہ تھی، اسلام سے قبل عورت کا معاشرتی مقام یہ تھا کہ
نومولود بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا بدکاری کا اعلانیہ رواج تھا ،حق
ملکیت سے محروم رکھا جاتا تھا عورت کے ساتھ غلاموں سے بھی بد تر سلوک کرنا
اہل عرب کا شیوہ تھا تاریخ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی
ہیں۔مختصر یہ کہ خواتین کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اور معاشرے میں
خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا کو سنہری اصول
دیے ہیں اگر اسلام کی تعلیمات پر اس کی حقیقی روح کے ساتھ عمل کیا جائے تو
خواتین کی معاشی بہبود کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل جیسے گھریلو تشدد ،وراثت
سے محرومی اور دوسری معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے صنفی تفریق کے
خاتمے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل ضروری ہے خواتین کی معاشی خود مختاری
کے بغیر ترقی ناممکن ہے حکومت کو خواتین کی معاشی خود مختاری کے لیے مختلف
عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے صنعتی تربیت کے ذریعے خواتین کو معاشی طور
پر مضبوط کیا جانا چاہیے خواتین کو ترقی میں شامل کیے بغیر خوشحالی کے خواب
کو حقیت کا روپ نہیں دیا جا سکتا۔ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین آبادی کا
نصف سے زائد حصہ ہیں آ ج بھی خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسلامی
اور جمہوری ملک میں خواتین کو ہونے چاہئیں اسلام عورت کو ماں بہن بیٹی کی
حیثیت سے انتہائی اہمیت دیتا ہے اور خواتین کو تعلیم سمیت دیگر شعبہ جات کے
اندر کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔خواتین کا عالمی دن پورے پاکستان میں
بھر پور طریقے سے منایا جا رہا ہے ،سیمنار ،واکس ،ورکشاپس کا انعقاد ہو رہا
ہے ،یو این سمیت پاکستانی سماجی تنظیموں نے خواتین کو ان کے حقوق کے بارے
میں آگاہی کے لیے جو کردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے اور خواتین میں
اب شعور اجاگر ہو ریا ہے ،یو این وومن کا اس سال کا سلوگن
“Time is Now: Rural and urban activists transforming women’s lives”
.ہے کہ شہری اور دہی علاقوں میں بسنے والی خواتین کی زندگیوں میں اب تبدیلی
کا وقت ہے ،دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں جہاں خواتین نصف آبادی پر مشتمل
ہیں ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کسی بھی سطح پر کردار ادا نہیں
کیا گیا ،دہی علاقوں میں میں توخواتین کے ساتھ آج بھی وہ سلوک کیا جا رہا
ہے جو زمانہ جہالت میں ہوتا تھا ،خواتین کو دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے
ایک تو وہ بنیادی حقوق سے محروم ہیں انہیں وہ حقوق نہیں دیے گے جو آئین و
قانون میں ہیں ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ نہ ہونے کے برابر ،کاروبار کے
لیے خواتین کو سازگار اور پر امن ماحول فراہم نہیں کیا جا سکا ،دوسرا مسئلہ
یہ ہے ہمارے ملک میں کہ خواتین اگر کسی بھی طرح سے ملازمت یا کاروبار شروع
کردیں تو ان مقامات پر خواتین کو ہراسا ں کیا جا تا ہے ان کے لیے محفوظ
ماحول نہیں ہے جس میں انہیں کام یا ملازمت کرنے کا موقع میسر آئے ،خواتین
کو ملازمت یا کاروبار کے مقامات پر ہراساں کیے جانے کے خلاف متعدد قوانین
بھی موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد ہونا ایک خواب ہے جو نجانے کب حقیقت کا
روپ دھارے گا۔خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانے اور روزگار میں برابر
شراکت داری کے مواقع مہیا کرنے کے لیے پاکستان میں اقوام متحدہ کے اداروں
کی خدمات ناقابل فراموش ہے،یواین وومن،یو این ڈی پی،ڈبلیو ایف پی،UN-Habitat
یو این ایف پی اے،یونیسف،یونیسکو سمیت تمام اداروں نے جو خواتین کے بنیادی
حقوق کے لیے خدمات سرانجام دیں ہی اسے پاکستانی عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتی
ہیں ،United Nations Educational, Scientific and Cultural Organisation (UNESCO)نے
پاکستان کے پاسماندہ اور ریمورٹ علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے لیے جومنصوبہ
گرلز رائٹ ٹو ایجوکیشن کا شروع کر رکھا ہے اس نے آزاد کشمیر ،کے پی کےاور
دوسرے پاسماندہ علاقوں کی بچیوں کی زندگی میں تعلیمی انقلاب بر پا کر دیا
ہے ہزاروں بچیاں اب سکولوں میں جا رہی ہیں اور تعلیم حاصل کر رہی ہیں امید
ہے کہ یونیسکو اس پروگرام کو مزید وسعت دیتے ہوئے پاکستان کے تمام صوبوں
میں غریب بچیوں کی تعلیم کے لیے پروگرام ڈیزائن کرے گا ۔آخرمیں سمجھتا ہوں
کہ خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے کہ ہمارے کیا حقوق
ہیں اور اسلامی اقدار اور اپنی روایات کے اندر رہتے ہوئے خواتین کے حقوق کے
لیے آواز بلند کرنی چاہیے،سماجی اداروں سمیت وہ لوگ جو خواتین کے حقوق کے
لیے رات دن کام کرتے ہیں ،لمبی لمبی تقاریر کرتے ہیں انہیں بھی سوچنا چاہیے
کہ وہ خود کتنے خواتین کے حقوق ادا کر رہے ہیں- |