تحریر: اے اے کشمیری
نام عبداﷲ ،کنیت ابوبکر،لقب صدیق عتیق ہے۔ آپکے والد کا نام ابوقحافہ والدہ
ام الخیر سلمیٰ ہے۔ آپکا نسب چھٹی پشت میں جاکر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
سے مل جاتا ہے۔ آپکے والد شرفاء مکہ میں سے تھے، جن کے پاس قصاص و دیت کی
رقم جمع ہوتی تھی۔ آپ رضی اﷲ عنہ انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے، سچائی ،
پاکدامنی، ایمانداری، مہمان نوازی ، تنگدستوں کی اعانت کرنا یہ وہ اوصاف
حمیدہ ہیں جن سے آپ کی ذات اقدس متصف تھی۔ عرب کا معاشرہ جاہلیت کے امور
میں ایک دوسرے سے بڑھا ہو ا تھا لیکن آپ رضی اﷲ عنہ کی ذات ان تمام فسق و
فجور کے کاموں سے کنارہ کش تھی۔ شراب اس وقت عام مشروب کی حیثیت سے مشہور و
معروف تھا لیکن کبھی جام شراب نے آپ کے ہونٹوں کو چھوا تک نہیں۔ قبل از
اسلام غریبوں ، ناداروں ، بے کسوں کی مدد کرنا شیوہ صدیقی رضی اﷲ عنہ تھا ،
جو بعد از اسلام اپنے عروج کے منتہاء کو پہنچا کہ ایک بار گھر کا سارا
سامان اﷲ کی راہ میں پیش کردیا۔ زبان رسالت سے یہ فرمان جاری ہوا ’’ جتنا
فائدہ ابوبکر کے مال نے دیا اتنا فائدہ کسی کے مال نے نہیں دیا‘‘ نیز ’’ ہر
ایک کا احسان چکا دیا سوائے ابوبکر کے ‘‘
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہمیشہ دنیا داری سے کنارہ کش رہتے ، خانگی زندگی
عاجزی و انکساری کے ساتھ گزارتے، کھانے، پینے ، پہننے میں انتہائی سادہ
اپناتے لیکن خلافت کے بعدسادگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت
نگار آپکا حلیہ مبارک لکھتے ہیں:آپ کا جسم انتہائی کمزور و لاغر تھے ۔چہرے
پر کم گوشت،رنگ گندمی ، فراخ پیشانی، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں، بالوں میں
خضاب لگاتے تھے۔
باوجود اسکے کے آپ تجارت کرتے تھے پھر بھی دو، دو دن تک فاقوں کی کیفیت
رہتی تھی۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ علم و فضل میں کمال رکھتے تھے ، اگرچہ آپ
نے کسی مکتب میں زانوئے تلمذ طے نہیں کیے تھے ۔آپ کی گفتگو فصاحت و بلاغت
کا مرقع ہوتی تھی۔ رب العزت نے شاعری کا بھی ذوق عطا کیا تھا ۔علم الانساب
میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ (جو بہت بڑے انساب کے
ماہر تھے )فرماتے ہیں: میں نے یہ فن ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے سیکھا ہے۔اسی لیے
جہاں کہیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دعوت دین کے لیے جاتے تو ابوبکر رضی
اﷲ عنہ قبائل میں آپکا کا تعارف کرواتے ۔
خوابوں کی تعبیر میں کمال کی حد یہ تھی کہ بعض اوقات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آ
پ رضی اﷲ عنہ کو تعبیر بیان کرنے کا حکم دیتے۔قرآن کریم سے بھی آپ کو خاص
شغف تھا ، گھر میں بنائی ہوئی مسجد میں جب نماز کی حالت میں اس سوزو گداز
سے تلاوت محلے کے بچے اور عورتیں آپکی آواز سننے کے لیے جمع ہوجاتے ،اسی
وجہ سے آپ تفسیر قرآن میں ماہر تھے ۔گو کہ آپ سے بہت کم احادیث مروی ہیں ،
محدثین نے اسکی مختلف وجوہات بیان کی ہیں لیکن پھر بھی آپ نے پانچ سو
احادیث کا مجموعہ ہومرتب کیا تھا۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب نبوت عطا کی گئی تو سب سے اول ابوبکر نے
ہی آپ کی تصدیق کی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسکی تبلیغ و اشاعت میں بھی
پیش پیش رہے ۔ماریں کھائیں ، ظلم برداشت کیے لیکن ایک انچ بھی کلمہ حق
انحراف نہیں کیا ۔ مشرکین کے ظلم و ستم کی سے ایک بار حبشہ کی جانب ہجرت کے
ارادے سے بھی نکل گئے تھے لیکن پھر ابن الدغنہ جو اپنے قبیلے کا سردار تھا
اسکی پناہ میں واپس مکہ آگئے۔ اسکے بعد پھر دعوت دین میں مصروف ہوگئے اور
یہ اسی کا ثمر تھا کہ عشرہ مبشرہ صحابہ کرام خلیفہ ثالث عثمان بن عفان ،
طلحہ ، سعدبن ابی وقاص، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اﷲ عنہم اسلام کے نور سے
بہرہ ور ہوئے ۔ان میں سے ہر ایک اسلام کا درخشندہ ستارا ہے۔ایک بار پھر جب
کفار مکہ کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت
دی گئی تو ابوبکر رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ
کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہی ہیں جو ہر حال میں آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ جتنی بھی مشکلات حائل راہ ہوئیں کبھی پائے استقلال
میں لغزش نہ آئی ۔دعوت کے میدانوں سے لیکر میدان کارزار میں قدم بقدم رہے۔
مسجد نبوی کی قیمت ذاتی مال سے ادا کی تو غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد
کروایا، جب حکم قتال آیا تو آپ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے ، احد ، بدر ،خندق،
حنین ، تبوک غرض ہر معرکے میں مال و جان کے ساتھ حاضر ہوئے۔اسی سبقت کے سبب
ڈھیر ساری بشارتوں کے مستحق ٹھہرے ، جدھر نظر دوڑائیں آپ کو خلیفہ اول ہی
نظر آئیں گے ، سابقین اولین کے قائد، جنت کی بار بار بشارتیں ، قرآن مجید
نے ثانی اثنین کے لقب سے ملقب کیا تو واقعہ معراج کی تصدیق کی وجہ سے صدیق
، زبان رسالت سے عتیق من النارکہلائے۔
یہ اعلیٰ شرف آپ کو ہی حاصل ہے کہ آپ کی اولاد اور آپ کی اولاد کی اولاد
بھی اسلام کے شرف سے بار یاب ہوئی ۔صداقت و امانت ، خدمت خلق ، نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں خصوصی رسوخ حاصل ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام
میں اعلی مقام رکھتے تھے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر کوئی
خلافت کا حقدار تھا تو وہ صدیق اکبر ہی تھے ۔انتہائی افراتفری کے ماحول میں
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے بار خلافت کو سنبھالا ۔ ایک طرف بادشاہان عرب
مکہ و مدینہ پر حملے کے لیے پر تول رہے تھے ، تودوسری طرف مانعین زکوٰۃ نے
سر اٹھا رکھا تو تیسری جانب جھوٹے نبوت کے دعوے دار کھڑے تھے ،مرتدین کا
فتنہ ایک الگ درد سر تھا۔ الغرض خلیفہ بنتے ہی بے شمار مشکلات کا سامنا تھا
لیکن یہ نبوی رفاقت و تربیت کا ہی ثمر تھا کہ ان تمام مصائب کو حسن تدبیر
کے ساتھ حل کیا ، یہی نہیں بلکہ بعد کا دور انتہائی سنہرا دور بنا جس کی
آبیاری کے لیے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کاکردار ناقابل فراموش حقیقت ہے۔بار
خلافت اٹھاتے ہی انتظامی معاملات کی طرف متوجہ ہوئے ملک کو صوبوں ، ضلعوں
میں تقسیم کیا اور انکے عہدے دار مقرر کیے۔ دارالخلافہ میں ہر ایک عہدے کا
الگ ذمے دار تھا، ابوعبیدہ امین امت افسر مال ، عمربن خطاب قاضی اور عثمان
بن عفان، زید بن ثابت رضی اﷲ عنہم اجمعین کاتبین دارالخلافہ تھے ۔
خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ حلیم الطبع ہونے کے باوجود حکام کی
نگرانی کرتے، انہیں ضروری ہدایات دیتے اور جہاں کہیں سقم نظر آتا اسے دور
کرتے ، ورنہ ایسے نقصانات ہوتے جس کی تلافی ناممکن تھی ،تعزیر و حدو دکا
قیام ممکن بنایا اور بعض جرائم کی سزائیں نیز شراب کی حد مقرر کی۔ محکمہ
افتاء قائم کیا تاکہ نئے پیش آنے مسائل کا حل نکالا جائے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں کوئی باقاعدہ فوج تو نہ تھی اور یہی
حال دور صدیقی میں بھی رہا لیکن اس قدر اضافہ کیا ، جب کبھی لشکر روانہ
کرتے تو اس کو مختلف دستوں میں تقسیم کرکے انکے کمانڈرز مقرر کردیتے جس سے
روم جیسی عظیم فوج سے معرکے کے وقت بہت زیادہ مدد ملی اور مسلمان فتح یاب
ہوئے ۔حاکم وقت پر جس طرح عوام کو امن و سکون مہیا کرنا ضروری ہے اسی طرح
شریعت کا نفاذ بھی اور بدعات و خرافات سد باب بھی ازحد ضروری ہے ۔قبیلہ
احمس کی عورت کو خاموش حج سے منع کیا۔دعوت دین پہنچانے کے لیے داعی مقرر
کیے ، مثنی بن حارث رضی اﷲ عنہ کی دعوت پر عرب کے بت پرست اور عیسائی
مسلمان ہوئے تو خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی دعوت پر عرب ، عراق اور حدود
شام کے بیشتر قبائل نے اسلام قبول کیا۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جانشین ہونے کے اعتبار سے آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے وعدے پورے کیے ، اہل بیت کرام اور متعلقین کا پورا پورا خیال
رکھا۔اندر کے تمام مسائل کا قلع قمع کرنے کے بعد عراق ، شام ، مکران ، توج
اور زارہ کی طرف پیش قدشمی کی گئی اور اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے ، اور
مال غنیمت غرباء ، مساکین اور نئے مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا،صدقات کے
لیے عاملین مقرر کیے اوربیت المال قائم کیا گیا۔
وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا ان کے ساتھ معاہدے کیے اور انکے تحفظ کے
کا پورا پورا خیال رکھا، جزیہ و ٹیکس صرف ان لوگوں پر مقرر کیا جو ادا
کرسکتا تھا ، بوڑھا ، اپاہج اس سے بری تھا بلکہ ان کا خرچ بیت المال اٹھاتا
تھا۔چنانچہ اہل حیرہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسکے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ۔
ان کی خانقاہیں ، گرجے منہدم نہ کیئے جائیں گے، اور نہ ایسے قصر گرائے
جائیں گے جن میں بوقت ضرورت دشمن سے پناہ حاصل کرتے ہیں ،ناقوس کی ممانعت
نہ ہوگی اور نہ ہی تہوار کے وقت صلیب نکالنے سے روکا جائے گا۔
آپ اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ غیروں کی حکمرانی ہے کوئی ایک مثال پیش
نہیں کرسکتے جہاں مسلمان نسلی و مذہبی تعصب سے محفوظ ہوں۔چنانچہ آفتاب نبوت
کا خوشہ چیں ، خلیفہ اول ، سفر و حضر کا ساتھی ، عشرہ مبشرہ میں سے ایک ،
سابقون الاولون کے قائد،بنوتیم کے سردار ، دعوت و جہاد کے میدانوں کے غازی،
پیکر صدق و وفا، انتہائی ابتر حالات میں خلافت کی ناؤکنارے لگانے والا
بالآخر ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری ،خلافت کا بوجھ عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو
سپرد کرکے جان جان آفریں کے حوالے کردی۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون |