آج کی تحریر کا آغاز حضرت واصف علی واصف ؒ کے اس قول سے
کہ ’’ غلام کو غلامی پسند نہ ہوتو کوئی آقا پیدا نہیں ہوتا ــ‘‘۔
لفظوں کو بیچتا ہوں ، پیالے خرید لو
شب کا سفر ہے ، کچھ اجالے خرید لو
مجھ سے امیرِ شہر کانہ ہوگا احترام
میری زباں کے واسطے تالے خرید لو
ملک عزیز میں طبقاتی فرق بھیانک تیزی سے بڑھ رہا ہے، خوف آتا ہے کہ نہ جانے
کب غربت کے بوجھ تلے سسکتے، بلکتے عوام کا پیمانہ ئِ صبر چھلک جائے۔ شہروں
میں تمام جملہ حقوق سیٹھ و صنعتکار اور دیہات میں جاگیردار ، خان ، ملک ،
وڈیرے اور نوابوں کے نام محفوظ ہیں۔ دیہات میں محنت کو عبادت اور شہروں میں
نوکری کو پروفیشن جیسی اصطلاحات کے تمغے سجا کر عوام کو ایک ایسی دوڑ کا
حصہ بنا دیا گیا ہے جس میں سانس لینے کا کوئی وقفہ نہیں۔ ستر سال بعد بھی
ریاست بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے قابل نہیں تو حقوق کا سوال دور کی بات
ہے۔ آج کے جمہوری دور میں کھیتوں کے مزارعین، تپتی ریت پر کئی من وزنی
بوریاں اٹھانے والا مزدور، ایک غریب بے بسی کا عملی نمونہ پیش کررہا
ہے۔خصوصاً سرائیکی خطے میں بسنے والے لوگوں کوایک عرصہ سے تخت لاہور کی ’’
بے رخی ‘‘ کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی
بھی اس بیلٹ کی تعمیر و ترقی اور سہولیات لانے میں ناکام رہے۔، بھکر کی
صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں، ہم اوبھیچڑ سے لموچڑ اور پھر تھلوچڑ جیسے
طعنے اور تازیانے تو کھاچکے مگر ہماری ترقی کی رفتار آج بھی پڑوسی اضلاع سے
بہت سست ہے۔
ایک بزرگ نے چند روز قبل ’’ اوبھیچڑ، لموچڑ اور تھلوچڑ ‘‘پر تبصرہ کرتے
ہوئے بتایا کہ ایک دور تھا جب سرائیکی خطے خصوصاً ( میانوالی بھکر ) میں
بسنے والے لوگوں کو علاقائی ثقافت اور معاشرتی رسم و رواج کی رو سے مختلف
ناموں ، خطابات سے پکارا جاتا تھا،یہاں کے سائلین کو عدالتی کیسز اور
بیوروکریسی کے دفاتر میں کام کے سلسلہ میں میانوالی جانا پڑتا تھا، وہاں کی
بیوروکریسی اور سیاستدان میانوالی آنے والے اُن سائلین کو ’’ لموچڑ ‘‘ کے
’’ نِک نام ‘‘ سے پکارا کرتے تھے، اسی طرح میانوالی کے لوگوں کو لفظ ’’
اوبھیچڑ ‘‘ سے چڑ تھی ۔ 1984ء میں بھکر کے ضلع بننے کے بعد میانوالی اور
بھکر کے لوگوں کے روابط سرد مہری اور وقت کی تیرگی کا شکار ہوگئے۔ لموچڑ سے
اوبھیچڑ کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نئی اصلاح ’’ تھلوچڑ ‘‘ بھی
متعارف کروادی گئی، چونکہ بھکر کی تاریخ میں سیاسی اعتبار سے علاقہ کچہ ،
کچہ نشیب نہایت زرخیز رہا ہے،آج بھی یہاں پر شہانی، نوانی، ڈھانڈلہ ، اتراء
، کہاوڑ خاندانوں کا سیاسی سکہ رائج ہے۔ تھل سے ملک امان اللہ چھینہ اور
ملک محمد اقبال چھینہ سیاست میں بہت بڑے قدآور نام تھے مگر وہ سیاسی ’’
ٹھپہ شناسی ‘‘ سے دور ہی رہے۔ضلع کے’’ دارالمرکز ‘‘پر مرکز کے سیاستدانوں
کا قبضہ ہونے کے باعث ضلع کی تمام بیوروکریسی، پولیس، پٹواری، تھل کے
