کوئی چھ ہفتے قبل جب انہی سطور میں ناچیز
کی جانب سے پیر صاحب پگارا اور چودھری برادران کے گٹھ جوڑ اور متحدہ مسلم
لیگ کے قیام کے باوجود حکومت کو کچھ نہیں ہوگا کے موقف کا اظہار کیا تو یار
لوگوں کا خیال تھا کہ یہ محض خوش فہمی ہے کیونکہ کنگری ہاﺅس اس وقت تک حرکت
میں نہیں آتا جب تک تبدیلی لانے والی قوتیں مکمل آشیر باد کی یقین دہانی نہ
کروا دیں جبکہ لیگی دھڑوں کا اتحاد اسی آشیر باد کا ثبوت ہے۔ سابق وزیرا
عظم میر ظفر اللہ خان جمالی کی میاں نواز شریف سمیت دیگر لیگی رہنماﺅں سے
ملاقاتوں اور پھر خود مسلم لیگ ن کی جانب سے بعض ق لیگیوں سے صلح کے اشاروں
کے بعد تو گویا یقین کی حد تک باور کروایا جانے لگا کہ نیا سیاسی دھڑا
پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کے لئے لا متناہی سیاسی مصائب کا سبب بن کر
ایوان اقتدار پر براجمان لوگوں کو بوریا بستر گول کرنے پر مجبور کر دے گا۔
بظاہر دکھائی دینے والے عوامل سے یہ بات بھی یقینی ہو چکی تھی کہ پیر صاحب
پگارا اور چودھری شجاعت کی صلح کے بعد جلد ن لیگ بھی اپنی شرائط منوانے میں
کامیاب ہو جائے گی اور یوں لیگی دھڑوں کے اتحاد کی بیل گویا منڈھے چڑھ جائے
گی لیکن اندر کی خبریں رکھنے والے اس اتحاد سے قطعی اتفاق نہیں کر رہے تھے
۔ اس وقت راقم کی طرح اگرچہ ان کو بھی بہت سے حلقوں کی جانب سے تنقید کا
سامنا کرنا پڑا لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ انتہائی ذمہ دار
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ق نے متحدہ مسلم لیگ کا حصہ بننے سے نہ صرف انکار
کر دیا ہے بلکہ پیر صاحب پگارا کو ایک شرائط نامہ بھی بھجوایا گیا ہے جبکہ
مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی ٹھوس الفاظ میں ”ناں“ کر دی گئی ہے۔ ذرائع نے یہ
تو نہیں بتایا کہ دونوں ہی دھڑوں کے انکار کے اسباب کیا ہیں البتہ دونوں ہی
کی جانب سے پیر پگاڑا کو جو خطوط تحریر کئے گئے ہیں ان کے مطابق نہ صرف کھل
کھلا کر لیگی اتحاد کے لئے پر تولنے والے چودھری برادران کا اپنے اس فیصلے
پر پچھتاوا ظاہر ہو رہا ہے بلکہ متحدہ مسلم لیگ کا صدر بننے کے خواب دیکھنے
والے میاں نواز شریف بھی یو ٹرن لے چکے ہیں۔
دونوں ہی لیگیوں کے متوقع لیگ کو لکھے گئے محبت ناموں میں جو شرائط رکھی
گئی ہیں وہ اتنی کڑی ہیں کہ اتحاد کا خواب پورا ہونے کے بجائے کرچی کرچی
ہوتے دکھائی دے رہا ہے کیونکہ شرائط ایسی ہیں کہ پگاڑا لاکھ کوششوں کے
باوجود بھی ان پر پورا نہیں اتر سکتے ۔ لیگ نے متحدہ مسلم لیگ میں شمولیت
کے لئے سب سے پہلے تو ہم خیالوں کو بھی ق لیگ ہی کا حصہ تصور کرنے کا
مطالبہ کیا ہے ۔ بالفرض اگر پگاڑا یا ان کے رفقاءاس پر راضی ہو بھی جائیں
تو ہم خیالوں کے رد عمل کو کون روکے گا کہ وہ تو چودھری برادرا ن ہی کی وجہ
سے اپنا نیا گروپ بنانے پر مجبور ہوئے تھے۔ایک ساعت کیلئے یہ بھی مان لیا
جائے کہ جمالی صاحب یا پیر پگاڑا انہیں کسی نہ کسی طرح رام کر لیں گے تو
بھی بات وہیں کی وہیں رہے گی کہ وہ پھر سے چودھریوں کے زیر سایہ آنے پر تو
کبھی بھی راضی نہیں ہونگے جبکہ اہلیان گجرات کی جانب سے اعجاز الحق جو کہ
لیگی اتحاد کے خیال کے موجود گردانے جاتے ہیں کو بھی ق لیگی قرار دینے یا
