ٹیلنٹ کس میں

تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے!ایک بلڈنگ کو بنانے سے پہلے اس بلڈنگ کی پہلے بیس (Base)رکھی جاتی ہے پھر اس بلڈنگ کے لیے گارا مٹی اور کئی چیزوں کی ضروت ہو تی ہے اسی طر ح جب اس ملک کی بیس بنائی جا نے والی تھی تو اس کے لیے بھی خو ن کی شکل میں سیمنٹ گارے اور پانی کی ضرورت تھی لیکن انصاف اور اسلام کے فروغ کے لیے ان غریبوں نے یہ ضرورت پوری کرنے کی ٹھان لی۔ کہ چلیں جب یہ بلڈنگ بن جائے گی تو ہم اس بلڈنگ میں آسانی سے رہ سکیں گے جہاں ہمیں انصاف ملے گا جہاں غریب اور امیر کا فرق مٹ جائے گا لیکن جب یہ بلڈنگ تعمیر ہو گئی تو اس کا گیٹ کھول دیا گیا کہ آؤ اب تم آجاؤ لیکن بدقسمتی سے کچھ ایسے افراد بھی اندر آگئے کہ جنھوں نے اندر آکر اس بلڈنگ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا۔اب وہ لوگ جنھوں نے خون کی شکل میں اس بلڈنگ کی تعمیر کی تھی ان کے ساتھ وہی بے انصافی شروع ہو گئی جو اس بلڈنگ کے بننے سے پہلے تھی اور پھر وہی غریب اور امیر کا فرق بھی اس حد تک پیدا ہو گیا کہ ایک امیر نے ایک غریب کو انسانیت کے دائرے سے بھی باہر نکال دیا۔اور پھر اس بلڈنگ میں افلاس خود کشیاں اور خود کش حملوں جیسے عناصر نے لوگوں کا جینا بھی ختم کردیا۔

جس وقت یہ بلڈنگ یعنی یہ ملک بنایا گیا سب نے یہی سوچا تھا کہ شاید اب مسلمان آدھی دنیا سے بھی زیادہ حصے کو فتح کرلیں گے اور یہ ہو بھی جاتا لیکن ایک چیز جو میں سمجھتا ہوں جو اس سارے پستی کا باعث بنی وہ تھی بے انصافی ۔اگر اس ملک کی تعمیر سے لے کر اور کچھ نہیں تو صرف انصاف ہی ملتا تو شاید آج بھی یہ ملک خوشحال ہو تا لیکن افسوس کہ آج تک یہ انصاف نہ مل سکا۔اس بے انصافی میں ایک چیز ایسی بھی ہے جو سب سے بڑی ہی خطرناک ہے اور بہت تیزی سے پھیل رہی ہے وہ یہ کہ ہر حال میں دوسرے سے آگے آنا۔اس بیماری کی جو Base ہے اسے آج ہم ٹیلنٹ کا نام دیتے ہیں۔

ہم جب میٹرک میں پڑھتے تھے تو میں نے اپنے شہر کے ایک بہت پرانے سرکاری سکول میں داخلہ لیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی لڑکا ایسا بھی ا س میں پڑھ رہا ہو جس کا دادا یا پڑدادا بھی اسی سکول میں پڑھ کر گیا ہو تو اس سکول میں برآمدہ سا تھا جہاں استا د اپنے سائیکل یا موٹر سائیکل وغیرہ کھڑا کرتے تو اس برآمدے کے دیوار پر مختلف بورڈ لگے تھے جو ابھی تک لگے ہیں ان میں زیادہ بورڈ ایسے تھے جن پر سابقہ سٹوڈنٹس کے مارکس لکھے تھے تو ہم یہ مارکس پڑھ کر حیران ہو تے کہ یہ لڑکے کیسے اتنے مارکس لے لیتے تھے تو ایک دن ہمارے ایک بہت پرانے ٹیچر تھے انہوں نے بتا یا کہ ان لڑکوں میں زیادہ تعداد ایسے لڑکوں کی تھی جو دور دراز کے دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے وہ بیچارے بہت غریب ہوتے گھر جا کر کھانا کھا کر انہیں بکریاں وغیرہ چرانے کے لیے جانا پڑتا تو وہ ساتھ میں کتا بیں وغیرہ بھی لے لیتے اور اگر ٹائم ملتا تو وہیں پڑھ لیتے۔اس دور میں ٹیوشن کا نام ونشان تک نہ تھا لیکن ان میں بلا کا ٹیلنٹ ہوتا۔

اب جب ان لڑکوں اور آج کے تعلیمی ریکارڈ پر غور کیا تو پتہ چلا کہ پوزیشنیں لینے والے تمام لڑکے لڑکیاں امیر گھرانوں کی ہیں تو میں نے سوچا کہ یہ فرق کیسے پڑا اور وہ بات جو میں اکثر سنا کرتا تھا کہ ایک غریب میں ٹیلنٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ اب غلط ہونے لگی پھر کچھ دن بعد میں ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا وہ پروگرام بھی ٹیلنٹ کی بنیاد پر تھا اب اس پروگرام میں ایک بچے کو بلایا جاتا جس کے متعلق کہا جا تا ہے کہ اس میں بہت ٹیلنٹ ہے اور وہ سب سے زیادہ ذہین ہے۔تو مجھے وہ پروگرام دیکھنے میں دلچسپی پیدا ہوئی تو میں نے اس پروگرام کو بڑے غور سے دیکھا تو مجھے اس پروگرام میں ایک پوائنٹ ملا جس کو دیکھ کر مجھے کچھ افسوس بھی ہوا لیکن اس پوائنٹ کو درست ثابت کرنے کے لیے مجھے ا س کو دو تین مرتبہ دیکھنا پڑا اور یوں وہ میرا پوائنٹ جو تھا درست محسوس ہوا تو وہ پوائنٹ یہ تھا کہ اس پروگرام میں جو بھی بچہ بلایا جاتا وہ ایک تو امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا دوسرا وہ جس سکول میں پڑھتا تھا وہ مہنگا ترین سکول تھا مجھے افسوس ہو ا کہ ہم ٹیلنٹ دیکھنے کے لیے ہمیشہ مہنگے اداروں میں ہی کیوں جاتے ہیں کیا جو بچہ ایک مکتب مدرسے میں پڑھ رہا ہے اس میں ٹیلنٹ نہیں ہو سکتا۔