سیاستدانوں سے ’’ دہلی دور است ‘‘ کے مصداق تھے، یوں تھل کی عوام کو ’’
ہیڈکوارٹر ‘‘ کی سیاست سے دور رکھ کریہ باور کروایا گیا کہ مرکز کی آشیرباد
کے بغیر تھل کے باسیوں کے جائز کام ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوں گے۔
شاید یہی وہ ’’ ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ تھا جب ضلع کے سیاسی مرکز یعنی ’’ کچہ نشیب
‘‘ کی جھولی میں جاگری اور شومی قسمت، تھل کے سیاستدان اپنے ساتھ ہونے والے
’’ خفیہ ہاتھ ‘‘ کو نہ سمجھ سکے اور عوام کو بے سرو پا چھوڑ کر ایک ایک
کرکے چلتے بنے ،یوں اُن کی ہیڈکوارٹر تک رسائی کی خواہش کا چکنا چور ہوگیا
اور تھل کے باسیوں کو ’’ تھلوچڑ ‘‘ کا طعنہ دے کر تھانوں کچہریوں میں رگڑے
لگانے کی بدترین مثال قائم کی گئی۔تھل کے باسیوں کو سبز باغ دکھانے کی
پریکٹس بھی بار بار دہرائی جاتی رہی ، حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کا ’’
خیالی چورن ‘‘ بھولے لوگوں میں بک تو جاتا ہے مگرلوگ ابھی تک اس ’’ چورن ‘‘
کو ہضم نہیںکر پائے ہیں۔ لوگوں کے پیٹ میں اس سیاسی چورن سے اٹھنے والا درد
اب لاوا بن چکا ہے، مگر بدقسمتی سے وہ ’’ سیاسی چورن ‘‘ سے اٹھنے والے اس
درد کو اپنے طبیب ( ضمیر )کے سامنے بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ ویسے بھی جہاں
لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں،سر چھپانے کو گھر نہ ہو ، خانوں،
نوابوں، وڈیروں ،ملکوں کی گالیوں کے نشتر کھا، کھا کر زندگی گزارنے پر
مجبور ہوں،جہاں غربت غریب کی دہلیز پر ناچ رہی ہو ، وہاں نیم حکیم خطرہ جاں
کے بنے اس مضر صحت ’’ سیاسی چورن ‘‘ کا بکنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ تھل کے
خستہ حال گلی کوچے ، ٹوٹی پھوٹی گلیاں، کچے راستے، نہ سکول نہ صحت کی
سہولیات، نوگو ایریا بنے قبرستان ۔۔۔۔ نہ جانے کس بات کا انتقام لیا جاتا
رہا۔سابقہ حکمرانوں سے لے کر موجودہ ممبران اسمبلی تک ، تھل کی پسماندگی پر
توجہ نہیں دی گئی، آج بھی بھکر کے سیاسی محلات پر مسائل لے کر آنے والوں کو
’’ تھلوچڑ ‘‘ کا طعنہ دے کر تو دھتکار دیا جاتا ہے مگر اُن کے دکھوں کا
مداوا نہیں کیا جاتا، سرکاری نوکریوں کا کوٹہ بھی 47 ٹی ڈی اے سے داجل اور
بہل سے کچہ تک محدود ہے۔تھل کا کوئی سفید پوش باشندہ اِن خانوں، نوابوں،
ملکوں کے ان سیاسی محلات میں غلطی سے داخل ہونے کی جسارت کربھی لے تو انہیں
حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہ ہے کہ ضلع بننے سے اب
تک سب سے زیادہ جھوٹے اور انتقامی مقدمات منکیرہ کی دھرتی کا سینہ چیر کرکے
درج کیے گئے ، جس کی ذمہ داری موجودہ اور سابقہ ضلع پر حکمرانی کرنے والے
سیاستدانوںکے کھاتے میں جاتی ہے۔
ایک دور تھا جب بھکر کی تحصیل منکیرہ کے گرم نرم ٹیلوں کی تپتی ریت پر بے
سر و پا چلنے والے ، زمانہ ئِ عجلت پسندی اور مفاداتی زنجیروں کی قید سے
آزاد لوگ غربت و افلاس کے باوجود سُچے اور سچے رشتوں میں پروئے ہوتے تھے۔
اُن کی محبت،الفت، اور مہمان نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
وہاںکے ایک بزرگ اور جی دار سیاستدان ملک محمد اقبال چھینہ نے منکیرہ کا
حلقہ نوانی خاندان کے سپرد کردیا اور آخری دم تک اُن کو سپورٹ کرتے رہے (
البتہ راقم کو دیے گئے ایک آخری انٹرویو میں انہوں نے اپنے تحفظات کا ذکر
ضرور کیا تھا)۔ یقینا نوانیوں کی منکیرہ میں جیت کی ایک وجہ ملک محمد اقبال
چھینہ مرحوم بھی تھے ، بعدازاں ملک اقبال چھینہ مرحوم گزشتہ الیکشن میں
نوانیوں سے الگ ہوگئے تھے اوران کے نوجوان فرزند ملک عنصر اقبال چھینہ نے
منکیرہ کی سیاست میں باضابطہ حصہ لیا ، میونسپل کمیٹی کے چیئرمین منتخب
ہوگئے ، یوں ایک نوجوان کی ’’ سیاسی انٹری ‘‘ نے یہاں کی سیاست میں جدت
پیدا کردی ہے ، عام لوگوں کا خیال ہے کہ عنصر اقبال چھینہ نے میونسپل کمیٹی
میں غریب ریڑھی بانوں اور عام شہریوں کو ممبر بنوا کر نئی مثال قائم کی ہے۔
الیکشن 2013ء سے قبل یہاں سے سعید اکبر خان نوانی ایم پی اے منتخب ہوتے رہے
، کئی مرتبہ صوبائی کابینہ کا بھی حصہ رہے ، مگر تھل کی پسماندگی جوں کی
توں رہی، اسی طرح 2013ء کے الیکشن میں تھل کے باسیوں نے نوانی خاندان کی
بجائے منکیرہ کے مقامی سیاستدان ملک غضنفر عباس چھینہ کو مینڈیٹ دیا ، جس
سوچ ، وژن اور اُمید سے تھل کے ووٹرز نے ملک غضنفر کو سپورٹ کیاشاید وہ اُن
کی امیدوں کو پورا نہیںکرپائے بلکہ سابقہ ادوار کی تاریخ کو دہرادیا۔
ایک طرف بھکر کے سیاستدانوں ، وڈیروں کے محلات کے طواف تو دوسری طرف مقامی
سیاستدان کی عدم توجہی ، سیاسی انتقام ، اور قبضہ مافیاز کی مبینہ سپورٹ نے
تھل کے باسیوں کے اعتبار کو ٹھیس پہنچائی اور مجبور کردیا کہ اب تھل کا
باسی آزمائے چہروں کی بجائے کسی تیسری قوت کو سپورٹ کرے۔ گھٹن زدہ اس ماحول
اور تاریکی کے عالم میں ملک اختر قاسم گھلو اور ملک عنصر اقبال چھینہ
تبدیلی کا چراغ لیے تھل کے ریگستانوں کی طرف رواں دواں ہیں ، دونوں صاحبان
پُر امید ہیں کہ ایک نہ ایک دن تھل کے باسی ضرور تبدیلی لائیں گے ۔ شاید
مجروح سلطانپوری نے اسی حوالے سے کہا تھا کہ :
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمہ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ مغاں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
شرحِ غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا گیا
دہر میںمجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
ملک عنصر اقبال چھینہ اور ملک اختر قاسم کی جدوجہد کو سلام مگر یہ جدوجہد
اُس وقت کامیاب ہوگی جب اس دھرتی کے بسنے والے باسیوں کی سوچ میں کوئی
تبدیلی آئے گی،اگر دونوں صاحبان ماضی کے سیاستدانوں کی طرح ’’ سیاسی چورن
‘‘ کے کاروبار سے وابستہ ہوئے تو پھر اُمید اور جدوجہد کی اس زنجیر کے پرزے
پرزے ہوجائیں گے ، آس امید کا دامن چھوٹ جائے گا، خدارا! لوگوں کا بھرم نہ
