’’اِس نیک عمل کو مستحب گردانا
جائے گا اور اِس کے کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے اور اِس پر اُس کی
تعریف کی جائے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1
: 363
’’یہ بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعتِ مکروہ وہ ہے جس میں
سنت کی بے حرمتی ہو۔ اگر یہ پہلو نہ پایا جائے تو (بدعت) مکروہ نہیں اور
انسان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی حسبِ توفیق اور
حسبِ اِرادہ مسرت و خوشی کے اظہار کے مطابق اجر و ثواب پاتا ہے۔
یہ بدعت ہے لیکن اس بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اِس کے لیے لوگوں سے
سوال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ یہ جانتا ہے یا اُسے غالب گمان ہے کہ اس
کا سوال مسؤل کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا اور وہ خوشی سے سوال کو پورا
کرے گا تو ایسی صورت میں یہ سوال مباح ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ
عمل مبنی بر کراہت نہیں ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1
: 365، 366
’’محافلِ میلاد کے انعقاد کا سلسلہ پہلی صدی ہجری میں شروع نہیں ہوا اگرچہ
ہمارے اَسلاف صالحین عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر سرشار
تھے کہ ہم سب کا عشق و محبت ان بزرگانِ دین میں سے کسی ایک شخص کے عشقِ نبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہنچ سکتا۔ میلاد کا انعقاد بدعتِ حسنہ ہے،
اگر اس کا اہتمام کرنے والا صالحین کو جمع کرنے، محفلِ درود و سلام اور
فقراء و مساکین کے طعام کا بندوبست کرنے کا قصد کرتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ جب
بھی یہ عمل کیا جائے گا موجبِ ثواب ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1
: 364
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے
ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ
اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن
لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید
اپنایا۔‘‘
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس
میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے
کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے
ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنی ولادت کے) عظیم مہینے کی
عظمت کا اِظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے
کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا :
’’یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔‘‘
’’پس اس دن کی عظمت سے اُس ماہِ (ربیع الاول) کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے
کا کما حقہ احترام کریں اور اِس ماہِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس
چیز کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اِسی حوالے
سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میں اولادِ
آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ایک اور فرمان ہے : ’’روزِ محشر آدم علیہ السلام سمیت سب میرے پرچم
تلے ہوں گے۔‘‘
’’زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان
(مہینوں) میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان و
مکاں کی خود اپنی کوئی عظمت و رفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات
و امتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ پس اس پر غور کریں، اﷲ
تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے اور اس کی وجہ سے اللہ
تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطا کی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ
اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیوں کہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ولادت اس روز ہوئی۔
’’لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر
تکریم و تعظیم اور ایسی توقیر و اِحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس اُسوۂ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خصوصی (عظمت کے حامل) دنوں میں کثرت سے نیکی اور
خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تو (حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے)
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتا : حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماہِ
رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ
فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فضیلت والے اوقات کی
عزت افزائی فرماتے تھے ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات (جیسے ماہِ ربیع
الاول) کی بہ قدرِ اِستطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔
’’اگر کوئی کہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضیلت والے
اوقات کی عزت افزائی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی جیسا
کہ اوپر جانا جا چکا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس ماہ کی
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اس طرح عزت افزائی نہیں
کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے مہینوں کی کرتے تھے؟ اس کا
جواب یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لیے تخفیف
اور آسانی و راحت کا بہت خیال رہتا تھا بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں جو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات مقدسہ سے متعلق تھیں۔
’’کیا تو نے حرمتِ مدینہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول نہیں
دیکھا : ’’اے اﷲ! بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا
تھا اور میں مدینہ منورہ کو اُنہی چیزوں کی مثل حرم قرار دیتا ہوں جن سے
ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیے تخفیف اور رحمت کے سبب مدینہ منورہ کی حدود
میں شکار کرنے اور درخت کاٹنے کی کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتِ مقدسہ سے متعلقہ کسی اَمر کو اس کی ذاتی
فضیلت کے باوجود امت کی آسانی کے لیے ترک فرما دیتے۔‘‘
:: المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير من البدع
المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 2 - 1. ابن الحاج،
حسن المقصدفي عمل المولد : 57 - 59۔،سيوطي،
الحاوي للفتاوي : 203، 2044. سيوطي،
سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 371،
372،صالحي،
ابن |