فرعون بنی اسرائیل پر زیتون کا تیل اور گندھک گرم کرو ا
کر ڈالتا رہا مگر بنی اسرائیل نے اس بدبخت کے ظلم برداشت کیے لیکن انہوں نے
اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ نہ موڑا اور نہ ہی فرعون کو سجدہ کیا۔
:بنی اسرائیل نے یہ سب کچھ برداشت کیا مگر رب تعالیٰ کی اطاعت سے منہ نہ
موڑ ا اور فرعون کو سجدہ نہ کیا۔
جب بہت سارے بنی اسرائیل جلادئیے گے تو ہامان نے فرعون کو کہا ان کو مہلت
دے دو اور ذلیل کرکے رکھو۔
جب ہامان نے فرعون سے یہ کہا کہ ان کو مہلت دے دہو اور ان کو دنیا میں ذلیل
کرکے رکھو تب فرعون نے بنی اسرائیل کو جلانے سے ہاتھ کھینچا اور ان پر
سختیاں کرنا شروع کردیں۔
فرعون بنی اسرائیل کو عذاب دیتا تھا اور ان سے طرح طرح کے کام لیتا تھا۔
فرعون بنی اسرائیل کو عذاب دیتا تھا ان سے طرح طرح کے کام لیتا تھا۔
فرعون بنی اسرائیل سے مکان بنواتاتھا فرعون بنی اسرائیل کو عذاب دیتا تھا
ان سے طرح طرح کے کام لیتا تھا بعض سے مکان بنواتا تھا۔
فرعون بنی اسرائیل کو عذاب دیتا تھا ان سے طرح طرح کے کام لیتا تھا بعض سے
مکان بنواتا بعض سے کاشتکاری کرواتا تھا۔
فرعون بنی اسرائیل کو عذاب دیتا تھا ان سے طرح طرح کے کام لیتا تھا بعض سے
مکان بنواتا اور بعض سے کاشتکاری کرواتا بعض سے مزدوری لیتا تھا۔
فرعون بنی اسرائیل کو عذاب دیتا تھا ان سے طرح طرح کے کام لیتا تھا بعض سے
مکان بنواتا بعض سے کاشتکاری کرواتا بعض سے مزدوری لیتا اور جن سے کوئی کام
نہ لیتا ان سے جزیہ لیتا تھا۔
یہ باتیں مخلتف پیرائے میں لکھی گئیں ہیں ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ
فرعون اپنی رعایا کے اوپر کتنا ظلم کیا کرتا تھا کہ بنی اسرائیل سے ایسے بے
گار میں جانوروں کی طرح مزدوریاں کراتا تھا آج کے دور میں بھی کوئی بڑی
تنظیم یا ڈاکووں کا بڑا گروہ دو چار سو لوگوں کو اگوا کر کے لے جائے اور ان
کو بے گار میں کام پر لگا دیں ان کو غلام بنا کر رکھیں جنگل میں لکڑیاں کاٹ
کر لانے کا حکم دیں اور اپنے گھروں اور بیوی بچّوں کو اپنے کھیتوں میں
زبردستی کام پر لاگا لیں اور ان کو مزدوری بھی نا دی جائے صرف دال روٹی اور
پرانے کپڑے دے دیں کہ کام کرتے کرتے رہو جب زندہ ہو جس نے کام کرنے سے
انکار کیا اس کو جان سے مار دیا جائے گا تو موجودہ دور میں یہ اغوا کا کتنا
بڑا مقدّمہ بن سکتا ہے-
لیکن اس بدبخت فرعون نے پوری بنی اسرائیل قوم کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا
تھا کہ تم لوگوں نے ہمارے جانوروں کو چارہ ڈالنا ہے ہمارے گھروں کی صفائی
ستھرائی کرنی ہےہمارے کھیتوں میں کاشتکاری کا کام کرنا ہے ہمارے لئے نئے
محلّات کو تعمیر کرنا ہے تب ہم تمھیں زندہ رہنے کا حق دیں گے اور جو ہمیں
سجدہ نہیں کرے گا ہم سمجھیں گے وہ ہمارے خلاف بغاوت دل میں پال رہے ہیں اس
لئے ہم ان کو قتل کر دیں گے تو یہ کتنی بڑی مصیبت تھی بنی اسرائیل کے لئے
