شاعری کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ قدیم و جدید
شعرائے ادبِ اردو نے اپنے کلام میں جن الفاظ کا بکثرت استعمال کیا وہ
آنکھیں، پھول اور کتابیں ہیں۔ پھول کے لیے گل، آنکھ کے لیے چشم، نین، دیدہ
کے الفاظ بھی استعمال میں آئے۔
ان تینوں موضوعات میں بہت سی قدرِ مشترک ہیں مثلاً کتاب میں خیالات کا
سمندر ہوتا ہے تو آنکھوں میں جذبات و احساسات اور آنسوؤں کا سمندر نظر آتا
ہے۔ آنکھیں پھول اور کتابیں کھلتی ہیں بند ہوتی ہیں پیغام دیتی ہیں اور
پیغام رسانی کرتی ہیں، آنکھوں میں بھی سوال و جواب ہوتے ہیں اور کتابوں میں
بھی سوال و جواب ہوتے ہیں۔ کھلتے پھول، غنچے اور کلیاں بھی پیغام بری کرتی
ہیں۔ ان سب سے زندگی کی رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ یعنی خوشی غم، محبت، نفرت،
دکھ درد، خوشی و مسرت، سکون اور بے چینی، بہار اور خزاں کے رنگ، سرخوشی اور
تلخیاں، معذرت، مروت، چشم پوشی، باریک بینی، تلخیاں اور راحتیں، یہ سب
آنکھ، پھول اور کتابوں میں اظہار پاتے ہیں۔
پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہیں اور خوشبو بھی، پھول خوشی کے اظہار کے لیے
گلے میں ڈالے جاتے ہیں، سہرے میں سجائے جاتے ہیں، دلہن کا زیور ہوتے ہیں،
گل پاشی کی جاتی ہے گلدستے تحفے میں دیے جاتے ہیں اور گُل دائرے مرقد پہ
چڑھائے جاتے ہیں غم کے اظہار کے طور پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ پھول کے
رنگ بھی پیغام رساں ہوتے ہیں مثلاً سفید پھول پاکیزگی و صلح کی، رنگین پھول
جذبات و محبت کی، زرد پھول جدائی اور غم کی، نرگس کے پھول انتظار کی علامت
سمجھے جاتے ہیں۔ سوکھے ہوئے پھول ماضی کی، غنچے مستقبل کی اور کھلتے گلاب
حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کتابوں میں ورق ہوتے ہیں تو آنکھوں میں جھروکے، پھولوں میں پنکھڑیاں کلی کی
مسکراہٹ ہوتی ہیں، آنکھیں بھی مسکراتی ہیں اور اظہارِ غم بھی کرتی ہیں کتاب
کے قاری ہوتے ہیں تو چہرہ پڑھنے والے نظر شناس بھی ہیں۔ کتاب کا محافظ
سرورق یا غلاف ہوتا ہے تو پلکیں آنکھوں کی حفاظت کرتی ہیں، پھول کی پتیوں
کی بیرونی سطح پر سبز پتیاں ہوتی ہیں جو کلی کے پھول بننے تک اس کی حفاظت
کرتی ہیں۔
کتابوں میں یادوں، افکار و خیالات و تجربات کی مہک ہوتی ہے آنکھوں میں کاجل
اور مسکارہ کی خوشبو، پھولوں کی خوشبو سے گلستان مہک جاتا ہے اور تتلیاں ان
کے گرد رقص کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں ان الفاظ کا استعمال
بکثرت نظر آتا ہے کہیں بطور لفظ، کہیں بطور ترکیب اور کہیں بطور علامت۔
شعرا نے انھیں الگ الگ بھی استعمال کیا ہے اور کہیں ایک ہی شعر میں اکٹھا
کر دیا ہے۔
عہدِ جدید کے شعرا میں فیض احمد فیضؔ کا ایک مقام ہے ان کے کلام سے انتخاب
ملاحظہ فرمایئے۔(۱)
پھول:
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں آنے کا نام
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگِ لب سے ہے
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
:
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمھارے بام پر آنے کا نام
ملال کا مظہر یہ ہے:
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پروکر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
