خیبر پختونخواہ پبلک سروس کمیشن، بے صابطگیاں یا بدعنوانیاں

جنوری 2018 کو خیبر پختونخواہ پبلک سروس کمیشن نے (ٹی ایم او) تحصیل میونسپل آفیسر31
کی خالی اسامیوں کیلیے مقابلے کا امتحان منعقد کیا۔ میں نے بحیسیت امیدواراس امتحان میں شرکت کی۔ حسب معمول مقررہ وقت پر پہنچنے کے بعد اپنا موبایل کاونٹر پر جمع کرکے حال میں روانہ ھوا۔ امتحان حال میں بیٹھنے کے بعد انوجلیٹر نے ھدایات دینا شروع کیے۔ ان ہدایا ت کے دوران یہ سن کر کافی حیرت ھویی جب موصوف فرما رھے تھے کہ اگر کسی کے پاس موبا ئل ھے تو سا ئلنٹ رکھیں یہ سن کر شک سا ہونے لگا کیونکہ عمومی طورپرایسے امتحانات میں موبا یل فون حال کے اندر لے جانا سختی سے منع ھوتا ھےاور تلاشی لی جاتی ھے۔ اور موبائل برامد ھونے پرکبھی کبھار پرچہ منسوخ بھی کر دیا جاتا ھے۔ اور ایسی ھی ھدایات رولنمبر سلپ پر بھی درج ھوتی ھے۔ ۔خیر آگے کا حال بیان کرتے ہیں۔ ٹیسٹ شروع ھوا تو تھوڑی ہی دیر میں امیدواران نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دی۔ موبائل کا آزادانہ استعمال ھونے لگا۔ انوجلیٹر صاحب نے بھی چھپ سادھ لی اور کوئی مداخلت کرنا گوارا نہ کیا اور یوں کچہ خاص امیدواران نے پرچہ مشترکہ طور پر حل کیا۔ امتحان بھی معیار کے خلاف پایا گیا ٹسٹ کیلیے کم از کم 13 موضوعات دیے گئے تھے جن میں سے صرف ایک ہی موضوع سے سوالات آئے تھےخیر اس بحث میں نہیں پڑتے کیونکہ یہ پرچہ بنانے والے کا اختیار ہوتا ہے۔لیکن پرچہ بنانے والا یا تو معیارسے ناواقف تھا یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا تھا تاکہ اپنے من پسند لوگوں کو سادہ طور پر یہ ٹرک بتا سکے کہ فقط ایک ہی موضوع سے تیاری کرنی ہے۔ خیر یہ تو ٹیسٹ کی حد تک تھا آگے کے واقعات اس سے بھی بد تر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ٹیسٹ کے مکمل سنیپ شاٹس دستیاب تھی۔ امتحان ایک ہی دن دو سیشن پر مشتمل تھا ۔ صبح کا سیشن اور دوپہر کا سیشن، عام طور پرایسی صورتحال میں دونوں سیشن والے ٹسٹ یکسر مختلف ہوتے ہیں لیکن یہاں پر اس اصول کی بھی دھجیاں اڑائی گئی۔ دوپہر سیشن میں 70%فیصد سوالات دہرائےگئےتھے۔اور یوں دوپہر سیشن والوں کیلیے ٹسٹ آوٹ ہوگیا تھا۔ مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ اس دفعہ کمیشن نے بے ضابطگیوں کی حد ہی کر دی تھی۔
سا ت سو 700 امیدواران کے لگ بھگ تعداد کیلیے کمیشن سٹاف کا ایک ہی نمایندہ مقرر تھا جن کی تعداد کم از کم دس کمروں پر مشتمل تھی اس سے پہلے یہ تعداد زیادہ سے زیادہ تین سو300ا میدواران کی رہی ہے۔
اس سے پہلے ایک ہفتے کیلیے کل امتحانات ملا کرامیدواران کی مجموعی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہیں رہی ہے لیکن اس دفعہ یہ تعداد اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مخصوص امیدواران کو کامیاب کروانے کیلیے یہ غیر معمولی اقدامات اٹھائے کیے تھے۔

