تحریر: خاور جتوئی
جہیز جیسی دینی، معاشرتی اور اخلاقی برائی کو ڈکیتی اور چھینا جھپٹی سے
تعبیر کیا جائے تو زیادتی نہیں ہوگی۔ جہیز کے لین دین میں پڑوسی ملک بھارت
تو تھا ہی مگر اب اسلامی جمہوریت پاکستان بھی اس میں بہت آگے نکل چکا ہے۔
پاکستان میں بے شمار ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں کہ جن میں بچیوں کی
منگنیاں صرف اور صرف جہیز کے معاملے پر آکر یا تو ٹوٹ چکی ہیں، یا پھر
التوا کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال پیدا کردی گئی ہے کہ بچیوں والے اب بچی کی
شادی کا سوچ کر ہی دل سے آہ بھرتے ہیں اور اپنی بچی کو بس دیکھتے رہ جاتے
ہیں۔ نا جانے دل میں کیسے کیسے ارمان اور خدشات ہوتے ہیں جو زبان پر لاتے
ہوئے شاید طوفان آجائے اور اس سب کی بڑی وجہ رشتوں میں بے جا تکلفات اور
جہیز ہے۔
اب تو کئی جگہوں پر لڑکی کے گھر والوں کو بلاک میل کر کے جہیز لیا جاتا ہے۔
ہمارے اور پڑوسی ملک میں جیسے کوئی فرق ہی رہا۔ وہاں پر بغیر جہیز کے لڑکی
کی رخصتی ممکن نہیں اور وہیں کچھ اب یہاں کی روایت بنتی جارہی ہے۔ پہلے یہ
معاملہ بڑے شہروں اور نام نہاد پڑھے لکھوں میں پایا جاتا تھا مگر اب تو یہ
نچلے طبقے تک سرایت کرچکا ہے۔ یہ ایک الگ معاملہ کہ ہے اگر بچی کے گھر والے
اپنی مرضی سے کچھ دینا چاہتے ہیں تو وہ ان کی مرضی مگر باقاعدہ مطالبہ
رکھنا یقینا غیر اخلاقی ہے۔
یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جہیز کا مطالبہ کرنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے
گھر میں بھی بہن بیٹی ہے۔ یا یہ ہی سوچ لیں کہ وہ جس طرح کے مطالبات رکھ
رہے ہیں اس سے بچی کے گھروالوں پر کیا بیتے گی۔ ان کے حالات کیسے ہیں کہیں
ایسا تو نہیں کہ باقی بچیوں کا حق مارا جائے گا۔ بہت سے مسائل ہیں جو صرف
ایک جہیز کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دوسروں کی بچیوں کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہیں۔
جبھی بوجھ لینے سے قبل ہم ایسی بیہودہ ڈیمانڈ رکھتے ہیں۔ اﷲ نے لڑکی کو
رحمت بنا کر بھیجا۔ اس لیے کہ یہ جہاں بھی جاتی ہے وہاں رحمت کے در کھلتے
چلے جاتے ہیں۔ جو تعلقات صرف اور صرف لالچ کی بنیاد پر قائم ہوں ان سے آگے
کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ کیا اس بات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جتنا
کچھ ہے وہ کافی ہے۔ وہ بچی اپنا مقدر خود لے کر بابل کی دہلیز پار کرے گی
اور پھر اپنے مقدر کے ساتھ اس گھر کو چار چاند لگائے گا۔
اسلام نے نکاح کو آسان بنایا ہے لیکن بد قسمتی سے آج مسلمانوں نے بھی شادی
کے موقعے پر جہیز کا لین دین اور زیادہ سے زیادہ جہیز کا مطالبہ اور پھر
تلک سرانی اور جوڑے کے نام پر رقم کا مطالبہ اور دیگر رسوم و رواج سے شادی
کو مشکل بنا دیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے غریب کی بیٹیوں کی شادی کو
مشکل بنا دیا ہے۔ لڑکیاں اب بوجھ لگنے لگی ہیں۔
جدید ترین زمانے میں ہوتے ہوئے بھی کیسی سوچ رکھتے ہیں کہ بچیاں کمائیں اور
مرد گھر میں بیٹھ کر کھائیں۔ آتے ہوئے وہیں گھر کا سارا سامان لے کر آئیں۔
گویا مرد سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے استعمال کی چیزیں خرید سکے۔ اب
تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ بچیوں کا حق مارتے مارتے سسرالی تو کرتے ہی ہیں
مگر اپنے بھی معاف نہیں کرتے۔ ان سے جو کچھ چھینا جاسکتا ہے چھین لیا جاتا
ہے۔
والدین کے گھر میں بچی کے بہت سے ارمان ہوتے ہیں ۔ جب وہ جاتی تو یقینا اس
کے ارمانوں کو پورا کرنا والدین اور بھائیوں کی ذمے داری بنتی ہیں۔ اپنی
حیثیت کے مطابق اس کا خیال رکھا جائے۔ مگر کئی ایسے گھرانے دیکھنے میں آئے
ہیں کہ جب بچی گھر سے نکلی تو اسے گویا بھلا دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں بچیوں
کو وراثت سے بھی فارغ کردیا جاتا ہے۔ یہ بات یقینا ایسے بھائیوں کے لیے
قابل مذمت ہے جو اس طرح کی حرکت کرتے ہیں۔ وراثت میں اﷲ تعالیٰ نے بہن کا
پورا پورا حق رکھا ہے۔یہ سب کچھ بھائیوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اگر کہیں
والدین اپنی بچیوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو یقینا بہت ہی غلط کرتے ہیں
انہیں آخرت میں اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ اﷲ نے دین اسلام میں
والدین کی وراثت میں بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے۔
بعض اوقات عورت اپنے بھائی بہنوں سے بھی حصہ پاتی ہے اور شادی کے بعد بھی
وہ اپنے خاندان سے جڑی رہتی ہے۔
بطور ایک اچھا شہری اور ایک مسلم ہمیں جہیز جیسی بھیانک برائی کو جڑ سے
نکال پھینکنا ہوگا۔ بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت میں منصفانہ حق دینا ہوگا۔
یاد رکھیں اس کے لیے صرف ایک نہیں بلکہ سب کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔
شریعت اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جیسے جہیز حرام ہے ویسے وراثت
دینا لازم ہے۔ اﷲ تعالیٰ مسلمان گھرانوں کو جہیز کی لعنت سے محفوظ رکھے۔
آمین
|