تیری دہلیز پر سجا آئے
پروینؔ شاکر ہماری مشہور شاعرہ تھیں خواتین کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی،
حساس دل کی مالک تھیں، انھوں نے بھی جابجا اپنے اشعار میں پھول، خوشبو اور
کتاب کا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ اپنے مجموعاتِ کلام کا نام بھی ’’خوشبو‘‘ ،
’’صدبرگ‘‘رکھا، ان کے کلام میں کتاب کا لفظ، لغوی معنوں میں کم اصطلاحی
انداز میں زیادہ استعمال ہوا
۔ ملاحظہ فرمایئے۔(۲)
پھول:
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کوئی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں اس دن سے حراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو نہ کتابوں میں رکھے کوئی
کتاب: پروینؔ کے کلام میں کتاب کئی حوالوں سے موجود ہے مثلاً
:
ہوا سے خشک کتابوں کے اڑ رہے ہیں ورق
مگر میں بھول چکی ہوں سب ان کے سبق
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
اناپرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کہ بند میری ہر کتاب کر دے گا
ایک اور مثال، خوبصورت مثال دیکھیے۔
یاد تو، ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف پر رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح
کون جانے تو نئے سال میں کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے کتابوں کی طرح
پنجاب کی سرسبز و شاداب وادیوں میں بسنے والی شاعرہ شہنازؔ مزمل بھی آج کی
آواز ہیں کہتی ہیں۔(۳)
پھول228 آنکھیں
:
چارہ گر چارہ گری کرتا رہا کرتا رہا
پھر بھی امید کے پھولوں کو بکھرتا دیکھا
وہ گیا تھا تو ہمیں یاد بھی آتا نہ کبھی
جھیل سی آنکھوں میں اس کو ہی اترتا دیکھا
ڈاکٹر فرمان فتح پوری ماہرِ لسانیات،تنقید و تحقیق ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر
بھی تھے اور قدیم شعرا کے رنگ میں شعر کہتے تھے پھول اور آنکھیں ان کی
شاعری میں بھی جلوہ گر ہیں۔(۴)
پھول228 آنکھیں
:
ڈھونڈتا تھا جن کو میں تتلیوں میں پھولوں میں
میرے دل کا کانٹا تھا مل گیا ببولوں میں
تیرے پیار کے سپنے میری آنکھ میں جیسے
راہ گیر گھِر جائے ریت کے بگولوں میں
دیکھتے کیا ہو کسی کے آنکھ لگنے کا مآل
سینکڑوں فتنے ذرا سی بات میں نکلے تو ہیں
کیا عجب اک دن یہی بن جائیں یادوں کے گلاب
سرخ دانے زخم احساسات میں نکلے تو ہیں
اقبالؔ عظیم سے کون واقف نہیں بینائی کے زیاں نے انھیں حساس بنا دیا اور دل
سوزی و دردمندی ان کی زندگی اور شاعری میں در آئی۔(۵)
آنکھیں
:
ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
جو دیدہ ور ہیں انھیں بھی نظر نہیں آتا
ہم پیاسوں کے میخانہ میں یوں جام چلے ہے
آنکھوں سے چھلک جائے ہے جب شام ڈھلے ہے
پھول228 آنکھیں
:
کانٹوں سے بچ کے شاید کوئی گزر بھی جائے
پھولوں سے اپنا دامن کیسے کوئی بچائے
ملتے ہی آنکھ آنسو پلکوں پہ جھلملائے
اظہارِغم کی جرأت کوئی کہاں سے لائے
پھول:
یہ بات بات میں خوشبو شگفتہ پھولوں کی
یہ خوشگوار فضا، یہ سماں ملے نہ ملے
یہاں سے جائیں کہاں ہم خلوص کے مارے
کہیں یہ انجمنِ دوستاں ملے نہ ملے
مشفقؔ خواجہ مرحوم صحافی، محقق، نقاد، مزاح نگار کی حیثیت سے زیادہ مشہور
ہوئے، لیکن ان کے کلام میں بھی تجربات و واقعات کی خوبصورت عکاسی ہے۔(۶)
آنکھیں:
خواب آنکھوں میں ہیں بن برسی گھٹائیں جیسے
اور آنکھیں کسی تپتے ہوئے صحرا کی طرح
چشمِ خوباں کے اشاروں پہ تھا مرنا جینا
اور بنتے تھے بگڑتے تھے مقدر کیا کیا
گزر گئے ہیں جو دن اُن کو یاد کرنا کیا
یہ زندگی کے لیے روز روز مرنا کیا
بجھے ہوئے در و دیوار کو بھی رونق دے
یہ خواب بن کے میری آنکھ میں اترنا کیا
صہباؔ اختر کی شاعری میں موجوں کی روانی ہے انھوں نے کتاب کو موضوع بنایا
اور ایک طویل نظم لکھی اس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔(۷)
کتاب:
کتابوں کی تقدیس ہے لاجواب
کتابوں میں شامل ہے ام الکتاب
کتابیں اجالوں کی پیغامبر
کتابیں ستاروں کی نورِنظر
کتابیں رخِ زیست کا آب و رنگ
تکلم، تبسم، ترنم ترنگ
کتابوں میں دنیا کی دانش بھی ہے
الوہی اجالوں کی بارش بھی ہے
ڈاکٹر فاطمہؔ حسن انجمن ترقی اردو کراچی سے وابستہ ہیں کہتی ہیں۔(۸)
آنکھیں
:
آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں
نوجوان شعرا میں ایک نیا نام توقیرؔ تقی کا سامنے آتا ہے منجھے ہوئے شاعر
ہیں اور طبیعت کی اٹھان کہہ رہی ہے کہ شعر کی دنیا میں ایک مقام حاصل
ہے۔(۹)
آنکھ228 چشم
:
نہ خود سے شکایت نہ چشمِ تر سے اُسے
میں دیکھتا ہوں، نہ دیکھی ہوئی نظر سے اُسے
یہ اس کی آنکھ تھی دنیا سے دل لگائے ہوئے
یہ اپنے اشک تھے اک عمر تک جو ترسے اُسے
پروفیسر رضیہ سبحان قریشی انگریزی و اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتی
ہیں۔(۱۰)
آنکھ
:
اشک آنکھوں میں لرزاں ہوئے ہیں
ان سے پھر عہد و پیماں ہوئے ہیں
میری آنکھوں میں ایک تارہ سا
ہے ترے غم کا استعارہ سا
پھول:
شوخی صبا کی پھول کو بدنام کر گئی
کس کی خطا تھی بلا کس کے سر گئی
کھلتی ہوئی کلی کی سی مسکان آپ کی
دامن کسی غریب کا پھولوں سے بھر گئی
واصلؔ عثمانی نے نعتیں بھی کہیں نظمیں بھی، غزل میں بھی طبع آزمائی کی،
پابند شاعری بھی کی اور آزاد شاعری بھی۔ سوز دروں بھی ہے یادوں کی تابش اور
مہجوری بھی۔ کہتے ہیں۔(۱۱)
آنکھ
:
تیری آنکھوں سے چھلکتی ہوئی گل رنگ شراب
ساری دنیا سے نہ بیگانہ بنا دے مجھ کو
لوگ غیروں کو بھی آنکھوں میں بٹھالیتے تھے
وہ بھی ایک دور تھا اِس دورِستم سے پہلے
آپ کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھے جاتے
یہ سزا آپ نہ دیں شکوہ غم سے پہلے
سید معراج جامیؔ رسالہ کے مدیر بھی ہیں مصنف و شاعر بھی انھوں نے پوری ایک
نظم ’’میرے بچے مری کتابیں‘‘ لکھی دو شعر ملاحظہ کیجیے۔(۱۲)
آنکھیں:
کل رات چاند نے جو سنایا غمِ حیات
میں کچھ نہ کرسکا اُسے کاغذ پہ لکھ دیا
یہ شاعری نہیں ہے فقط اتنی بات ہے
آنکھوں نے جو کہا اسے کاغذ پہ لکھ دیا
شوکت علی عنقاؔ نوجوان نسل کے نمائندہ ہیں۔ شاعری میں دل کو چھولینے والی
کیفیت ہے کہتے ہیں۔(۱۳)
آنکھیں
:
پیا ہے اس قدر آنکھوں سے تیری
کہ اب دنیا سے غافل ہوگیا ہوں
سنا ہے قتل کردیتی ہیں آنکھیں
تجھے دیکھا تو قائل ہوگیا ہوں
تری آنکھوں کے دروازے کھلے تھے
سو تیرے دل میں داخل ہوگیا ہوں
پھول:
کیا ہے اچھا یہاں برا کیا ہے
ایسی باتوں کا فائدہ کیا ہے
پھول رکھتے بھی ہو کتابوں میں
پڑھ کہ دیکھا بھی ہے لکھا کیا ہے
ظہور الاسلام جاویدؔ کہتے ہیں۔
پھول
:
