آہ ،ن لیگ نے تو مُلک کو لوٹ کا مال سمجھ لیا ہے ،پچھلے
دِنوں وزیراعظم کے مشیر برا ئے خزانہ مفتاح اسماعیل جو معیشت میں اپنا
استاد شاہد خاقان عباسی کو مانتے ہیں اورسیاست میں اپنا روحا نی پیشواسابق
وزیراعظم نوازشریف کو گردانتے ہیں اِن کی جا نب سے پی آئی اے کا قرضہ
اداکرو اور قومی ائیرلائین پی آئی اے کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز مفت لے لو
کی واہ شگاف انداز سے پیشکش کی گئی پہلے تو یہ اپنی اِس پیشکش کو مذاق قرار
نہ دیتے ہوئے اِس پر پوری طرح سے قا ئم رہے مگر جب کچھ دیر بعد ہی میڈیا پر
چاروں طرف سے تنقیدکا نشا نہ بنا ئے گئے توپھر خود ہی اپنی سُبکی مٹانے کے
لئے مشیر برائے خزا نہ نے اپنی انتہائی چالاکی اور شاطر مزاجی سے کام لیتے
ہوئے کبوتر جیسی بڑی معصومیت سے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ ’’اِن کی طرف
سے کئی گئی یہ پیشکش تو محض مذاق تھی ‘‘بھلا قومی اور سنجیدہ ملے میں بھی
مذاق ہو سکتا ہے اگر مذاق ہو سکتا ہے تو پھر آج جو کچھ بھی ن لیگ کررہی ہے
یہ مُلک اور قوم کے ساتھ مذاق ہے بہر کیف ،کچھ بھی ہے مگر حکومت پی آئی اے
سے متعلق جو پروگرام بنا چکی ہے اور آئندہ پی آئی اے سمیت دیگرقومی اداروں
کے حوالے سے پروگرام ترتیب دے چکی ہے آنے والے دِنوں میں حکومت چُن چُن کر
تمام ہی منافع بخش قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام اپنے من پسند افراد کے
ہاتھوں فروخت کرکے ہی جا ئے گی کیو ں کہ آج جس انداز سے رواں حکومت کے
وزیراعظم کے مشیر برائے خزا نہ مفتاح اسماعیل آؤ اآ لوٹ کا مال ہے... پی
آئی اے کے خریدار کو اسٹیل ملز مفت پیش کرنے کا اعلا ن کیا ہے خدشتہ ہے کہ
کہیں حکومت تمام قومی اداروں کو پیکج کی نظرہی نہ کردے۔
ارے نااہلوں، اپنی نااہلی کو چھپانے اور اِس پر پردہ ڈالنے کے خاطر دنیا کو
خوش کرنے کے لئے اپنے منافع بخش اداروں کی ساکھ پہلے خود خراب کرواور کرواؤ
پھر اِسے عالمی بولی لگا کر خود ہی سستے داموں کوڑیوں کے دام فروخت کردواور
اپنی جا نیں چھڑالو، اداروں کی فروخت کے بعد جو پیسہ ہاتھ لگے اِس پر اپنا
کمیشن اور پرسنٹیج لو اور چلتے بنوں والی پالیسی کو ہر صورت تبدیل کرنا
ہوگا اور اَب ایسے نہیں چلے گاقومی ادارے کسی کے آباؤ اجداد کی جاگیر تو
نہیں ہیں کہ جس کا جیسا جی چاہئے اِنہیں اپنی مرضی کے من پسند افراد کے
ہاتھوں کوڑیوں کے دام فروخت کرے اور خریدار کو دوسرا قومی ادارہ پیکچ کے
طور پر مفت تھما دے،ارے نااہلوں تمہارا تو بس نہیں چل رہاہے تم تو پورے
مُلک کو ہی بیچ ڈالو۔
برسوں سے سرزمین پاکستان میں جب بھی مٹھی بھر شاطر سِول حکمران طبقات اور
اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو ئے ہیں اِنہوں نے
غریب مکان و چھت ، کپڑے اور روٹی دینے کا وعدہ کیا ہے آج تک اِنہوں نے پوری
طرح کو ئی ایک شے بھی غریب تک نہیں پہنچا ئی ہے چھت کی جگہہ قبر، کپڑے کے
بجا ئے کفن اور روٹی دینے کے بجا ئے اِن کم بختوں نے غریب کے ہاتھ سے
سُوکھی روٹی بھی چھین لی ہے ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے خدشتہ ہے کہ جب تک رواں
حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرلیتی ہے یہ جاتے جاتے مہنگا ئی کو اتنا بے لگام
کرجا ئے گی کے بیچارے غریب کے جسم سے کھال بھی اُتار لے گی اورغریب کے
کمزورولاغر پاؤں بھی کاٹ ڈالے گی تا کہ یہ حکومت کے سا منے کھڑے ہو کر
احتجاج بھی نہ کرسکے ۔
جس مُلک میں فقیر سے فقیری کے انداز سیکھے جائیں اور بھیک ما نگنے والے
جملے چھین لئے جا ئیں اور اِن جملوں کو حکومتیں اپنے لئے مخصوص کرلیں اور
حکمران فقیر کا ہاتھ کاٹ کراِس لئے رکھ لیں تا کہ قومی خزا نہ بھر نے کے
خاطراِسے دِکھاکر بھیک ما نگی اور قرضے لئے جا سکیں، میرٹ کا قتلِ عام کرکے
قومی اداروں میں من پسند نا اہلوں کو نوکریاں کشکول میں رکھ دی جا ئیں
اورنااہل اور فقیر قرضہ خورافراداداروں کو بھیک ما نگ کر قرضے لے کر چلا
ئیں اورحکومتیں قو می خزا نے کو اداروں کی پیداواری صلاحیتوں اور ملازمین
کی بہتری پر لگا نے کے بجا ئے اپنے اللے تللے کے لئے قو می دولت اُڑا دیں
اور قومی اداروں کے ملازمین کی مہینوں تنخوا ہیں روک دی جا ئیں اورملازمین
کے فلاح وبہبود کے لئے کئے جا نے والے اقدامات کودیدہ دانستہ کچرا کنڈی میں
پھینک دیا جا ئے اور پھر یہ توقعہ رکھی جا ئے کہ قومی ادارے ترقی کریں گے
تو اِس حال میں یہ تو مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے جب مالک دوودھ دینے والی
بکری یا بھینس کو معیاری اور جانور کی مرضی کے مطابق چارہ اور پھونسا پیٹ
بھر کر نہیں دے گا تو بکری یا بھینس دودھ کی مطلوبہ اہداف مالک کو کیوں کر
دی گی جبکہ بغیر اچھی و معیاری اور پیٹ بھری خوراک کے مالک کو دودھ کے مرضی
کے اہداف کبھی بھی حاصل نہیں ہوں گے۔آج بدقسمتی سے ن لیگ اور ماضی کی
حکومتوں نے منافع بخش قومی اداروں کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھا نے اور
مزدوروں ماہانہ اور سالانہ تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے کے مدمیں
ضرورتوں کے مطابق قومی خزا نے سے رقوم مہیا ہی نہیں کی ہیں لا محالہ جہاں
قومی اداروں کی پیداواری صلاحتیوں میں کمی آئی تو وہیں ملازمین کا
معیارزندگی بھی بُری طرح سے متاثر ہوااور اَب ہو تے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچ
گئی ہے کہ حکومت پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل جیسے ماضی کے منافع بخش
قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے جا رہے ہیں نا صرف یہ بلکہ حکومت
کی قومی اداروں سے بیزاری اور نفرت کا اظہار اتنا بڑھ چکا ہے کہ اَب حکومت
کھلے عام کہہ رہی ہے کہ’’ پی آئی اے کا قرضہ دو، اسٹیل ملزمفت لے لو‘‘۔
آج اپنی آنکھ پر کالا چشمہ لگا کر ن لیگ کی حکومت کے ساتھ نعرے لگا نے
والوں کو کچھ دیر کے لئے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ اگر عوام اپنی آنکھ پر سیاہ
چشمہ لگا ئی رہے تو ن لیگ کی رواں حکومت بہت جلد اِس کا مستقبل بھی حقیقی
معنوں میں تاریک کرکے جا ئے گی ۔اَب بس ضرور ت اِس امر کی ہے کہ عوام ن لیگ
کے اُن سیاہ کرتوتوں کا بھی اپنی آنکھ سے کالا چشمہ ہٹا کر جا ئزہ لے جو یہ
جاتے جاتے قومی اداروں اور مُلک اور قوم کے ساتھ کرکے جا نے والی ہے اگر
ابھی عوام نے ایسا نہ کیا اور کالا چشمہ پہن کر ن لیگ کو اپنے روشن مستقبل
کا ضامن جان کر اپنا سب کچھ اِس کے حوالے کردیاتو پھر عوام کالاچشمہ پہن کر
ن لیگ کے دیئے ہوئے تاریک مستقبل میں اپنے کالے کل کے کسی چھوٹے سے سوراخ
میں اپنا روشن مستقبل ہی تلاش کرتے رہیں گے۔ (ختم شُد) |