ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب
حکومت نے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظور کیا، قانون میں کوئی لفظ یوں ہی
شامل، نکالا یا تبدیل نہیں کیا جاسکتابلکہ ہر عمل کا ایک باقاعدہ مقصد ہوتا
ہے۔جب بھی عدالت کسی قانون کی تعبیر کی ذمہ داری ادا کرنے بیٹھتی ہے، یہ اس
کے سامنے بنیادی مفروضہ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پہلے سے موجود قانون میں کسی
لفظ کی تبدیلی کی جائے تو عدالت لازماً اس تبدیلی کا مقصد دیکھتی ہے، تاکہ
قانون میں واضح تعبیر اختیار کی جائے۔جہاں تک ختمِ نبوت سے متعلق قوانین کی
بات ہے تو اس کا اقرار باقاعدہ بیانِ حلفی کے طور پر کیا جاتا تھا، جسے بعد
میں تبدیلی کے ذریعے ایک بیان کی حیثیت دے گئی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جھوٹ
نکلنے کی صورت میں اس کی بنیاد پر بیان دینے والے کے خلاف دستور کی دفعہ 62
کے تحت نااہلی کا مقدمہ قائم نہیں ہوسکتاتھا۔ البتہ اگر بیانِ حلفی بعد میں
جھوٹا ثابت ہوجائے تو ایسا شخص دستور کی دفعہ 62 کی رو سے نااہل ہوسکتا ہے۔
اور اس تبدیلی کا سہرا مسلم لیگ نون کے سر جاتا ہے جس کا خمیازہ انہوں نے
بہت جلد ہی بھگت لیا بعض تو نواز شریف سے فرض منصبی چھن جانے کا بھی اسے
ایک اہم سبب قرار دیتے ہیں۔ان تبدیلیوں کے باوجود کہ نامزدگی فارم کے آخر
میں مذکور ہے کہ فارم بھرنے والا شخص حلفاً تصدیق کرتا ہے کہ فارم میں کی
گئی تمام اندراجات اس کے علم اور یقین کی حد تک درست ہیں۔ اس بنا پر ختمِ
نبوت کا وہ بیان بھی بیانِ حلفی بن جاتا ہے۔ دراصل فارم کے آخر میں یہ بیانِ
حلفی پہلے ہی سے موجود تھا اور جس کسی نے بھی پہلی دو تبدیلیاں کیں، اس کی
توجہ اس طرف نہیں گئی۔ حکومت کے مدافعین کو ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ
بیان کر نی چاہیے تھی۔ قانون میں یہ خطرناک تبدیلیاں اس بات کا ثبوت تھی کہ
ان کے ذریعے حکومت نے قادیانی لابی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔اور یہ انکی
بدنیتی کا کھلا ثبوت ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے صدارتی آرڈر کے ذریعے 2002ء کے
الیکشن کے لیے قواعد وضوابط متعین کیے تھے۔ اس آرڈر کو بعد میں سترھویں
دستوری ترمیم کے ذریعے مستقل قانون کی حیثیت مل گئی تھی۔ 2002ء میں مخلوط
طرزِ انتخاب رائج کیا گیا اس سے پہلے مسلمان امیدوار کو مسلم ووٹرز اور غیر
مسلم اقلیتی امیدوار کو غیر مسلم ووٹرز ہی ووٹ دیتے تھے۔مخلوط انتخابات میں
یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں قادیانی ووٹر اب ووٹرلسٹ میں اندراج کے ذریعے خود
مسلمان نہ کہلوانا شروع کردیں۔ اس خدشے کے پیشِ نظر جنرل مشرف کو اس صدارتی
آرڈر میں دفعہ 7 بی اور دفعہ 7 سی کا اضافہ کرنا پڑا۔
دفعہ 7 بی میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ مخلوط طرزِ انتخاب کے باوجود
قادیانیوں کی قانونی حیثیت غیرمسلم ہی کی رہے گی، جیسا کہ دستورِ پاکستان
میں طے پایا ہے۔دفعہ 7 سی میں یہ قرار دیا گیا کہ اگر کسی ووٹر پر کسی کو
اعتراض ہو کہ اسے مسلمان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ درحقیقت وہ قادیانی گروپ سے
تعلق رکھتا ہے تو اس ووٹر پر لازم ہوگا کہ وہ مجاز اتھارٹی کے سامنے ختمِ
نبوت پر ایمان کے متعلق اس طرح کا بیانِ حلفی جمع کرائے جیسے مسلمان کرتے
ہیں۔ مزید یہ کہ ایسا بیانِ حلفی جمع کرانے سے انکار کی صورت میں اسے
غیرمسلم تصور کیا جائے گا اور اس کا نام مسلمانوں کی ووٹرلسٹ سے نکال دیا
جائے گا۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ اگر ایسا ووٹر مجاز اتھارٹی کے سامنے پیش
ہی نہ ہو، باوجود اس کے کہ اسے باقاعدہ نوٹس مل چکا ہو، تو ایسی صورت میں