ٹوٹنے پائے۔ہم ساری کی ساری تہمت سیاستدانوں، وڈیروں، خانوں، ملکوں کے
کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ، کیا ہم نے خودمیں کبھی تبدیلی لانے کی کوشش کی ؟؟
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !آخر کب تک ہم غلامی کی زنجیروں کے کرارے زخم کھانے کی
پریکٹس کرتے رہیں گے؟؟
دیارِ عشق میں اپنا نام پیدا کر
نیا زمانہ ، نئے صبح شام پیدا کر
میرا طریق اَمیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
اکثر اوقات ، رکشوں ، ٹرالوں، ٹرکوں، بسوں ، ویگنوں پرلکھے ’’ کڑک ‘‘
جملیدل دہلا دیتے ہیں، ایک ٹرک پر بڑا خوبصورت جملہ درج تھا ’’ پُترا گورے
تھوں آزادی اور اپنڑیاں دی غلامی دے ستر سال مکمل تھئی گئین ‘‘( بیٹا گوروں
سے ملی آزادی اور اپنوں کی غلامی کو ستر برس ہوگئے ہیں) ۔ یہ خالصتاً پبلک
ٹرانسپورٹ کا جملہ ہے مگر اس ایک جملے میں ایک ایسا ’’ کرب ‘‘ چھُپا ہے جو
دیمک کی طرح پاکستان کو چاٹ رہا ہے ،1947ء میں ملنے والی آزادی یقینا ایک
ایسا انمول تحفہ ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے مگر اِن ستر سالوں میں
بھی ہماری سوچ کا محور وڈیروں ، خانوں، نوابوں کے گرد گھوم رہا ہے ، اور ہم
ہیں کہ ابھی تک’’ لموچڑ، اوبھیچڑ اور تھلوچڑ ‘‘ سے باہر نہیں نکل سکے۔
اندازہ لگائیں کہ آج بھی بڑی بڑی عمر کے بزرگ ، پڑھے لکھے ،چٹ پوش ان
خانوں، وڈیروں، نوابوں ، ملکوں کے قدموں میں اپنی ’’ پگڑیاں ‘‘ نچھاور
کررہے ہوتے ہیں، ؟؟ خان ، خان اور ملک ملک کی رٹ سن سن کر اَب کان دکھنے
لگتے ہیں،ایسی غلامانہ سوچ پر ترس آتا ہے ۔ ان خانوں، وڈیروں، نوابوں ،
ملکوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا، آپ ذرا اِن وڈیروں کے خلاف کوئی جائز
بات بھی کرکے تو دیکھیے! ، ان وڈیروں کے ’’ بونے کھلونے ‘‘ آپ کے خلاف
گالیوں کے نشتر چلادینگے ،جان سے مارنے کی دھمکیاںیا پھر جھوٹے مقدمات میں
پھنسادیا جائے گا۔
ابھی سے ہوش اُڑے مصلحت پسندوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی بولا کہاں بولا ؟
خان کے ماننے والے خان، مَلِّک کے ماننے والے مَلِّک، نواب کے ماننے والے
نواب کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ۔ تھوڑا سا بھی فہم رکھنے والے
سنجیدہ طبقات کے لیے میری دعوت عام ہے کہ آپ آج بھی ضلع کے دیہی علاقوں،
کچہ ، نشیبی آبادیوں میں جائیں اور دیکھیں کہ آج بھی’’ وڈیرہ ازم، خان ازم،
مَلِّک ازم ، نواب ازم، چوہدری ازم ‘‘ پوری آب و تاب کے ساتھ پنجے گاڑھے
ہے، لوگوں کا خون چوسا جارہا ہے، انہیں غریب سے غریب تر کرنے کے حربے
استعمال ہورہے ہیں، انہیں جائیدادوں سے بے دخل کیا جارہا ہے، حوا کی بیٹیوں
کی عصمتیں محفوظ نہیں ، چائلڈ لیبر اور منشیات کا ناسور عام ہے۔ البتہ ایک
بات قابل تعریف ہے کہ ان وڈیروں ، خانوں، نوابوں، ملکوں، چوہدریوں نے اپنے
رجسٹرڈ اور خاندانی غلاموں کو کہیں مزارعین تو کہیں ہاریوں کا نام دے رکھا
