مختار کل صرف اللہ !

ہمیں کافروں کی سازش کو سمجھنا چاہیے جو بتّوں کی پوجا کو سچّا دین ثابت کرنے کے لیے انبیاء کرام صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کا لیتے ہیں اور مثال یہ دیتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ہیں کیوں کہ شیطان تو آدم علیہ السلام سے پہلے سے زندہ ہے اور اب بھی زندہ ہے اورقیامت تک زندہ رہے گا اور آخرت میں ایک دن وہ بھی مر جائے گا اور جہنّم میں جائَے گا تو ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہی سب سے بہتر ہے اس لیے جو لوگ ان کو حاضر و ناظر نہیں مانتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ شیطان سے کم تر مانتے ہیں

اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ مختار کل یعنی تمام کے تمام اختیارات رکھنے والا صرف اللہ ہی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے اندر سنیت کے نام پر ایسا طبقہ موجود ہے جنہوں نے انبیاء اور اولیاء اللہ کے علاوہ ہر کسی کو یہ صفت بخش دی جو سراسر اللہ تعالی کی توہین ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ جل وجلالہ وہ ذات ہے جو تمام اختیارات کا مالک ہے۔ یہ بات عقلی طور پر بھی سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ مختار کل ہونے کیلئے اچھی صفات کا ہونا بھی ضروری ہے جیسے ہر چیز پر قدرت رکھنا، غیب کا علم رکھنا، عدم سے وجود بخشنا، عدل کرنا،حکیم ہونا اور مجبور نہ ہونا اور نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہ ہونا۔
اللہ جل وجلالہ کا فرمان ہے:
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (الانبیا، آیت ۲۳)
وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرستش نہیں ہوگی اور (جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی) ان سے پرستش ہوگی.
نیز اگر انبیاء علیھم السلام کو ہر چیز پر اختیار ہوتا تو پھر نوح علیہ السلام کا بیٹا کفر میں نہیں مرتا، لوط علیہ السلام کی بیوی عذاب میں مبتلا نہ ہوتی اور بالخصوص خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لوگ سارے ایمان لاتے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے دعوت اپنے اقرباء کو دی۔
بخاری ومسلم کی حدیث کے مطابق جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو مرتے وقت لا الہ الاللہ پڑھنے کی دعوت دی تو انہوں نے رد کیا اور کفر پر مرے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافی غمزدہ ہوئے۔ پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی۔
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورۃ القصص آیت ۵۶)
(اے محمدﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانیوالوں کو خوب جانتا ہے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقہ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل کہتا ہےکیا نعوذ باللہ ثم نعوذباللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اختیارات ہونے کے باوجود اپنے چچا ابوطالب کو مسلمان نہیں کیا۔
ہرگز نہیں ! کیوں کہ تمام انبیاء علیھم السلام کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہے باقی ہدایت دینا اور نہ دینا صرف اللہ کے ہاتھ ہے جو مختار کل ہے باقی سب اس کے غلام اور بندےہیں اور ان بندوں میں سب سے افضل انبیاء علیھم السلام ہیں اور ان انبیاء میں سب سے افضل خاتم الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مختار کل والا عقیدہ ان لوگوں کا ہے جو بت پرست ہیں اور ہندو ان میں قابل ذکرہیں جو یہ عقائد رکھتے ہیں کہ ہمارے بت مختار کل ہیں اسی لئے مسلمان ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے لیکن پھر جب وہ لوگ مسلمان بن مسلمانوں مل جل کر زندگی گزارتے ہیں تو پھر وہ یہ عقائد بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نعت پیش کرتے ہیں اور پھر نعت سناتے سناتے جیسے اپنے بتّوں کو مختار کل قرار دیتے تھے تو بتّوں کی پوجا کرنے والے امیر کبیر لوگ انہیں انعام اکرام دیا کرتے تھے اور اس طرح سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل اور غیب جاننے والا اور مشکل کشا حاجت روا حاضر و ناظر قرار دے دیتے ہیںاور پھر آپس میں بیٹھ کر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ جب ہم اپنے بتّوں کے لئے یہ الفاظ بولتے تھے تو یہ لوگ ہمیں مشرک قرار دیتے تھے اور مجرم قراردیتے تھے اور اس طرح سے ہمارے بہت سے لوگوں مجرم قرارد ے کر مار دیا لیکن جب ہم ان کے پیغمبر کے بارے میں وہی الفاظ بولتے ہیں تو اب ہم بڑے نیک بڑے ایمان دار ہمیں کافروں کی سازش کو سمجھنا چاہیے جو بتّوں کی پوجا کو سچّا دین ثابت کرنے کے لیے انبیاء کرام صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کا لیتے ہیں اور مثال یہ دیتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ہیں کیوں کہ شیطان تو آدم علیہ السلام سے پہلے سے زندہ ہے اور اب بھی زندہ ہے اورقیامت تک زندہ رہے گا اور آخرت میں ایک دن وہ بھی مر جائے گا اور جہنّم میں جائَے گا تو ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہی سب سے بہتر ہے اس لیے جو لوگ ان کو حاضر و ناظر نہیں مانتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ شیطان سے کم تر مانتے ہیں اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیر الخلائق ہیں جیسا کہ نماز کے بعد دعا میں یہ الفاظ بولے جاتے ہیں کہ صلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد واٰلہ وسلم لہٰذا وہ خیرالخلائق ہیں اس لئے اگر شیطان کی عمر اتنی لمبی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اس سے زیادہ ہونی چاہیے تب ہی وہ شیطان سے بہتر ہوں گے اس لئے پھر یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے اپنی عمر بتائِی کہ میں ایک چمکتا ہوا ستارہ 70 ہزار سال بعد دیکھتا تھا اور 70 ہزار مرتبہ دیکھ چکا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ستارہ میں تھا اس لئے حضور صلی اللہ کی عمر شیطان سے زیادہ ثابت کرنے کے لئے کیا کچھ حدیثیں بیان کی جاتی ہیں جو من گھڑت اور ضعیف ہیں اور ہندو اور بت پرست بھی کم نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے رام پہلے عرش پر خدا بن رہتے تھے اور پھر وہ رام بن کر دھرتی پر اتر آئے لہٰذا ہمارا رام تمھارے پیغبر سے بہتر ہے کیوں اسی نے تو ان کو پیغبر بنا کر بھیجا تھا نعوذ باللہ من ذالک -