تصور کرنے کی شرط کسی بھی صورت پوری ہونا ممکن نہیں جس کا سیدھا اور صاف
مطلب یہی ہے کہ ق لیگ جو آج سے ڈیڑھ دو ماہ قبل تک لیگی اتحاد کیلئے
انتہائی مچل رہے تھے بڑی حد تک ہاتھ کھینچ چکے ہیں۔ اسباب کیا ہیں؟ اس بارے
تو ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کے نئے پینترے نے
اتحاد کو بڑی حد تک ناممکن بنا دیا ہے۔
بات صرف ق لیگ یا چودھری برادران کی شرائط تک محدود رہتی تو یہ امید کی
جاسکتی تھی کہ کنگری ہاﺅس ان سے مایوس ہونے کے بعد رائے ونڈ سے رابط کرے گا
اور ق لیگ کا پتا صاف ہونے کے بعد ن لیگ خوشی خوشی پگاڑا کی چھتری تلے
آجائے گی لیکن ق کے ساتھ ساتھ ن لیگی قیادت نے اس سے بھی کڑی شرائط سامنے
لا کر صورتحال بڑی حد تک واضح کر دی ہے۔ ن لیگ کے خط میں جہاں مجوزہ متحدہ
مسلم لیگ میں صدارت سمیت بہت سے عہدے مانگے گئے ہیں وہیں مختلف ادوار خصوصاً
مشرف دور میں آمریت کا ساتھ دینے والوں کو اتحاد سے نکالنے کا مطالبہ بھی
سر فہرست ہے۔ ایک حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ن لیگ کی مراد چودھری
برادران سے ہے لیکن کیا کیجئے کہ چودھری شجاعت کی طرح مجوزہ اتحاد کے روح
رواں میر ظفر اللہ خان جمالی بھی اسی دور میں وزارت عظمیٰ پر فائز رہے۔ یہ
الگ بات ہے کہ اب ان کے مشرف کیخلاف خیالات مکمل مختلف ہیں لیکن سابق آرمی
چیف کا ساتھ انہوں نے بہر حال دیا اور ان کا یہی ”جرم‘ ‘ ن لیگ کے نزدیک
یقینی طور پر ناقابل معافی ہے۔ممکن ہے پگاڑا صاحب کی بزرگی کا لحاظ کرتے
ہوئے اسی یا اس سے قبل کے ادوار میں آمریت کے زیر سایہ سیاست چمکانے والے
سائیڈ لائن ہو جائیں لیکن پگاڑا صاحب کیلئے میر ظفر اللہ جمالی کو نکالنا
کسی بھی صورت ممکن نہیں یوں بات جہاں ہے وہیں کی وہیں رہتی دکھائی دے رہی
ہے یعنی لیگی دھڑوں کے اتحاد کا شیرازہ متحدہ ہونے سے قبل ہی بکھرنا یقینی
ہو چکا ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن اور ق کی نئی شرائط کے بعد کنگری ہاﺅس نے
چودھری یا میاں برادران کی منتیں کرنے کے بجائے دوسری سیاسی جماعتوں کو
ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے اور اب ایک اور نئے سیاسی اتحاد کیلئے جماعت
اسلامی اور تحریک انصاف تک سے رابطے کئے جارہے ہیں ۔اگرچہ ان اطلاعات کے
مصدقہ شواہد سامنے نہیں آئے لیکن اگر ایسا ہے تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی
کہ اس صورت میں متحدہ مسلم لیگ کے پھلنے پھولنے سے قبل ہی ”مرجھانے“ کے
سلسلہ میں کسی دلیل یا پھر ثبوت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ رہ گئی
پیپلز پارٹی یا حکومت تو وہ اسے نہ اس ممکنہ اتحاد سے پہلے کوئی خطرہ تھا
نہ اب کوئی پریشانی کہ وہ اپنی ڈگر پر قائم اپنے ”سرپرستوں“ کی پالیسیوں پر
عمل پیرا ہے اور جب تک یہ”سعادت مندی“ جاری رہے گی”فیض“ بھی ملتا رہے گا
البتہ وہ ضرور دھچکا کھائیں گے جو لیگی دھڑوں کے تمام قائدین کے مزاج کو
سمجھے بغیر ”انقلابی“ پیش گوئیاں کرتے نہیں تھک رہے تھے۔اپنے ان مبصر
ساتھیوں کا ”دل ٹوٹنے“ کا افسوس بھی ہے اور ملال بھی لیکن تسلی دینے کیلئے
”حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھاگئے“ کے مصرعے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ |