میاں نوازشریف کی نااہلی سے لے کر اب تک ملک میں
ہیجانی کیفیت طاری ہے۔ میاں صاحب اور مریم نواز کے لہجوں میں دِن بدن
تلخیوں کا زہر بڑھتا جا رہا ہے۔ اُدھر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا لب
ولہجہ بھی سیاستدانوں کا سا ہوتا جا رہا ہے اور اب تو یوں محسوس ہونے لگا
ہے کہ جیسے اصل مقابلہ سیاسی جماعتوں کا نہیں ،نوازلیگ اور عدلیہ کے مابین
ہے۔ میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اُنہیں سیاست سے ’’مائنس ‘‘کرنے
کے لیے ایک گرینڈ پلان کے تحت ہو رہا ہے۔ جمعرات کو احتساب عدالت میں پیشی
کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ نیب ریفرنس میں رابرٹ
ریڈلے کی گواہی کا بڑا شور تھااور کہا جا رہا تھا کہ وہ گواہی دے گاتو پتہ
نہیں کیا ہو جائے گالیکن اُس کی گواہی تو اُلٹا شریف فیملی کے حق میں گئی۔
اُنہوں نے کہا ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے جس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ چھ
ماہ ہو گئے لیکن آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ نوازشرف پر کوئی الزام ہے بھی
یا نہیں‘‘۔ اب نیب ریفرنسز کی مدت دوماہ بڑھا دی گئی ہے۔ مریم نواز کہتی
ہیں کہ جب 6 میں کچھ نہیں نکل سکا تو دو ماہ میں کیا نکل آئے گا؟۔
مریم نواز نے فیصل آباد میں ایک بڑے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے لگی
لپٹی رکھے بغیر بہت کچھ کہہ ڈالا۔ اُنہوں نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’آپ منصف ہیں، ہم آپ کی عزت کرنا چاہتے ہیں مگر آپ کو بھی چاہیے کہ اپنی
عزت کروائیں۔ عدلیہ کی عزت انصاف پر مبنی فیصلوں سے ہوتی ہے ،ڈرانے دھمکانے
سے نہیں۔ عدلیہ کی اِس سے بڑی توہین اور کیا ہو گی کہ پانچ ممبرز بنچ نے
عدالت کو پارٹی بنا کر ایک سیاسی جماعت کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ الیکشن سے
قبل اُمیدواروں سے انتخابی نشان چھین لینا اور سینٹ کے انتخاب سے قبل
نومنتخب سینیٹر کا معطل کیا جانا کیا پَری پول دھاندلی نہیں؟۔ سینیٹرز کی
دوہری شہریت کا ’’سو موٹو‘‘ تو فوری طور پر لے لیا جاتا ہے مگر سینٹ انتخاب
میں نوازلیگ کے خلاف جو منڈیاں لگیں ،اُس پر کوئی سوموٹو نہیں لیا جاتا‘‘۔
اُنہوں نے کہا کہ اﷲ کے بعد سب سے بڑی عدالت عوام کی ہے۔ عوام کی عدالت اب
بھی نوازشریف کے حق میں فیصلہ دے رہی ہے اور 2018ء کے الیکشن میں بھی عوام
ووٹ کی توہین کرنے والوں سے بدلہ لیں گے۔ نوازشریف کے مخالفین نے ہر بار
فیل ہونے کے باوجود اپنے ’’لاڈلے‘‘ کو بال دیا، گول کیپر بھی ہٹا دیا اور
راستے میں آنے والے کھلاڑیوں کو بھی ٹانگ اڑا کر گرا دیا مگر لاڈلا اتنا
نکما ہے کہ پھر بھی گول نہیں کر سکا۔ سینٹ کے انتخاب میں جب نون لیگ کی
شناخت چھین لینے کے باوجود معاملہ حل نہیں ہواتو دوہری شہریت کا مسلٔہ
اُٹھا دیا گیا۔ مریم نواز نے کہا ’’ڈیڑھ سال میں نوازشریف کا پانچ بار
احتساب ہوچکا ہے۔ نہ پہلے کچھ ملا ،نہ اب کچھ ملے گا۔ نوازشریف کو پہلے
نااہل کیا گیا،پھر صدارت سے ہٹایا گیا، اِس پر بھی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ
ہوئی تو سینٹ الیکشن میں نوازشریف کے نامزد کردہ اُمیدواروں سے شناخت چھین
لی گئی۔ سرگودھا میں نوازلیگ کے اُمیدوار کو شیر کی بجائے ویگن کا نشان دیا
گیا مگر اِس کے باوجود اُمیدوار 20 ہزار کی لیڈ سے جیت گیا۔سازشیں کرنے
والوں کو اب تو جان جانا چاہیے کہ عوام شیر کے نشان کو نہیں بلکہ اُسے ووٹ
دیتے ہیں جس پر نوازشرف ہاتھ رکھتا ہے‘‘۔ محترمہ مریم نواز کا یہ خطاب
عدلیہ کے خلاف کھُلی جنگ کے مترادف ہے جس میں ملک کا بھلا ہے نہ قوم کا
لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ نوازلیگ کے خلاف عدلیہ کے فیصلے متنازع اور یوں
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خاکم بدہن یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔
کوئی مانے یا نہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ نااہلی کے بعد سے اب تک میاں
نوازشریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لاہور کے حلقہ 120 کے
ضمنی انتخاب میں شدید علیل محترمہ کلثوم نواز اپنے حلقۂ انتخاب میں ایک دِن
بھی نہیں گئیں ،شدید غلط فہمیوں کی بنا پر حمزہ شہباز نہ صرف الیکشن کیمپین
سے الگ رہے بلکہ ملک چھوڑ کر باہر جا بیٹھے ۔اِس کے باوجود بھی محترمہ
کلثوم نواز قابلِ ذکر لیڈ سے انتخاب جیت گئیں۔ چکوال کے ضمنی الیکشن میں
نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق محیرالعقول
تھا۔ لودھراں کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو بری
ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ نوازلیگ کے کسی بھی قابلِ ذکر رَہنماء نے
اُس حلقے کی طرف دیکھاتک نہیں ۔سرگودھا میں PP-30 کا ضمنی الیکشن تو سبھی
کو حیران کر گیاکیونکہ الیکشن سے محض چار، پانچ روز قبل عدلیہ کے ایک فیصلے
کے تحت اُمیدوار کو آزاد قرار دے کر اُس سے شیر کا نشان چھین لیا گیا لیکن
پھر بھی نون لیگ کا اُمیدوار لَگ بھگ دوگنے ووٹوں کے مارجن سے جیتا۔ اِسی
حلقے کے بارے میں عمران خاں نے کہا تھا کہ عام انتخابات سے قبل یہ آخری
انتخاب ہے جس کی نگرانی وہ خود کریں گے اور انتخاب جیت کر دکھائیں گے۔
نااہلی کے بعد میاں نوازشریف کا استقبال کرنے والوں کی تعداد بھی انتہائی
حیران کُن رہی۔ اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور تک کا چار گھنٹوں کا
سفر چار دنوں میں طے ہوااور جی ٹی روڈ پر عوام کا جمِ غفیر اُن کے لیے دیدہ
ودِل فرشِ راہ کیے محوِ انتظار رہا۔ پشاور اور مظفرآباد کے اجتماعات خود
میاں نوازشریف کے لیے حیرانی کا باعث تھے۔ 9 مارچ کو بہاولپور کا تاریخ ساز
اجتماع ایسا کہ کسی نے دیکھا نہ سُنا۔ اِس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میاں
نوازشریف نے کہا ’’ پاکستان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
میں 70 سال سے چلنے والی پالیسیوں سے بغاوت کرتا ہوں۔ میں باغی ہوں،اپنا حق
چھین لوں گا، ووٹ پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دوں گا‘‘۔ ہم انہی کالموں میں متعدد
بار لکھ چکے کہ میاں نوازشریف کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے گی، اُتنا ہی
وہ ابھر کر سامنے آئیں گے۔ ہمارا کہا سچ ثابت ہوا اور آج میاں نوازشریف
اپنی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اُن کا ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا
نعرہ دِن بدن مقبول ہوتا جا رہا ہے لیکن شاید ہماری انتہائی محترم اعلیٰ
ترین عدلیہ کو اِس کا ادراک نہیں۔ یہ عین حقیقت ہے کہ دَورانِ سماعت محترم
جسٹس صاحبان کے ریمارکس ایسے ہی ہوتے ہیں ،جیسے وہ بھی کسی سیاسی جماعت سے
تعلق رکھتے ہوں ۔ اگر ججز خود نہ بولتے، اُن کے فیصلے بولتے تو شاید نوبت
یہاں تک نہ پہنچتی۔ لیکن کیا کیجئے کہ انتہائی محترم چیف جسٹس میاں ثاقب
نثار کہتے ہیں کہ اُنہیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں، وہ لوگوں کو سہولت دینے
کے لیے ایسے کام کرتے رہیں گے۔ دست بستہ عرض ہے کہ اگر بات لوگوں کو سہولت
دینے کی ہو تو پوری قوم اُن کی دست وبازو لیکن ایسے ریمارکس نہیں جو دِل
آزاری کا باعث ہوں۔ 8 مارچ کو اُنہوں نے سرکاری اشتہارات پر خرچ کیے گئے 55
لاکھ روپے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اپنی جیب سے قومی خزانے میں
جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’کیا یہ بادشاہت ہے؟۔ الیکشن قریب ہے
اور سرکاری خزانے سے اشتہارات چلائے جا رہے ہیں۔ اگر باقی دنیا میں ایسا
ہوتا ہے تو بتایا جائے‘‘۔ جب صوبائی سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ
وزیرِاعلیٰ پہلے ہی رضاکارانہ طور پر اپنی جیب سے ادائیگی کر رہے ہیں تو
چیف جسٹس صاحب نے ادائیگی کی رسید پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ اگر انتہائی
محترم چیف صاحب پہلے ہی یہ تصدیق کر لیتے کہ رقم سرکاری خزانے سے جا رہی ہے
یا وزیرِاعلیٰ کی جیب سے تو شاید ایسے ریمارکس کی ضرورت پیش نہ آتی۔ |