کہ دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کے لئے کپڑوں کے بدلے ساری زندگی فرعوں
اور اس کی قوم کی غلامی اور چاکری کرنی ہے اور جو بندہ ان میں سے کوئی کام
نہیں کرے گا وہ جزیہ دے گا اپنے زندہ رہنے کا ٹیکس دے گا-
قارئین کرام آج کے اس جدید دور میں بھی ایسا ہی ظلم پاکستان میں ہو رہا ہے
سیکولر لوگ جو دجّال امریکہ کے حواری ہیں اور اتحادی ہیں وہ بھولے بھالے
مسلمان عوام کو اپنے ظلم کے جال میں پھانس چکے ہیں جو بندہ سیکولر ازم کے
امتحانات پاس کرتا ہے اور عملی طور پر اسلام کا انکار کردیتا ہے اس کو ہی
پولیس کی نوکری دی جاتی ہے اور اسی طرح چھوٹی نوکری سے لے کر یعنی چپڑاسی
سے لے کر جس نے افسر کی گھنٹی کا انتطار کرنا ہوتا ہے کہ کب صاحب کی گھنٹی
بجے اور بھاگ کر میں حاضر ہو جاوں کہ جی حضور کیا حکم ہے-
چپڑاسی کی نوکری کن شرائط میں ملتی ہے کہ تو نے پانچ لاکھ روپے مجھے دینے
ہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر تمھاری تنخواہ بیس ہزار ہے تو اس میں سے دس
ہزار مجھے دے دیا کرو گے تو میں نوکری دوں گا جب پانچ لاکھ پورے ہو جائیں
گے تو پھر تم پوری تنخواہ لے لیا کرنا اس طرح کا انکھا ظلم ہمارے ملک
پاکستان میں ہو رہا ہے اور کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے یہ آفر بھی اس کے لئے
ہے جس کے ساتھ ہمارے افسر ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ چلو تمھارے پاس
رشوت دینے کے لءے پیسے نہیں ہیں اس لئے مین اپنی طرف سے ادائیگی کر دوں گا
اور تم آہستہ آہستہ آدھی تنخواہ دےدے کر میرے پیسے لوٹا دینا حالانکہ دنیا
کے کسی بھی قانون میںیہ نہیں لکھا ہوا کہ نوکری دیتے ہوئے پانچ دس لاکھ یا
پیس لاکھ دو تو نوکری ملے گی ورنہ دنیا کے دھکے کھاتے پھرو کیا یہ فرعون سے
کم ظلم ہے اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ امریکہ دجّال کی سپر میسی ہے اور
جہاں تک امانت کا تعلق ہے تو صورت حال واقعہ کربلا سے بھی پیچیدہ اور
گھناونا جرم ہے واقعہ کربلا کا پس منظر کیا ہے اس کا ایک الگ مضمون ہے لیکن
یہاں یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ امیر معاویہ اور رضی اللہ عنہ اور یزید
حضرت حسن حسین اور باقی اولاد علی اور اہل بیت کو تنخواہ بھیجا کرتے تھے
اور چالیس ہزار دینار وظیفہ بھیجا جاتا تھا اس بات کو شیعہ کتابوں میں بھی
درج کیا جاتا تھا اور اب بھی شیعہ کتب میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں کہ حسنین
کریمیں کو دارلحکومت سے باقائدہ تنخواہ پہنچائی جاتی تھی -
لیکن راء کے ایجنٹ فرقہ پرست مولوی یہاں یہ بات بیان کرکے کہ مولا پاک حسین
رضی اللہ عنہ تو اللہ کی زمین تو زمین ساتوں آسمانوں اور عالمین کی ساری
مخلوقت کے مالک و مختار تھے ان کو تنخواہ بھیجنے کی امیر معاویہ رضی اللہ
عنہ کی کیا مجال تو اس طرح سے لفظوں کے جال میں عوام کو پھانس کر بات کو