میں اس کے واسطے جس درجہ بے قرار ہوں آج
وہ میرے واسطہ اس درجہ بے قرار نہیں
اسے بھی شوق نہیں ہے گلاب بننے کا
مجھے بھی فصلِ بہاراں کا انتظار نہیں
میاں محمد سعید میاںؔ اور سعیدؔ دو تخلص رکھتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر شاعروں کی
ویب سائٹ بنائی ہے ان کے چند شعر درج ہیں۔(۱۴)
آنکھ
:
مہہ جبینوں سے نبھائے رکھنا
اُن کو آنکھوں میں بسائے رکھنا
اشک بار آنکھ کو کرنا اور پھر
فصلِ خوابوں کی اُگائے رکھنا
اس کی عادت ہے میاںؔ سب سے الگ
آنکھ خود سے بھی چرائے رکھنا
اب کچھ احوال لائبریری سائنس دانوں کی شاعری کا بھی پڑھیے۔
لیاقت علی نایابؔ کا تعلق پشاور یونیورسٹی سے ہے آنکھوں اور پھولوں کے
حوالے سے کہتے ہیں۔(۱۵)
آنکھ 228 پھول
:
میرے دامن میں بھی خاروں کی جگہ گل ہوتے
میں جو پھولوں سے بدلتا نہ پرائے کانٹے
گلشنِ عشق میں پھول تو نایاب نہ تھے
وہ مجھے دینے کو لائے بھی تو لائے کانٹے
مزید کہتے ہیں۔
آنکھ 228 پھول:
ہر زخمِ مندمل سے ٹپکنے لگا لہو
دل میں کچھ ایسے پھول کھلائے بہار نے
کملا کہ وہ بھی پھول فضا میں بکھر گئے
شبنم سے جن کے منہ تھے دھلائے بہار نے
ان کے چہرے ان کی آنکھوں سے عبارت ہیں تمام
خوبیاں جتنی ملیں گی گوہر نایابؔ میں
زین الدین صدیقی زینؔ تخلص کرتے ہیں کہنہ مشق شاعر ہیں چشم و ابرو کے پردے
میں حقیقت بیان کرتے ہیں۔ (۱۶)
آنکھ/چشم /پھول:
آہ وہ آ ہوئے چشم و محراب سے ہونٹ
ایک مدّت سے جنھیں آس میں جلتے دیکھا
گل شگفتہ سی کہاں تھی تری صورت پہلے
ہم نے چاہا تو ترا رنگ نکھرتے دیکھا
جاگتے رہنا سفر میں ہے ضروری ورنہ
آنکھ لگ جائے تو سامان بدل جاتے ہیں
زینؔ یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا میں نے
دوست بن کے بھی مہربان بدل جاتے ہیں
اقبال الرحمن فاروقی قمرؔ تین سو غزلیں کہہ چکے ہیں کہتے ہیں۔(۱۷)
آنکھ
:
دیکھا تھا تم نے جو مجھے حسرت سے ایک بار
آنکھوں سے آج تک وہ نظارا نہیں گیا
ایک عمر ہوگئی ہے ادا کر رہا ہوں میں
اب تک وہ قرض مجھ سے اتارا نہیں گیا
پھول:
آخری رنگ یہ موسم کا اڑے گا کس دن
اب نیا پھول دریچے میں کھلے گا کس دن
کتاب:
پھوٹتے ہیں ہر لمحہ ان سے روشنیوں کے سرچشمے
تم کیا جانو تم کیا سمجھو ان بوسیدہ کتابوں کو
ہمارے دل نے تمھیں ہی تو یاد رکھا ہے
کتابِ دل پہ تمھارا ہی نام لکھا ہے
سید احمد نقوی آزاد شاعری کرتے ہیں مگر پڑھتے ہیں کہتے ہیں۔(۱۸)
آنکھ/ کتاب: نظر میں چند خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے گھر میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
شائستہ چغتائی رقمؔ نے بھی خوبصورت شعر کہے رسالہ وجدان کی ایڈیٹر تھیں
فرماتی ہیں۔(۱۹)
آنکھ
:
منصف کی آنکھ بند تھی انصاف کی طرح
مجرم تھا کوئی اور سزا دے گیا مجھے
پھول:
نہ ہوں افسردہ کیوں پھولوں کے چہرے
ستم پرور ہوائے گلستاں ہے
کتاب:
کتابِ دل کبھی کھول کر پڑھو تو سہی
کہ اس میں دفن ہیں ماضی کے کتنے افسانے
جو سوچیے تو جہاں میں نہیں کوئی اپنا
جو دیکھیے تو سبھی لوگ جانے پہچانے
فاضلؔ جمیلی کا تعلق بھی کتب خانہ داری سے ہے آنکھوں کے بارے میں کہتے
ہیں۔(۲۰)
آنکھیں:
دلدارئ جاناں کو لپکتے چلے جائیں
آنکھوں کے کٹورے بھی چھلکتے چلے جائیں
آنکھوں میں کوئی چاند اترتا چلا جائے
