شام کی سرزمین ابھی خون آلود ہی ہے،2011کے بعد سے بہارِ
عرب کے نام سے شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی میں اب تک پانچ لاکھ سے
زائد مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں ، بیس لاکھ سے زائد لوگ زخمی اور 65لاکھ سے
زائد شامی افراد بے گھر ہوچکے ہیں جومختلف ممالک میں پناہ گاہوں میں قیام
کئے ہوئے ہیں ان میں سے آج بھی لاکھوں کی تعداد میں پریشان کن صورتحال سے
دوچار ہیں۔شامی صدر بشارالاسد 2000ء سے شام کے صدر کی حیثیت سے برسراقتدار
ہیں اس سے قبل بشارالاسد کے والد حافظ الاسد 30سال تک شام پر حکومت کرتے
رہے انکی موت کے بعد بشارالاسد صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے ۔ مشرقِ وسطیٰ
میں 2011ء میں بہار عرب کے نام سے آزادی چاہنے والوں نے مشرقِ وسطیٰ کے بعض
علاقوں میں احتجاج کا آغاز کیا اوراس میں مصر کے صدر حسنی مبارک، لیبیا کے
صدر قذافی اقتدار سے سے محروم کردیے گئے یہی نہیں بلکہ معمرقذافی کو بُری
طرح ہلاک کیا گیا۔اسی دوران شام میں بھی اپوزیشن نے بشارالاسد کے خلاف
احتجاج کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بشارالاسد کے خلاف پورے ملک میں
احتجاجی ریالیاں نکالی جانے لگیں ۔ اپوزیشن کے اس احتجاج کو روکنے کے لئے
شامی صدر بشار الاسد نے فوجی کارروائی کرتے ہوئے ظلم و بربریت کا آغاز کیا۔
ایک طرف شام میں دہشت گرد تنظیموں نے عام عوام کو نشانہ بنانا شروع کیا تو
دوسری جانب شامی صدربشارالاسد کی فوج نے صدر کے حکم پر عام سنی مسلمانوں کا
قتل عام شروع کیا۔ گذشتہ چھ سال سے جاری شام کی خانہ جنگی میں لاکھو ں کی
تعداد میں عام بے قصور لوگ بشمول معصوم بچوں کوکیمکل گیس کے ذریعہ، فضائی
حملوں اور زمینی کارروائیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ بشارالاسد کی
ظالمانہ کارروائیاں صرف شامی فوج کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایران اور روس کی
مدد سے مزید خطرناک موڑ اختیار کرتی گئی اور آج شام کے مشرقی علاقہ غوطہ
میں جاری فوجی کارروائیوں میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران 650سے زائد افراد
ظالم شامی فوج کی کارروائی میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل نے شام میں ایک ماہ کے لئے جنگ بندی کی قرارداد منظور کررکھی ہے تاکہ
جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے شہریوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع فراہم ہو اور
انہیں ضروری امداد کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔ ظالم شامی صدر بشارالاسد نے
اپنی فضائی ظالمانہ کارروائیوں کو جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ شامی فوج کی
کارروائی دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں دہشت گردی کے خلاف
ہے جو اس کے خاتمے تک جاری رہے گی۔شامی صدر اور اس کا اتحادی ملک روس نے
اعلان کیاہے کہ وہ مشرقی غوطہ میں جاری فوجی کارروائی روزانہ صرف پانچ
گھنٹے کیلئے روکیں گے اور اس وقفے کے دوران امدادی ادارے مشرقی غوطہ میں
پھنسے عام شہریوں تک امداد پہنچا سکتے ہیں۔ امدادی اداروں کا کہنا ہیکہ
مشرقی علاقے غوطہ میں اب بھی چار لاکھ سے زائد افراد موجود ہیں جنہیں گذشتہ
دو ہفتوں سے شامی حکومت کی شدید بمباری اور فضائی حملوں کا سامنا ہے۔ روس
اپنی طاقت بتانے کے لئے جس طرح اقوام متحدہ میں دیگر ویٹو پاور رکھنے ممالک
کی بات کو بھی نظر انداز کرکے شامی عوام پر خطرناک فضائی حملے جاری رکھے
ہوئے ہے ۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں روس پر الزام عائد کیا
گیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی جانب سے شام میں 30روزہ جنگ بندی سے متعلق
منظور کی جانے والی قرار داد سے روگردانی کررہا ہے۔ امریکہ نے روس پر الزام
عائد کیا ہیکہ وہ انسداد دہشت گردی کی نام نہاد کارروائیوں کی آڑ میں معصوم
شہریوں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے ایران کے
صدر حسن روحانی پر زور دیا ہے کہ وہ مشرقی غوطہ میں عام شہریوں پر حملے
روکنے کیلئے شام پر دباؤ ڈالیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانس اور ایران کے
صدور کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو ہوئی جس میں صدر فرانس نے واضح کیا کہ شام
میں جنگ بندی پر عمل درآمد کرانا ایران کی بھی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے
شامی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات ہے۔ ایران ، شام کی خانہ جنگی میں
بشارالاسد کو اقتدار پر بحال رکھنے کے لئے شامی فوج کوہر ممکنہ تعاون فراہم
کررہا ہے جس کے خلاف سعودی عرب، امریکہ اور دیگر ممالک نے ذرائع ابلاغ کے
ذریعہ واضح کیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے اور امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقی غوطہ کے سنگین حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شام
اور روس کومشرقی غوطہ میں جاری ’’انسانی بحران‘‘ اور شہری آبادی پر ڈھائے
جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈونے
شامی پناہ گزیں افراد میں موجودمعصوم مظلوم بچوں کو دیکھنے کے بعد جذبات سے
مغلوب ہوکر اپنے اشکوں کوروک نہ سکیں۔2017کے اوائل میں ہی کینیڈامیں چالیس
ہزار سے زائد شامی افراد کو پناہ گزیں کی حیثیت سے قبول کیا گیا اور
مزیدہزاروں شامی افراد کی درخواستیں کینیڈا حکومت قبول کررہی ہے ۔ شام کے
معصوم بچوں، خواتین اورمردوں پر شام اور روسی فضائی کاررائیوں کا سلسلہ
ابھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ بشارالاسد کی ظالمانہ فضائی کارروائیاں
اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شام میں ان معصوم بچوں کا بھی قتل عام کردیا
جائے تاکہ مستقبل میں شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار پر فائز رہنے کے لئے
کسی قسم کے مسائل پیدا نہ ہوں اوروہ نوجوان نسل کی انتقامی کارروائی سے
محفوظ رہے۔ آج بھی شام کی فضائی کارروائی بشارالاسد اور ولادیمر پوتین کی
سفاکی، ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں گولہ بارود کے حملوں سے فضاء کو
آلودہ کررہی ہے تو شامی زمین ان معصوم لوگوں کے خون سے بھیگی ہوئی دکھائی
دیتی ہے۔ عالمی سطح پر بڑے بڑے حکمراں شام کے خلاف صرف بیان بازی سے کام لے
رہے ہیں ۔ سوپر پاور ممالک کے حکمراں صرف شام اور روس کو وارننگ دینے کے
علاوہ کچھ کر نہیں پارہے ہیں۔ عالمِ اسلام کے حکمراں نہ تو اقوام متحدہ میں
کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ہی شام کے خلاف کسی قسم کی کارروائی انجام دینے کی
حیثیت رکھتے ہیں۔ کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار رکھنے کے باوجود بشارالاسد کو بات
چیت کے میز پر لانے کی سکت ان میں نہیں ہے۔ یا پھر ہوسکتا ہیکہ دشمنانِ
اسلام مسلمانوں کو اسی طرح لڑاتے ہوئے اپنے ان ہتھیاروں کی نکاسی کرنا
چاہتے ہیں جن کی ڈیٹ اکسپائر ہورہی ہے۔ ایک طرف انکے ناکارہ ہونے والے
ہتھیار وں کی فروخت کروڑہا ڈالرس میں ہورہی ہے تو دوسری جانب اس سے انکی
معیشت بھی مستحکم ہورہی ہے۔ شام، یمن ، افغانستان میں اتنے سنگین حالات
ہونے کے باوجود دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی بات کرنے والے اس بڑے دہشت گرد
بشارالاسد کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔امریکہ، روس اور
دیگر ممالک کے حکمراں بیان بازی کے علاوہ کچھ کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔
حالات ایک نہ ایک دن پر امن ہوجائیں گے لیکن کیا ان لاکھوں کی تعداد میں
مرنے اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ انصاف ہوپائے گا۔ حالات آج بشارالاسد کے
حق میں دکھائی دے رہے ہیں-
سعودی عرب اور مصر کے درمیان خوشگوار تعلقات
ان دنوں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات مضبوط و مستحکم ہوتے دکھائی دے رہے
ہیں ۔ سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سہ روزہ دورہ مصر کے
موقع پر دونوں ممالک کے درمیان چار معاہدات پر دستخط ہوئے ہیں ۔ اس کے
علاوہ گذشتہ سال اکٹوبر میں صحرائے سیناء میں ایک میگا سٹی اور بزنس زون
تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ کے موقع پر
مصری حکومت نے انہیں تحفہ کے طور پر شہر کی تعمیر کے لئے جنوبی سینائی میں
ایک ہزار مربع کلو میٹر زمین فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے
مطابق بحیرہ احمر کے کنارے پر واقع اس جائیداد کی قیمت 10ارب ڈالربتائی
جارہی ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کا اعلان کردہ یہ شہر کُل 26 ہزار 600مربع
کلو میٹر کے علاقے پر محیط ہوگا جس میں ایک مصر کی جانب سے دی گئی ایک ہزار
مربع کلو میٹر زمین شامل ہوگی۔ اس شہر کا نام ’’نیوم‘‘ رکھا گیا ہے۔ ریاض
میں ہونے والی ایک بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں سعودی حکام نے
بتایا تھا کہ یہ شہر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لئے بنایا
جارہا ہے اور توقع ہے کہ اس شہر میں پانچ سو ارب ڈالر پبلک و پرائیوٹ
سرمایہ کاری کی جائے گی ۔ اب دیکھنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ شہر
کتنے عرصہ کے اندر تعمیر ہوکر مصر و سعودی معیشت کو استحکام پہنچانے میں
ثمر آور ثابت ہوتاہے ۔ ولیعہد سعودی عرب اپنے ویژن 2030کے تحت مملکت کو
استحکام پہنچانے اور تیل پر بھروسہ کرنے کے بجائے مختلف ذرائع آمدنی کے لئے
پہل کررہے ہیں جس سے ملک میں نوجوانوں بشمول خواتین کو بھی روزگار سے مربوط
کرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔روزگار کے ذرائع مملکت سعودی عرب اور مصر کے
نوجوانوں کے لئے خوش آئند ثابت ہونگے کیونکہ جب بے روزگار نوجوان روزگار سے
منسلک ہونگے تو دہشت گردی اور دیگر جرائم پیشہ واقعات میں کمی واقع ہوگی
اور ملک میں امن و سکون بحال ہوسکتا ہے ۔خیر شہزادہ محمد بن سلمان جس تیزی
سے ملک میں مختلف جہتوں سے ترقی کی راہیں تلاش کررہے ہیں اتنا جلد انہیں
کامیابی مل پاتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۰۰۰
عالمِ اسلام میں اتحاد ناگزیر۰۰۰
آج عالمِ اسلام جس دور سے گزر رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو
جس طرح دہشت گردبتایا جارہا ہے یہ ہمارے ان حکمرانوں کی نادانی اور نااہلی
کا ایک ثبوت ہے۔ اگرعالمِ اسلام کے ان حکمرانوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق
ہوتا اور تمام مسلم حکمراں ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھتے ہوئے اپنی رعایا