اس کے خلاف قضاء علی الغائب کے اصول پر فیصلہ کیا جائے گا۔2002ء کے قانون
کی دفعہ 7 (ذیلی دفعہ بی) کی منسوخی کے باوجود قادیانی گروپ سے تعلق رکھنے
والے لوگوں کی حیثیت بدستور غیرمسلم ہی رہتی کیونکہ ان کی یہ حیثیت دستور
نے متعین کی ہے اور جب تک دستور میں ترمیم کرکے اس قانونی حیثیت کو تبدیل
نہ کیا جائے کسی بھی قانون میں تبدیلی یا نئے قانون کے بعد بھی ان کی حیثیت
بدستور وہی رہتی البتہ اس طرح کے قانون سے قانون بنانے والوں کی نیت تو صاف
ظاہر ہورہی تھی.۔سب سے خطرناک حقیقت یہ تھی کہ 2002ء کے قانون کی دفعہ 7
(ذیلی دفعہ سی) کی منسوخی کے بعد اب قادیانی گروپ کے کسی ووٹر کو مسلمانوں
کی ووٹرلسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ باقی نہیں رہا تھا۔یہ ایک لمحہ
فکریہ تھا۔
آفرین ہے پاکستانی عوام کی ہمت و جرأت پہ اس نے کبھی ختم نبوت اور عقیدہء
رسالت کے معاملے پر سمجھوتا نہیں کیا۔ پورے ملک میں ایک شدید احتجاج کی لہر
پیدا ہوگئی۔ بعض تنظیموں کی طرف سے اس ضمن میں واضح احتجاج دیکھنے میں آیا
یہ ایک مسئلہ تھا جس پر پوری مسلم کمیونٹی ایک تھی اور نواز حکومت کو پیچھے
ہٹنا پڑا اور اس گھمبیر معاملے کا عدالت عالیہ نے ازخود نوٹس لے لیا۔ یہ
قانونی تبدیلیاں 2017میں منظور کی گئیں۔ جن پر کافی عرصہ عدالتی کاروائی
چلی اور بالاخر9مارچ 2018کو ختم نبوت قانون میں ترمیم کے خلاف دائر
درخواستوں پر مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا.عدالت نے کہا ہے کہ موجودہ
حکومت اور ارکان اس بات کو یقنی بنائیں کہ مذہبی شناخت کے حوالے سے جو
کوائف دیئے جائیں وہ درست ہوں۔ جسٹس شوکت عزیز نے اپنے عدالتی فیصلے میں
کہا کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے
جائیں، کیونکہ ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے اور اس کی حفاظت ہر مسلمان پر
لازم ہے۔‘ دین اسلام اور ملکی آئین میں غیر مسلموں کو حقوق دیئے گئے ہیں
اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی
بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں
میں بھی طلبا کو اسلامیات اور دینیات کا مضمون پڑھانے کے لیے مسلمان اساتذہ
کی شرط کو لازمی قرار دیا جائے۔ ملکی آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف
موجود ہے لہذا اس تعریف پر مبنی بیان حلفی کو لازمی قرار دیا جائے۔ نیز یہ
کہ برتھ سرٹیفکیٹس، شناختی کارڈ، انتخابی فہرستوں اور پاسپورٹ کے حصول کے
لیے مسلم اور غیر مسلم کی مذہبی شناخت کے حوالے سے بھی حلفیہ بیان لیے
جائیں۔
عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت کے دوران پیش کی جانے والی رپورٹس کے حوالے سے
ریمارکس دیئے کہ نادرا ریکارڈ اور مردم شماری کے اعداد و شمار میں خوفناک
حد تک فرق ہے جس کی تحقیقات کی جائے جبکہ نادرا شہریوں کے لیے مذہب کی
درستگی کرانے کے لیے ایک مدت کا تعین کرنا فوری ضروری ہے۔ اسلام آباد ہائی
کورٹ نے فیصلے میں ریمارکس دیئے کہ ہر پاکستانی شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ
درست شناخت بتائے اور اپنی شناخت چھپانے والا شہری ریاست کے ساتھ دھوکہ دہی
کا مرتکب ہوتا ہے۔ پوری قوم جسٹس شوکت کے اس عمل کو سراہتی ہے اور ایک بار
طاغوتی قوتوں کو یہ ثابت کرنے میں کامیابی ہوئی کہ ختم نبوت اور عقیدہ
رسالت پر مسلمان کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتا کرنے کو قطعی تیار نہیں اور
پوری قوم اس ایک نقطہ ہر متحد ہے کہ ہماری قومی اور مذہبی سلامتی پر جب بھی
کوئی آنچ آئی اس خطے کے ہر کونے سے شیر جاگ اٹھیں گے۔اسلام دشمن طاقتیں ہر
ممکن طریقے سے اپنے صیہونی وار کرتی آئی ہیں ہمیں ہمیشہ اپنے عقیدے اور دین
کی حفاظت کے لیے الرٹ اور متحد رہنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: ڈاکٹر رابعہ اختر
|