پلکوں پہ ستارے سے چمکتے چلے جائیں
ڈاکٹر نسیم فاطمہ نسیمؔ بھی شاعرہ ہیں مگر ظاہر نہیں کرتیں ان کی غزلیں اور
قطعات مطبوعہ ہیں اور راقمہ کی نظر سے گزرے ہیں۔(۲۱)
آنکھ:
پتھر ہو تو پھوٹے کوئی جھرنا تم سے
قطرہِ اشک بنو آنکھ میں رکھا جائے
تیرے لہجے کی یہ ٹھنڈک تری آنکھوں میں نمی
کون جانے کہ یہ احساس دیا ہے کس نے
شبنمی آنکھوں کو دیکھا ہنس دیا
روتے روتے مسکرانا چاہیے
پھول:
دیکھ تجدیدِ محبت کیسے ہوتی ہے نسیمؔ
اس نے بھیجے ہیں مجھے کچھ پھول مرجھائے ہوئے
کتاب:
غمِ عشق کا، جو حساب دیں
ترے حسن کو بھی نصاب دیں
چلو آج تم کو نواز دیں
ترے ہاتھ میں بھی کتاب دیں
وہ نفرتوں کے عذاب سہہ کر
محبتوں کے گلاب بانٹیں
وہ دشمنوں کو شراب بخشیں
تو دوستوں میں کتاب بانٹیں
بے شمار اشعار مذکورہ موضوعات پر موجود ہیں ان کا احاطہ کرنے کے لیے ایک
پوری کتاب چاہیے۔ کتب خانہ داروں میں بھی شعر فہمی اور شعر گوئی پائی جاتی
ہے ضرورت اس کی ہمت افزائی اور تہذیب کی ہے۔
حوالے
(۱) فیض ہوئے مَر کے امر/ از ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور میاں محمد سعید۔ کراچی:
جمبو پبلشنگ ، ۲۰۱۴ء ص ۱۶۲۔۱۸۶
(۲) خوشبو/از پروین شاکر۔ لاہور: مکتبہ فنون، ۱۹۷۸ء ص ۳۵۲
(۳) شہناز مزمل۔ ’’ادب و کتب خانہ‘‘۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۵ء ص ۱۲
(۴) فرمان فتح پوری۔’’ادب و کتب خانہ‘‘۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۴ء ص ۳۰۔۳۱
(۵) اقبال عظیم۔ مضراب، کراچی: مصنف، ۱۹۷۵ء ص ۹۳، ۱۰۵، ۱۰۷
(۶) مشفق خواجہ۔ ادب و کتب خانہ، کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۲ء ص ۱۶
(۷) صہبا اختر۔ منظومات: کتابیں۔ ادب و کتب خانہ، بزم اکرم، ۲۰۱۲ء ص ۶، ۹
(۸) فاطمہ حسن۔ ادب و کتب خانہ، کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۵ء ص ۱۲
(۹) توقیر تقی۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۴ء ص ۱۸۔۱۹
(۱۰) رضیہ سبحان قریشی۔ سرد آگ۔ کراچی: ذکی پریس، ص ۹۳، ۱۰۰، ۱۰۷
(۱۱) واصل عثمانی۔ سوز جاں۔ کراچی: مصنف، ۲۰۰۹ء ص ۲۴، ۵۵
(۱۲) معراج جامی۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۴ء ص ۲۰۔۲۱
(۱۳) شوکت علی عنقاؔ ۔ شفق درد شفق۔ کراچی: دنیائے ادب، ۲۰۱۱ء ص ۷۰۔۷۳
(۱۴) سعید میاں سعید۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۳ء ص ۲۳
ادب و کتب خانہ، کراچی: بزم اکرم ۲۰۱۵ء ص ۱۷
(۱۵) لیاقت علی نایابؔ ۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۴ء ص ۳۴۔۳۵
(۱۶) زین صدیقی۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۱ء ص ۱۹
(۱۷) اقبال الرحمن فاروقی قمرؔ ۔ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم ۲۰۱۵ء ص
۱۵
(۱۸) سید احمد نقوی۔ غیر مطبوعہ کلام
(۱۹) شائستہؔ چغتائی۔ ادب وکتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۱ء ص ۵
شائستہ چغتائی۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۲ء ص ۲۲
(۲۰) فاصل جمیلی۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۳ء ص ۳۲
(۲۱) نسیم فاطمہ نسیمؔ ۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۱ء ص ۲۷
نسیم فاطمہ نسیمؔ ۔ ادب و کتب خانہ۔ کراچی: بزم اکرم، ۲۰۱۵ء ص ۳۶ |