ایک دن ہم کالج میں پڑھ رہے تھے تو ہمارے اردو کے ایک پروفیسر صاحب شہر کے ایک ڈاکٹر کی بیٹی کی مثال دینے لگے کہنے لگے میں اسے میٹرک کی اردو کی ٹیوشن پڑھانے اس کے گھر جایا کرتا تھا اس لڑکی میں بلا کا ٹیلنٹ تھا اس نے نویں کلا س میں ٹاپ کیا پھر میٹرک میں ٹاپ کیا تو میں نے سوچا کہ جس لڑکی کو اردو کی ٹیوشن پڑھانے سکول لیول کا نہیں بلکہ کالج لیول کا پروفیسر اس کے گھر پڑھانے جاتا ہے پھر باقی کتابیں یعنی فزکس کیمسٹری وغیرہ کی بھی وہ لازمی ٹیوشن پڑھتی ہو گی تو پھر وہ لڑکی ٹاپ نہ کرے تو کیا کرے کیا اسے ہم ٹیلنٹ کہتے ہیں۔

تو وہ فرق جو میں معلوم کرنا چاہتا تھا مجھے معلوم ہو گیا کہ اب وہ بکریاں چرانے والا لڑکا ٹیلنٹ میں پیچھے کیسے رہ گیا ۔ تو یہ وہ بے انصافی کی قسم ہے جس کے متعلق میں نے پہلے بات کی تھی اب بات آتی ہے کہ ٹیلنٹ کس میں ہے تو ٹیلنٹ ہر ایک میں ہے آپ ہر کسی کو ایک بار موقع تو دو ایک غریب کو بھی وہ سہولیات تو دو کہ وہ بھی اپنے بچے کو ان سکولوں میں پڑھا سکے یا پھر اگر ٹیلنٹ دیکھنا ہے تو ساتھ کسے مکتب مدرسوں میں اک دونڑی دو دونی چار پڑھنے والے بچے میں بھی دیکھو۔

جب کسی بندے میں ٹیلنٹ ہے لیکن اس کے پاس ذرائع نہیں کہ وہ بھی اس بچے کی طرح سامنے آئے اور دکھائے کہ اس میں کیا ٹیلنٹ ہے اور وہ کیا کیا کر سکتا ہے تو پھر اس کے اندر ایک بغاوت کی فضا پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ انہیں عناصر کی سازش کا حصہ بن جاتا ہے جو اس ملک کی بلڈنگ کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں ۔اور یہ بات بالکل پتھر پہ لکیر کی طرح درست ہے کہ دشمن اپنی سازشوں میں اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب اس ملک کے اپنے ہی غدار بن جائیں۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج کے دور میں معاشرتی برائیوں کا زیادہ شکار ہمارا غریب طبقہ ہی ہوتا ہے جنھیں ہم Ignore کر دیتے ہیں یہ ان کے ساتھ ایک بہت بڑی بے انصافی ہے کیونکہ یہ ملک تو انصاف دینے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس ملک کی بلڈنگ اس لیے بنائی گئی کہ جہاں کسی امیر اور غریب میں فرق نہ رہ سکے لیکن جس طرح میں نے پہلے بات کی کہ جب یہ بلڈنگ تعمیر ہوئی تو اس میں ایسے بہت سے لوگ بھی داخل ہو گئے جو اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے تھے جس طرح ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے بالکل اسی طرح ان کے ساتھ بھی کچھ لوگ مل گئے اور یوں وہ اپنی سازش میں کامیا ب ہوگئے۔

لیکن ابھی اس عمارت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے خون کے گارے سے اس بلڈنگ کی بنیاد کو مضبوط کر رہے ہیں شاید یہی وجہ ہے ابھی تک یہ بلڈنگ گری نہیں تو یہ چیز انصاف ہی ہے جو اب اس بلڈنگ کو مضبوط بناسکتی ہے اور انصاف کے لیے پھر ضروری ہے کہ ہم ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کریں اس وقت اس عمارت کو پھر ایک قائداعظم جیسے مستری کی ضرورت ہے جو ٹیلنٹ سے بھرپور ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ ٹیلنٹ کسی کچی آبادی میں پیدا ہونے والے کسی مکتب مدرسے میں پڑھنے والے بچے میں چھپا ہو جو اس عمارت کی بلڈنگ کو وہی رنگ دے سکے لیکن ہماری بے انصافی کی وجہ سے وہ شاید وہ آگے نہ آسکے اور وہ عناصر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں تو ضروری ہے کہ ہم جب ٹیلنٹ ڈھونڈنے کے لیے کیمرے لے کر نکلیں تو کبھی مہنگے سکولوں کو جاتے ہوئے ایک چھوٹے سکول کے اندر بھی جھانک کر دیکھ لیں کہ شاید وہ ٹیلنٹ ادھر ہو۔

اللہ ہم کو دیے سے دیا جلانے کی توفیق دے!﴿آمین﴾
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 13674 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More