بدل دینے کی صلاحّتیں رکھنے والے ذاکرین اور علماء کرام آج کے شریف لوگوں
کو ائمّہ مساجد کو اسلامی گورنمنٹ کے وظیفوں سے محروم کر دیا اور پولیس اور
ایجوکیشن اور واپڈا اور دوسرے محکموں کے افسروں کو وظیفے دینے شروع کر دئے
میں یہ مانتا ہوں کہ محکمہ اوقاف کے اور وفاق المدارس کو بھی وظیفے اور
تنخواہیں ملتی ہوں گی لیکن جب نوکری بغیر رشوت کے نہیں ملنی تو یہ چھوٹا سا
محکمہ کرے گا کیا جب وہ بھی سب کچھ یہ کر چھین لیا جاتا ہے کہ سنیو تمھارے
اکابرین ابوبکر عمر عثمان نے اہل بیت سے خلافت چھین لی تھی اس لئے ہم
تمھاری املاک اور تنخواہیں چھین لیں گے اور اس طرح سے بیچ بچاو کرانے والے
سیکولر دانشور یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ تم لوگ شیعوں والا کلمہ پڑھ لو تو
پھر تمھیں وظیفہ بھی ملے گا اور دوسری املاک بھی ملیں گیں اور اس طرح سے
سیکولر دجّال شیعہ مکاتب فکر کے احسان مند رہتے ہیں کہ تم لوگوں نے کیسے
الفاظ کی زنجیروں باندھ کر ان علماء حق کو ہمارا محتاج بنایا ہے کہ یہ
ہمارے آگے سر بھی جھکاتے ہیں اور ہمارے اشاروں پر بھی ناچتے ہیں کہ ہمیں
ہمارا حق دے دوہمیں فرعون کی طرح سے ظلموں کا شکار نا بناو لیکن یہ بات بھی
سب جانتے ہیں کہ کشمیر میں 80 ' 85 پرسنٹ شیعہ ہیں جو اللہ کی ایک بے آواز
لاٹھی کے ساتھ زلزلہ میں مارے گئے
اور اب بھی اگر ان ظلموں سے باز نہیں آئیں گے تو جیسے ستارہ ٹوٹ کر کشمیر
پر گرا تھا اسی طرح ان فرقہ پرست ظالم لوگوں پر بھی گر سکتا ہے کہ ظالموں
جب ہم شرافت ثابت کرتے ہیں کہ یہ نیکی اور بھلائی کا راستہ ہے ہم سب
مسلمانوں کو اس پر چلنا چاہیے تو پھر نور من نور اللہ اور بے بنیاد من گھڑت
عقائد کو لے آتے ہو کہ ہم نے کسی بھی قیمت پر جیت حاصل کرنی ہے اور جب حق
داروں کو تنخواہ دینے کی بات آتی ہے تو کہتے ہو کہ یہ کام تو 10 ہزر کا بھی
نہیں کرتا اس کو تنخواہ 25 ہزار کیوں دیں حالانکہ مظلوم مسلمانوں کے نام
پرملکی خزانوں وصول بھی کر چکے ہوتے ہو اور اپنی تنخواہ بھی ہڑپ اور اپنے
معسوم اور مظلوم بھائی کی تنخواہ بھی ہڑپ اور پھر کہتے ہیں معاویہ اور یزید
ظالم تھے کیوں کہ جنّت کے شہزادوں کے سامنے مسلمانوں کے حکمران بن کر بیٹھ
گئے اس سے بڑی توہین ہو نہیں سکتی - حالانکہ وہ تو خاندان رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا حق جو بنتا تھا اور مال غنیمت میں جو حصہ بنتا تھا وہ بھیجتے
تھے اور آج تم لوگوں کی حکومت میں کسی کروڑ پتی یتیم کو اس کا حق ملا ہو اس
بات کی مثال نہیں بیان کی جاسکتی ایسا کاغذوں میں تو اخباروں میں اور
ڈراموں اور فلموں میں تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں امانت جس کی ہوتی ہے اس
کو بڑی آسانی سے نااہل بنا کر ثابت کر کے خود امانت کو ہڑپ کر لیتے ہیں کیا
یہ دجّالیت نہیں تو اور کیا ہے ایسی دجّالیت جو فرعونیت سے بھی دو ہاتھ آگے
ہے اللہ کی پناہ ظالموں کے شر سے |