ہے مگر ہیں سب کے سب غلام ، الگ الگ چہروں کے ساتھ ، الگ الگ نسل کے ، گلے
میں غلامی طوق لیے ان بے دید اور بے ذوق سیاستدانوں کے آگے ہاتھ جوڑے اُن
کے کتوں کے برابر بیٹھنے پر مجبور ہیں ۔ بے کیف و سرور معاشرتی تقسیم کی
بدولت غلامی کی زنجیروں کو دن بدن مضبوط کیا جارہا ہے بلکہ ان زنجیروں کو
خوش نما ’’ غلافوں ‘‘ میں لپیٹا جارہا ہے تاکہ ان کا حسن ماند نہ پڑ جائے
اور غلاموں کو محسوس نہ ہو پائے کہ انہیں کس طرح سے جکڑا جارہا ہے۔ ان
غلافوں کو کہیں انقلاب، کہیں تبدیلی، کہیں لسانیت، کہیں عصبیت، کہیں
صوبائیت، کہیں ذات پات تو کہیں مسلک کا نام دے دیا گیا ہے۔ پیر کا بیٹا
پیر، جاگیردار کا بیٹا جاگیردار، وڈیرے کا بیٹا وڈیرہ، چوہدری کا بیٹا
چوہدری،ملک کا بیٹا ملک،سردار کا بیٹا سردار، نواب کا بیٹا نواب بن کے’’
آزاد قوم ‘‘ کے غلاموں کو مضبوط زنجیروں میں جکڑ رہا ہے اور’’ آزاد غلام ‘‘
دیوانہ وار غلامی کی یہ بیڑیاں پہن کر رقص کیے جارہا ہے۔یہ سمجھنا ، سوچنا
، دیکھنا اور محسوس کرناشاید اب ان کے بس میں نہیں رہا کہ اس رقص میں ان کے
پائوں سے اب خون رسنا شروع ہو گیاچکا ہے۔ ان کے ذہنوں میں صرف ایک بات بٹھا
دی گئی ہے کہ تم صرف سبز پیرہن پہن کر، ماتھے پر غلامی کا تاج سجائے، پائوں
میں گھنگھرئوں کی چھنکار لیے، نغمے گا کر ہی یہ تصور کر لو ۔۔۔۔ ’’ کہ تم
آزاد ہو ‘‘۔۔۔ مگر حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ہم نے ستر سال پہلے جب آزادی
حاصل کی تھی تو ایک سال بعد ہی ہم نے تکلیف دہ زنجیریں تو اتار پھینکی تھیں
مگر ہم نے دوبارہ اپنے ہاتھوں سے غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تھا کہ
جس کی اذیت بظاہر نظر نہیں آتی مگر اس کا نقصان ظاہری تکلیف سے کہیں زیادہ
ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب ہم ظاہری طور پہ غلامی میں جکڑے ہوئے
تھے تو ہمارے قلوب و اذہان آزاد تھے اور اس بات کی دلیل قلیل وقت میں دنیا
کے نقشے پہ ایک نیا ملک ابھرنا تھی۔آج ہم ظاہری غلامی سے آزاد ہیں مگر ہم
شخصیات ( خانوں، ملکوں، نوابوں، وڈیروں، چوہدریوں ) کے غلام بنے بیٹھے ہیں۔
ہماری سوچ ، انداز، فکر سب غلام ہیں۔ ہم ایسی شخصیات کے غلام ہیں جن کا
اپنا کردار بھی راہنمائوں والا نہیں ہے۔ مگر ہم نے خود کو ایسی زنجیروں میں
جکڑ لیا ہے کہ ان زنجیروں کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے تھام رکھا ہے اوراس عقلی
وقلبی قید سے نجات کے لیے ہم اپنے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی کرنے کو تیار نہیں
۔جب تک ہم غلامی کی زنجیروں سے خود کو آزاد نہیں کرپائیں گے تب تک تھل کے
باسی انہیں وڈیروں، خانوں، ملکوں، نوابوں، چوہدریوں کے رحم و کرم پر اپنی
پسماندگی اور غربت کا رونا روتے رہیں گے۔
بدتر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مرجائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیئو
|