امتحان کا نتیجہ آیا جو کہ کمیشن کے ویب سائٹ پر اپلوڈ ہوا۔ عام طور پر نتیجہ بذریعہ شناختی کارڈ اور رولنمبر معلوم کیا جا تا ہے۔ مگر اس دفعہ رولنمبر کا ا پشن ہی غا ئب تھا۔ تا کہ مخصوص امیدواران کا نتیجہ کویی معلوم نہ کر پائے یاد رھے کہ یہ عمل خیبر پختونخواہ معلومات تک رسائی قا نون کے بالکل ہی منا فی ہے۔

ان تمام بے ضابطگیوں کے خلاف سوشل مییڈ یا پہ بھی کچھ چرچہ ھوا۔ امیدواران کی طرف سے پشاورپریس کلب کے سامنے مظا ہرہ بھی ہوا اور پریس کانفرنس بھی کیا گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یہ امتحان منسوخ کرکے دوبارہ منعقد کیا جائے جو کہ جائز مطالبہ تھا۔ اور کمیشن کے پاس بھی ایک موقعہ تھا کہ وہ ان جائز مطالبات کو تسلیم کرتا اور اپنے اوپرلگے دااغ مٹا دیتا۔ لیکن یہاں بھی کو ئی شنوائی نہ ہو سکی بعض ٹی وی چینلز نے اس احتجاج کو کوریج بھی دے دی۔ ایسے مین کمیشن نے بس یہی قدم اٹھایا کہ صرف ایک ہال کے نتائج منسوخ ھوئے باقی کا معاملہ جوں کا توں رہا۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ ٹسٹ کا رزلٹ بھی آگیا۔ ذمہ داران کی نشاند ہی ہوسکی نہ ان کو انصاف کے کٹھرے میں لایا جاسکا۔

خیبر پختونخواہ پبلک سروس کمیشن آئین کے آرڑیکل 242 اور پبلک سروس کمیشن آرڈیننس 1978 کے تحت کام کر رہا ہے۔

اس کا بنیادی کام میرٹ وشفافیت کو یقیینی بنانا ہے۔ سیاسی اثر رسوخ سے پاک یہ ایک خود مختار ادارہ رہا ہے۔ ما ضی میں اس کی کارکرکدگی بھی مثالی رہی ہے۔ اور ایسے امیدواران جو کہ محنت شفافیت اور میرٹ کے دریعے آنے پر یقین رکھتے ہیں ان کیلئے یہ ادارہ امید کے آخری کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں کچھ بدعنوان عناصر کی جانب سے اگراس کی کار کردگی پر سوالات اٹھتے ہیں اور ایسی بے ضابطگیوں کی نشا ند ہی ہوتی ہے تو ایسے عناصر کو ا نصاف کے کٹہرے میں لانا پڑیگا ورنہ یہ کسی قومی المیے سے کم نہیں ہوگا۔

خیبر پختونخواہ حکومت بھی تبدیلی کے دعوے کرتے نہیں تھکتی۔ اور ہمیشہ میریٹوکریسی کی بات کرتی ہے انھوں نے بھی اس مسئلے کو غور طلب نہیں سمجھا۔ اسلئے وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے کیونکہ وہ بھی اتنے کھلم کھلا اعتراضات کے ھو تے ھوئے کسی کے خلاف کوئی کرروائ کرنے سے قاصر ہیں۔ایسے میں ان خوددار امیدواران کا خدا ہی حافظ ہے جو شفافیت اور میریٹو کریسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ خیبر پختونخواہ پبلک سروس کمیشن میں بے صابطگیاں نھیں بلکہ بدعنوانیاں ہوئی ہیں ۔
 

Junaid Ahmed
About the Author: Junaid Ahmed Read More Articles by Junaid Ahmed: 2 Articles with 1418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.