آج جنرل ایوب مرحوم کی روح بہت خوش ہو گی کہ جو خواب وہ
اور ان کے جانشین دیکھتے رہے،آج وہ خواب اپنی تعبیر اور '' مکمل فتح'' سے
قریب ترین ہے۔'' نئے پاکستان'' کے ان تخلیق کاروں کی یہی کوشش اور خواہش
رہی کہ حکومت سویلین ہو لیکن ان کے احکامات کی آئین و قانون کی طرح ہی نہیں
بلکہ ایمان کے طور پر بجا آوری کی جائے۔پہلے مارشل لگانا پڑتا تھا،پھر
سیاسی شطرنج کے مہرے سجائے جاتے تھے ،پھر انہیں مضبوط بناتے ہوئے انہیں
حکومت میں لایا جاتا تھا پھر کہیں جا کر ایسی''سول حکومت'' قائم ہوتی تھی
جو ان کے کہے ہی نہیں بلکہ اشارے کو بھی ملک و عوام کا بہترین مفاد قرار
دیتے ہوئے پورے '' قومی جذبے '' سے اس کی تکمیل میں تن،من،دھن سے مصروف
رہتے تھے۔
عالمی و علاقائی حالات بدلے،حقائق بدلے تو پاکستان میں'' کمانڈ اینڈ کنٹرول''
کے رواجی طریقہ کار کی جگہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا مستقل نظام
متعارف کرانے کی فکر لاحق ہوئی جس میں مارشل لاء لگائے بغیر ہی ''زبانی
ہدایات و احکامات'' کی تکمیل کو مقدس درجہ دے دیا جائے۔اس کے لئے نئے قومی
مقاصد و اہداف کا تعین ہوا،ظاہری و خفیہ اہداف کی تکیمل کی راہ میں مزاحم
عناصر کو مغلوب ا ور تابعدار بنایا گیا جس میں فراہمی انصاف کے محکموں اور
اداروں سمیت میڈیا بھی شامل ہے۔یہ بتانا ضروری نہیں کہ ہماری سیاست کو بھی
فتح کر لیا گیا ہے۔اب عوامی پارلیمنٹ کی بالادستی کی محض علامت ہی باقی بچی
ہے ،ضمانت ہونے کا نام و نشان بھی نہیں۔
ملکی ہی نہیں ،مغربی دانشور بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کے لئے سیاسی
استحکام ناگزیر ہے لیکن ہماری سیاست ،بحیثیت مجموعی ایسے گروپوں کے طور پر
نظر آ رہی ہے جو حکومت میں حصہ ملنے کے لئے کسی بھی قسم کا '' عہد و
پیماں'' کرنے کو تیار ہیں۔دوسری طرف سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں کے تخلیق
کار اپنی'' پرانی فصل'' کار آمد ثابت نہ ہونے پر نئی فصل کا تجربہ دوبارہ
دہراتے نظر آتے ہیں۔تخلیق کاروں کی طرف سے سیاست کی موجودہ تمام فصلوں کو
ملک و عوام کی صحت کے لئے مضر بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ملک کی بیرونی اور
اندرونی پالیسیوں میں ملک کو سویلین قابلیت کے استفادے کی دولت سے محروم کر
دیا گیا ہے۔
ملکی صورتحال میں قائد اعظم کی 10جون1948ء کو کوئٹہ سٹاف کالج کی گئی تقریر
یاد آتی ہے،جس میں بانی پاکستان نے کہا کہ
"One thing more, I am persuaded to say this because during my talks with
one or two very high-ranking officers I discovered that they did not
know the implications of the Oath taken by the troops of Pakistan. Of
course, an oath is only a matter of form; what are more important are
the true spirit and the heart.But it is an important form, and I would
like to take the opportunity of refreshing your memory by reading the
prescribed oath to you. “I solemnly affirm, in the presence of Almighty
God, that I owe allegiance to the Constitution and Dominion of Pakistan
(mark the words Constitution and the Government of the Dominion of
Pakistan) and that I will as in duty bound honestly and faithfully serve
in the Dominion of Pakistan Forces and go within the terms of my
enrolment wherever I may be ordered by air, land or sea and that I will
observe and obey all commands of any officer set over me…..” As I have
said just now, the spirit is what really matters. I should like you to
study the Constitution, which is in force in Pakistan, at present and
understand its true constitutional and legal implications when you say
that you will be faithful to the Constitution of the Dominion. I want
you to remember and if you have time enough you should study the
Government of India Act, as adapted for use in Pakistan, which is our
present Constitution, that the executive authority flows from the Head
of the Government of Pakistan, who is the governor-general and,
therefore, any command or orders that may come to you cannot come
without the sanction of the Executive Head. This is the legal position."
کیا معلوم تھا کہ قائد اعظم نے جنہیں آئین و قانون کا وفادار رہنے کی تلقین
کی،اس کا حلف لیا،ایک دن آئے گا کہ جب انہیں پابند رہنے کے بجائے ملک کے
تمام شعبوں کو اپنا پابند بنانا پڑے گا،اسی کو ملک سے وفاداری قرار دیا
جائے گا اورانہیں ہی ملک کے ہر شعبے کو یہ بتانا پڑے گا کہ ملک اور عوام کا
مفاد اعلی کیا ہے۔صرف بتانا ہی نہیں بلکہ ملک و عوام کو کسی بھی طریقے سے
اس پر چلانے کا بھی مکمل اور مربوط اہتمام کرنا پڑے گا۔عوام کو مسلح دہشت
گردی اور مذہبی جنونیت سمیت،ایسے تمام خطرات کا احساس دلایا گیا ہے جو ملک
کو تباہ کر سکتے ہیں۔یہ خطرات ایسے بند دروازوں کی مانند ہیں جنہیں کسی بھی
وقت کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے۔سیاسی چالوں میں مذہب کا استعمال مسلح
دہشت گردوں کی جنونیت کی طرح ہی لوگوں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔
ملک بیک وقت دہشت گردی،غیر ملکی سازشوں کے ساتھ ساتھ ملکی اختیارات و
حاکمیت کی جنگوں میں بھی الجھا نظر آتا ہے۔خارجہ تعلقات میں یہ صورتحال
درپیش ہے کہ ہر اہم ملک اہم امور سے متعلق سول حکومت سے بات کرنا فضول
سمجھتے ہوئے ملک کی مقتدر طاقت سے ہی بات چیت کرتے ہوئے معاملات چلائے جاتے
ہیں۔ملک کے اہم ترین امور ہی نہیں بلکہ سلامتی سے متعلق غیر ملکی اعلی سطحی
رابطوں اور سمجھوتوںمیں بھی سول حکومت کو بے خبر ،لاتعلق رکھے جانے کی
صورتحال کو '' حساس'' معاملہ قرار دیتے ہوئے مخفی نہیں رکھا جا سکتا۔عوام
کو ناقابل بھروسہ یا خطرہ قرار دینے سے ملک کی بہتری کا تصور بھی نہیں کیا
جا سکتا۔عوامی مفاد کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دینااور عوامی مفاد کو غیر
ضروری تصور کرنا ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لئے کافی ہے۔ |