’’اگر کوئی کہنے والا کہے : حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ربیع الاول میں اور پیر کے دن ولادتِ
مبارکہ کی حکمت کے بارے میں سوال کیا جائے کہ ان کی ولادت رمضان المبارک جو
نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور جس میں لیلۃ القدر رکھی گئی ہے یا دوسرے مقدس
مہینوں یا 15 شعبان المعظم اور جمعہ کے دن میں کیوں نہ ہوئی؟
’’اس سوال کا جواب چار زاویہ ہائے نظر سے دیا جاسکتا ہے :
1۔ ذخیرۂ احادیث میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کے دن د رختوں کو پیدا
کیا۔ اس میں ایک لطیف نکتہ مضمر ہے۔ وہ یہ کہ پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے غذا،
رزق، روزی اور پھلوں اور دیگر خیرات کی چیزوں کو پیدا فرمایا جن سے بنی نوع
انسان غذا حاصل کرتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔ اور ان کو بہ طور علاج بھی
استعمال کرتا ہے اور انہیں دیکھ کر انہیں شرحِ صدر نصیب ہوتا ہے (دلی خوشی
ہوتی ہے)۔ اور ان کے ذریعے ان کے نفوس کو خوشی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ان
کے دلوں کو سکون میسر آتا ہے کیوں کہ (ان کے ذریعے) نفوس اس چیز کو حاصل
کرکے جس پر ان کی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ مطمئن ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب
تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے (کہ اس نے جانوں کو انہی چیزوں کے ساتھ زندہ
رکھا ہوا ہے) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ اَطہر اس مبارک مہینہ
میں اس مبارک دن میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے بسبب اس کے کہ (آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت
کو خیر کثیر اور عظیم برکتوں سے نوازا گیا۔
2۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ربیع کے مہینہ میں ظہور
اس میں واضح اشارہ ہے ہر اس کے لیے جو لفظ ربیع کے اشتقاق، معنی و مفہوم پر
غور کرے کیوں کہ لفظ ربیع (موسم بہار) میں اشتقاقی طور پر ایک اچھا اور نیک
شگون پایا جاتا ہے۔ اس میں نیک شگون یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی گئی۔ اور نیک شگونی کی
کوئی نہ کوئی اصل ہوتی جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ
فرمایا۔ ابو عبد الرحمان صقلی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخض کے لیے اس کے نام
میں اس کا ایک حصہ رکھ دیا گیا ہے یعنی اس کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر
مرتسم ہوتے ہیں۔
3۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع (بہار) تمام موسموں میں انتہائی معتدل اور حسین
ہوتا ہے۔ اور اسی طرح رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت تمام
شرائع میں انتہائی پر اعتدال اور آسان ترین ہے۔
4۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چاہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وجودِ مسعود سے زمان و مکان شرف حاصل کریں نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اُن سے شرف پائیں۔ بلکہ وہ زمان و مکان جس میں براہِ راست آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہو اس کو فضیلتِ عظمیٰ اور دیگر زمان و مکان پر
نمایاں ترین مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ سوائے اس زمان و مکاں کے جن کا اس
لیے استثناء کیا گیا کہ ان میں اعمال کی کثرت کی جائے اور اس کے علاوہ باقی
اسباب کی وجہ سے۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اوقات میں تشریف
لاتے جن کا ذکر (اوپر اعتراض میں) گزر چکا ہے تو وہ بہ ظاہر اس وہم میں ڈال
دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے متشرف ہوئے ہیں۔‘‘
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير
من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 26 - 29
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 67، 68
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 207
4. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله
وسلم : 238
’’اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے
کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس
محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے۔ ۔ ۔ اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور
بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے
لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں
خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے
’’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس
نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا،
فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں : شاہ مظفر الدین
ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاہِ صوفیاء
پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا
کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلاد میں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار
سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار
بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور
تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔‘‘
سير أعلام النبلاء، 16 : 274، 275
، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (621 - 630ه)، 45 : 402 - 405.
ذهبي
’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک
ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ
عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ
(اساتذہ سے) کہتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس
ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔
’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے
اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے
فقیہ اور ماہرِ فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زُہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ
ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اِکتسابِ فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ
میں وفات پائی۔‘‘
حسن المقصد في عمل المولد : 66، سيوطي،
الحاوي للفتاوي : 206، سيوطي،
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم :
238، نبهاني، |