کی تعلیم وتربیت، ترقی اور خوشحالی کے لئے متحدہ طور پر مساعی کرتے تو آج
مشرقِ وسطیٰ کے حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ دشمنانِ اسلام کی گھناؤنی سازشوں کے
نتیجہ میں مسلم حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو مدّنظر رکھ کر بہکاوے میں آگئے
اور ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے لگے ۔ اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھاتے
ہوئے ان حکمرانوں کو بیوقوف بنارہے ہیں۔ کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار مسلم
حکمراں صرف اپنی حفاظت کے لئے دشمنانِ اسلام سے خریدے ہیں اور خرید رہے
ہیں۔ مسلم حکمراں ایک دوسرے کی عزت و قدر کرتے ہوئے پیار و محبت سے زندگی
گزارتے تو آج ان ممالک کی معیشت دنیا بھر میں سب سے بہترین اور مثالی ہوتی۔
آ ج نام نہادجہادی تنظیمیں، دہشت گردی کے ذریعہ مسلمانوں ہی کے خون کے
پیاسے نظر آتے ہیں۔ خودکش بم دھماکے چاہے عبادتگاہوں میں ہوں یا بازاروں ،
تفریحی مقامات یا عام گزرگاہوں میں، ان ممالک میں نشانہ تو صرف مسلمان ہی
بنائے جارہے ہیں۔ اور جن ممالک میں مسلمان اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں وہاں کچھ
نہ کچھ بہانا بناکر ان کی جان و مال کو نشانہ بناکر تہس و نہس کردیا جاتا
ہے ، لاکھوں ، کروڑوں ڈالرس کی املاک تباہ و برباد کردی جاتی ہیں اور پھر
کئی مسلمان شہید بھی کردیئے جاتے ہیں اس کے بعد پھر ان ہی زخمی یا زندہ
رہنے والے مظلوم مسلمانوں کو ان فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ آج
سری لنگا ، برما وغیرہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو مظلوم مسلمان ان
حالات سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات انتہائی سنگین نوعیت
اختیار ہوئے ہیں ۔ سعودی عرب ، بحرین ، عرب امارات ، قطر سے تعلقات منقطع
کرلئے ہیں ۔ ان ہی حالات پر بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ نے کہا ہے
کہ قطری بحران کے حل کی کنجی سعودی دارالحکومت ریاض میں ہے۔بد ھ کو نجی ٹی
وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ نے کہا کہ اس
بات پر حیرت ہے جب قطری بحران کا آغاز ہوا تھا تو امیر قطر شیخ تمیم بن حمد
آل ثانی اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ریاض کیوں نہیں گئے تھے۔ہماری روایت ہے
کہ ہمیشہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے پاس اپنے مؤقف کی وضاحت کیلئے جاتا
ہے۔بحرین قطر کی موجودہ صورتحال سے خوش نہیں ہے،تاہم قطریوں نے خلیجی ممالک
سے عدم مطابقت نہ رکھنے والی پالیسی اختیار کی اور بحرین کے داخلی امور میں
مداخلت جاری رکھی تھی۔شاہ حمد نے کہا کہ قطری ہمارے رشتے دار اور دوست
ہیں۔وہ آل ثانی کی حکمرانی سے قبل ہمارے ہی لوگ تھے۔انھوں نے واضح کیا کہ
اگر قطر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں لاتا تو یہ بحران اسی طرح جاری رہے
گا۔ اس طرح سعودی عرب اور دیگر ممالک چاہتے ہیں کہ قطر سعودی عرب اور ان
ممالک کی بات مان لیں ، اسی میں قطر کی بھلائی ہے ورنہ دنیا کا امیر ترین
ملک قطر معاشی بدحالی کا شکار ہوجائے گا ۔ کاش عالمِ اسلام کے درمیان اس
قسم کے حالات پیدا نہ ہوتے اگر ہوئے بھی ہیں تو جلد از جلد ان کے درمیان
مصالحت ضروری ہے ورنہ اس سے صرف قطر کے لوگ ہی نہیں بلکہ دیگر تارکین وطن
کے کئی خاندان جو قطر میں روزگار سے منسلک ہیں معاشی بدحالی کا شکار
ہوجائیں گے جس کے ذمہ دار سعودی عرب ، بحرین، عرب امارات، مصر برابر
ہونگے۰۰۰ |