اس طرح سے جہالت کی بحثیں جتنی چاہو بڑھاتے چلے جاو بڑھاتے چلے جاو اگر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل بنایا ہوتا تو قرآن بیان نا فرما دیا ہوتا کہ میرے پیغمبر مختار کل ہیں بلکہ اللہ پاک نے تو قرآن میں فرما دیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمحاری طرح ایک انسان ہیں جیسے وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے مسلمانوں تم بھی کرو تو اللہ تمھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطا فرمائے گا اس لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی بھی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ انسان یہ گمان کرنے لگے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پر ہیزگار ہوں اللہ نیک بندہ ہوں اور یہ بات بھی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تو مختار کل تھے مشکل کشا تھے حاجت روا تھے اس لئے ہم تو ان کی نقل کر ہی نہیں سکتے اس لئے ہم کلمہ ہی نہیں پڑھتے کہ کہیں غلط نا پڑھا جائے اور نا نماز نا روزہ نا حج نا زکاٰہ نا جہاد نا حقوق اللہ نا حقوق العباد کہ ہم تو بہت ہی گناہ گار ہیں

اس لئے ہم ان کی تعریفیں کر کے اور ان کی خدمت میں نزرانہ عقیدت پیش کرکے ہی گزرا کر لیں گے کہ کہیں ہم ان سے آگے نا بڑھ جائیں کہ کوئی کام انھوں نا کیا ہو اور ہم بے خبری میں کر بیٹھیں تو ہم تو ردّے بھی جاسکتے ہیں اسلئے ادب کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ ان سے دور دور رہ کر ان سے محبّت کی جائے قریب جائیں گے تو جل جائیں گے یا ہمارے اعمال جل جائیں گے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوگی اس طرح سے جو لوگ دین کا مذاق اڑاتے ہیں وہ ایسی باتیں کرتے ہیں اس لیے اللہ کے دین کا اللہ پیغمبروں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے بلکہ ان کی پیروی کرنی چاہیے کیوں کہ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجیے لوگو اگر تم اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو اللہ کی نازل کردی شریعت کی پیروی کرو
اور اگر مختار کل حاجت روا مشکل کشا اور نور من نور اللہ ثابت کریں گے تواللہ کے دین کی پیروی کیسے کریں گے اور اگر یہ کہا جائے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رام اور بت پرستوں کے دیوتاوں سے بہتر ثابت کریں گے تو ہی اسلام پھیلے گا تو گمراہی ہے کیوں کہ بتوں کے پجاری تو یہ کہیں گے کہ تم اپنے پیغمبر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر ثابت کرو گے تو ہم ان کی پوجا کر لیں گے تو اسلام میں تو اللہ کے علاوہ کسی بھی ہستی کی پوجا کرنا شرک ہے حتّٰی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہو ا ن کو بھی اللہ کا شریک نہیں بنانا

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.