پھر سے23 مارچ بہت سارے سوالوں کے ساتھ آ گیا ۔۔۔۔وطن
عزیز میں بسنے والے بیس کروڑ سے زیادہ انسانوں کی اکثریت کے سوالات۔۔۔معیشت
کی تباہ حالی کیوں؟تعلیمی نظام فرسودہ کیوں؟صحت کا نظام ناقص کیوں؟قومی
تجارتی و مالی اداروں کی زبوں حالی کیوں؟ملکی اداروں کی کارکردگی ناقص
کیوں؟عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض کیوں؟عالمی سطح پہ قومی وقار کی بے
وقعتی کیوں؟یہ وہ سوالات ہیں جو ان بیس کروڑ سے زائد انسانوں کے ذہنوں میں
ضرور موجود ہیں چاہے، کسی بھی زبان میں ہوں یا ان کا انداز کچھ بھی ہو، بہر
حال یہ و ہ سوالات ہیں جو اس وطن کا جوان، بوڑھا مرد و عورت پو چھ رہا
ہے۔۔۔۔یقیناًیہ سوالات وہ حکمران طبقات سے پوچھتا ہے جن کے ہاتھوں میں اس
ملک کی گذشتہ ستر دہائیوں سے بھاگ ڈور ہے۔۔۔
لیکن یہ جو حالات کی ابتری ہے اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جو
سوالات یہ جم غفیر پوچھتا ہے۔۔۔دراصل یہ سوالات اس جم غفیر سے بھی پوچھنا
بنتے ہیں۔۔۔کہ اس ملک کے حکمران طبقات کو وجود بخشنے والے۔۔۔۔ان کی سیاسی
طاقت بننے والے۔۔۔چاہے ان کو ووٹ دینے والے یا ان کے نتخاب پہ اور ان کی
بلاانتخاب حکمرانی پہ خاموشی اختیار کرنے والے۔۔۔سب ان سوالوں کے جوابدہ
ہیں۔۔۔۔۔۔سب ذمہ دار ہیں۔۔۔۔اس ابتری کے۔۔۔یقیناًیہ سوالات بہت اہم ہیں۔۔۔
ان سوالوں کا تعلق سب کے ماضی، حال اور مستقبل سے ہے۔۔۔۔۔اگر ان سوالات کے
جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو ان کا تمام تر۔۔۔ تانہ بانہ ملک کے
سیاسی نظام سے جا کر ملتاہے ۔۔۔۔دنیا میں مثالیں موجود ہیں کہ سیاسی نظام
ہی ریاستوں کو چلاتا ہے ۔۔۔۔عوامی الناس کو ترقی وخوشحالی کی راہوں سے
ہمکنار کرتا ہے۔۔۔۔ ریاست میں سیاسی نظام بڑا طاقتور ہوتا ہے۔۔۔۔اسی کے ذیل
میں معیشت،تجارت،صنعت،دفاع، تعلیم، صحت کے نظام فروغ پاتے ہیں۔۔۔۔۔ ایک
بہترین سیاسی نظام کیا ہوتا ہے؟اگر اس پہ غور و فکر کریں۔۔۔۔ ایک جمہوری
نظام میں ملک میں بسنے والے لوگ اپنے نمائندوں کو الیکشن کے ذریعے منتخب کر
کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، یہ نمائندے اسمبلیوں میں باقاعدگی سے حاضر
ہوتے ہیں۔۔۔نہایت ایمانداری اور لگن سے عوامی مسائل پہ بحث کرتے ہیں اور ان
کے حل کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔۔۔آئین بناتے ہیں۔۔۔۔تعلیمی نظام کو عصری
تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی قانون سازی ہو یا صحت کی سہولیات کو بہتر سے
بہتر کرنے کے لئے قانون سازی ہو یا نظام عدل و انصاف کومؤثرسے مؤثربنانے کے
لئے قانون سازی ہو، یہ سب ان نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جنہیں عوام
منتخب کر کے بھیجتے ہیں۔۔۔یہ منتخب نمائندے اپنے میں سے ایک وزیر اعظم چنتے
ہیں جو کہ ملک کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔۔۔۔وہ عوام کی اکثریت کا نمائندہ
ہوتا ہے۔۔۔۔ آئین کے تحت سب ادارے اس کا احترام کر نے کے پابند ہوتے
ہیں۔۔۔۔اور وہ اپنی کابینہ تشکیل دیتا ہے۔۔۔۔اور پھر حکومت کا نظم و نسق اس
انداز سے چلاتا ہے کہ ہر شعبہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔۔۔کابینہ
دیانتداری اور حب الوطنی سے ۔۔بیوروکریسی کے ساتھ مل کر قانون و آئین کے
تحت دیانتداری سے اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے۔۔۔پانچ سالوں کے لئے حکومتی نظام
کو اس طرح چلاتے ہیں کہ ملک کی معیشت، تعلیم، صحت سب بہتر سے بہتر ہوتے چلے
جاتے ہیں۔۔۔اس طرح ایک جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آنے ولی حکومت ایک
مضبوط سیاسی نظام کا باعث بنتی ہے۔۔اور پھریہ سیاسی نظام معاشرے کے اندر
آزادی اظہار رائے، بروقت اور فوری انصاف، بنیادی انسانی ضروریات کی بہ
آسانی فراہمی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور اس طرح
نظام کے تمام مرکزی ادارے خود بھی مضبوط اور فعال ہوتے ہیں بلکہ تمام تمام
ذیلی نظاموں اور شعبوں کو بھی فعال بناتے ہیں۔۔۔۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کا بہترین سیاسی نظام کیسے تشکیل پاتا ہے؟ اور
اپنا کردار بہتر طریقے سے کیسے نبھا سکتا ہے؟تو اس کا نہایت آسان سا جواب
ہے کہ اس سیاسی نظام کو چلانے والے وہ منتخب نمائندے ہی دراصل اس کے ذمہ
دار ہوتے ہیں۔۔۔۔اگر یہ نمائندے حقیقی معنوں میں عوامی نمائندگی کرتے
ہیں۔۔۔۔ اہل اورمحب وطن ہیں۔۔۔۔ اگراپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری
دیانتداری سے پوری کرتے ہیں۔۔۔۔اگرالیکشن کے نتائج کے بعد حزب اقتدار اور
اختلاف دونوں مل کر قومی ترقی کے کام میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیتے
ہیں۔۔۔اگرقومی خزانے کی اس طرح حفاظت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے ذاتی مال وا
سباب کی کرتے ہیں۔۔۔تو ملک کا سیاسی نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا
ہے۔۔۔عوام کے منتخب نمائندوں کی عزت و وقار بڑھ جاتا ہے اور ان کی گرفت
تمام اداروں پہ مضبوط ہو جاتی ہے۔۔۔۔اس طرح عوامی ترقی کا خواب ان کی شراکت
سے شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔۔۔۔۔
لیکن ملک میں کرپٹ بیوروکریسی کا راج ہو اور ملک کے ادارے بلدیہ سے لے کر
تجارتی ادارے، فوڈ کنٹرول، صحت کے ادارے،بر آمد، در آمد کا نظام، ٹیکس کا
نظام، صنعتی نظام، نظام زراعت، یہ تمام ادارے کرپشن اور اقربا پروری کی
آماہ جگاہ بن چکے ہوں۔۔نااہلوں اور سفارشیوں کا گڑھ بن چکے ہوں۔۔۔تو نہ تو
گلی ومحلے کے مسائل حل ہوں گے۔۔۔۔نہ صحت کے مسائل حل ہوں گے۔۔عوام ہر طرف
سے بد انتظامی، شوت خوری اور بے انصافی کے ایک ایسے شکنجے میں کس دئیے جا
تے ہیں۔۔۔۔۔تو پھر ان مسائل کے انبار میں ایک جاہل اور پسماندہ آبادی اپنے
علاقے کے بد قماش مالی طاقتوروں کو الیکشن میں ووٹ اس لئے دیتے ہیں کہ وہ
ان کے وقتی مسائل کو حل کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔۔۔۔ کرپٹ اور نااہل بیورو
کریسی مسائل پھیلاتی ہے۔۔۔۔ اور کرپٹ اور نااہل سیاستدان اس سے فائدہ اٹھا
کر عوام کو جھوٹے دلاسے دے کر منتخب ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور پھر اس کرپٹ
بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ سے۔۔۔۔ہر ادارہ زبوں حالی کی تصویر
پیش کرتا ہے۔۔۔لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم ہو جاتا جس سے پورا ملک تباہی و
بربادی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔اگر سیاسی نظام درست نہیں ہو گا۔۔۔ملک کا
کوئی ادارہ درست نہیں ہو سکتا۔۔۔۔سیاسی نظام کرپٹ ہو گا تو ہرا دارے کو
کرپٹ بنا دے گا۔۔۔۔سیاسی نظام دیانتدار اور محب وطن ہاتھوں میں ہو گا تو ہر
ذیلی اداہ دیانتدار اور محب وطن لوگوں پہ مشتمل ہو گا۔۔۔۔۔آج ہمارے معاشرے
کی حالت زار ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔۔۔۔نااہل اور کرپٹ سیاسی ایلیٹ اور
بیورو کریسی کی ملی بھگت نے گذشتہ ستر سال میں ملک کے ہرا دارے کو کمزور
اور انتشار کا شکار کر کے رکھ دیا۔۔۔۔۔سیاست دانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی
خاطر سیاسی اداروں کو کبھی مضبوط نہیں ہونے دیا۔۔۔۔قومی خزانے لوٹنے کے طرح
طرح کے طریقے ایجاد کئے گئے۔۔۔دفاع کے نام پہ ملکی معیشت کو کمزور کیا
گیا۔۔۔۔تعلیمی نظام فرسودہ، صحت کا نظام گھٹیا، تجارت خسارے میں، اہم ترین
قومی صنعتی و تجارتی ادارے دیوالیہ، ماحولیات کی تباہی اور صاف پانی سے
محرومی، سینی ٹیشن کے فرسودہ نظام سے بیماریوں کی یلغار۔۔۔۔نتیجہ یہ ہے
موجودہ اور آنے والی نسلوں کا مستقبل ایک ایسی کرپٹ ’استحصالی مافیہ‘‘کے
ہاتھوں میں گروی رکھا جا چکا ہے۔۔۔جسے صرف اپنے مال و زر سے دلچسپی
ہے۔۔۔اگر قومی وملکی ادارے اس’استحصالی مافیہ‘‘ کے استحصالی مقاصد کے تابع
ہیں تو سب کچھ ٹھیک ہے۔۔۔ اس’استحصالی مافیہ‘‘ نے اپنے آپ کو اس قدر مضبوط
کر لیا ہے کہ ہر ادارہ انہوں نے اپنی مرضی و منشاء کے تابع کر دیا ہے۔۔۔اگر
کوئی شخص یا ادارہ ان کے استحصال کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے
تو یہ’’استحصالی مافیہ‘‘ اسے راندہ درگاہ قرار دے کر اسے ’’جمہوریت دشمن‘‘
کا خطاب عطا کر کے گلی کوچوں میں جاہل اور بے شعور عوامی مجمعوں میں ان کی
مٹی پلید کرتی ہے۔۔۔اور اس طرح سے ہر اٹھنی والی آواز کو دبا دیا جاتا
ہے۔۔۔۔’استحصالی مافیہ‘‘ نے ہر ادارے کو اس انداز میں ڈھال لیا ہے کہ ایک
بہترین سیاسی نظام کو چلانے والی لیڈرشپ عوامی سطح سے اوپر نمودار ہی نہ ہو
سکے۔۔۔ ۔۔۔اس کی ترتیب یہ ہے کہ سب سے پہلے ضلع و تحصیل سے لے کر مرکز تک
ہر ادارے میں کرپٹ اور نا اہل من پسند بیرو کریٹس کو بٹھا دیا جائے اور پھر
نتیجہ عوامی مسائل اور معاشرے کی زبوں حالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔۔۔۔اب
جب ماحول تیار ہو جاتا ہے تو پھر ہر ضلع اور وارڈ میں یہ ’استحصالی مافیہ‘‘
نمودار ہوتی ہے،اپنی خاندانی پارٹیاں تشکیل دے کر لوگوں سے ان ہی مسائل کو
حل کرنے کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔۔۔۔اپنی لوٹی ہوئی دولت کو بے دریغ لٹاتے
ہیں۔۔۔اور پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔الیکشن کے اس تمام
طریقہ کار کی نگرانی کرنے والے اداروں کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ کون کس
طرح منتخب ہوا، کیونکہ وہاں اس ’استحصالی مافیہ‘‘ ہی کے نمائندے موجود ہوتی
ہیں۔۔۔اس طرح ہر سطح پہ کوئی ادارہ کسی سطح کی کوئی آئینی ذمہ داری پوری
نہیں کرتا سب اس ’استحصالی مافیہ‘‘ کے معاون بنتے ہیں اور اس طرح ’استحصالی
مافیہ‘‘ مختلف شکلوں میں ملک پہ مسلط رہتی ہے۔۔۔۔سیاسی نظام کی اس ناکامی
اور ملکی اداروں کا ناکارہ پن کی اصل وجہ یہی ’استحصالی مافیہ‘‘ ہے۔۔۔اس سے
چھٹکارے کے لئے ضروری ہے کہ اس ’استحصالی مافیہ‘‘ کے طریقہ واردات کو سمجھا
جائے۔۔۔اور ایسی اجتماعی جدو جہد کو یقینی بنایا جائے جس سے ان کے استحصالی
گٹھ جوڑ کو توڑا جائے۔۔۔اور ملک کے اداروں کے حقیقی آئینی اور قانونی کردار
کو یقینی بنانے کے لئے حقیقی جمہوری نظام کو تقویت دی جائے۔۔۔۔لیکن حقیقی
جمہوری کلچر کے لئے ’استحصالی مافیہ‘‘ کی بنائی ہوئی خاندانی پارٹیوں اور
گروپوں سے قوم کو نجات دلانا پڑے گی۔۔۔اور حقیقی عوام دوست جمہوری سیاسی
جماعتوں کو فروغ دینا پڑے گا۔۔۔جن کی جڑیں عوام میں ہوں۔۔۔اور عوام ہی سے
دیانتدار اور محب وطن اور اہل قیادت ابھر کر سامنے آئے اور ملک کے سیاسی
نظام کی بھاگ ڈور سنبھالے۔۔۔ |