مثنوی مولانا روم میں شہرِ بغداد کی ایک حکایت مذکور ہے۔
حکایت کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ برف باری کے موسم میں بغداد کے ایک سپیرے
کا گزر پہاڑی علاقے سے ہوا۔ سخت سردی سے ٹھٹھر کر پہاڑوں کے دامن میں بڑے
بڑے اژدھے بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے۔ انہی اژدھوں میں سپیرے کی نظر ایک
عظیم الشان اژدھے پر پڑی۔ سپیرے کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا اور
وہ اس اژدھے کو اٹھا کر بغداد کے گلی کوچوں میں گھسیٹ لایا۔وہ اژدھا ایک
بڑے ستون کی مانند عظیم جسامت کا حامل تھا۔ وہ درحقیقت زندہ تھا لیکن سردی
سے ٹھٹھر کے مثلِ مردہ کے بے حس و حرکت تھا۔
بغداد پہنچ کرسپیرے نے تماشہ لگالیا اور اپنی بہادری اور مہارت کا خوب
ڈھنڈورا پیٹا کہ اس اژدھے کے شکار میں مجھے سخت محنت اٹھانی پڑی ہے اور
اپنی جان پر کھیل کر میں اسے شکار کرکے شہر میں لایا ہوں۔دیکھتے ہی دیکھتے
لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ سب کی زبانوں پر سپیرے کی دلیری کے قصے تھے
اور لوگ اژدھے کے بظاہر مردہ جسم کے نزدیک ہوکر اس کی بے پناہ جسامت کو
حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے جیسے دن چڑھتا گیا ،سورج کی شعاعوں کی تمازت سے
اژدھے کے جسم میں ٹھنڈک کے آثار کم ہونا شروع ہوئے اور زندگی کی حرارت اس
کے رگ و پے میں دوڑنے لگی۔کچھ ہی دیر میں جو اژدھا مردہ تھا زندہ ہوگیا اور
اس نے پھنکارتے ہوئے حرکت کرنا شروع کردی۔ یہ منظر دیکھ کر لوگوں کی خوف کے
مارے چیخیں نکل گئیں اور مجمع میں بھگدڑ سی مچ گئی۔بہت سے لوگ بھاگتے ہوئے
ایک دوسرے سے ٹکرا کر زخمی ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا پورا مجمع
تتر بتر ہوگیا۔ سپیرا حیرت اور خوف سے سکتے میں آگیا اور اژدھے کا پہلا
شکار وہی ثابت ہوا۔
اس حکایت کو بیان کرکے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک نہایت
اہم سبق بیان فرمایا ہے کہ انسان کو کبھی بھی اپنے نفس پر اعتماد نہیں کرنا
چاہیے کیونکہ اپنی فطرت کے اعتبار سے نفس کے اندر گناہوں سے طبعی رغبت اور
میلان پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات آدمی کے ارد گرد گناہوں اور اﷲ تعالیٰ کی
نافرمانی کے اسباب و مواقع موجود نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ گناہوں سے
محفوظ و مامون ہوتا ہے۔ نیز ااذکار و اشغال کی کثرت اور اعمالِ صالحہ کی
پابند ی کی بدولت کبھی اسے اپنے نفس پر اطمینان ہو جاتا ہے۔لیکن یہیں شیطان
اور نفس اسے دھوکا دیتے ہیں کہ اب تیری طبیعت میں گناہوں سے رغبت ختم ہو
چکی ہے ۔ اب تو فرشتوں کی طرح معصوم ہو چکا ہے۔ تیرا دل صاف، نظر پاک اور
نیت صادق ہے اس لئے اب تجھے زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس حسین
فریب میں آکر رفتہ رفتہ انسان گناہوں کے قریب ہوتا چلاجاتا ہے اور اسے
احساس تک نہیں ہوپاتا۔ یہاں تک کہ نفس کے اژدھے میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور
وہ اپنے دام میں گرفتار کرکے انسان کو ذلت و بربادی کی پستیوں میں دھکیل
دیتا ہے۔
اسی لئے شریعتِ مطہرہ میں ایک مسلمان کونہ صرف اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں
حلال اور حرام کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے بلکہ مشتبہ امور سے بچنے
کا بھی حکم دیا گیا ہے ۔اسی وجہ سے متقی شخص شبہات سے بھی بچتا ہے۔ اب اس
احتیاط کو خواہ نفس پرور دنیا پرست طبقہ نفسیاتی ہونے کا طعنہ دے یا
دقیانوسی ہونے کا بہتان لگائے، اﷲ رب العزت سے ڈرنے والے کو ان الزامات کی
ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہوتی۔ اس کے پیشِ نظر قرآنِ کریم کا یہ فرمانِ
عالیشان ہوتا ہے کہ
ترجمہ: یہ اﷲ کی قائم کردہ حدود ہیں لہٰذا ان سے باہر نہ نکلو اور جو لوگ
ان سے تجاوز کرتے ہیں وہی دراصل ظالم ہیں۔ ( سورہ بقرہ ، آیت 229)
نیز نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی یہ حدیثِ مبارکہ اس کے لئے
مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ حلال کھلا ہوا
ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں
جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے( کہ حلال ہیں یا حرام)۔پھر جو کوئی شبہ کی
چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ
کی چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ( شاہی محفوظ)
چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کوچرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے
اندر گھس جائے( اور شاہی مجرم قرار پائے)۔ سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ
ہوتی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔(صحیح بخاری)
مسلمان کی ساری زندگی اسی فکر میں گزرتی ہے کہ میرے کسی عمل سے میرا رب مجھ
سے ناراض نہ ہوجائے۔اسی ادھیڑبن میں اس کی صبح و شام ہوتی ہے کہ میں کس طرح
اپنے پالنے والے کو راضی کرلوں۔وہ ہر قدم پر احتیاط کرتا ہے کہ جادۂ مستقیم
سے کہیں منحرف نہ ہوجائے۔نفس و شیطان کے خلاف جہاد میں وہ ہر وقت سر بکف
رہتا ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے خوب کہا ہے کہ
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا |