اخبارات میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک دن
میں ڈالرکی قیمت میں ساڑھے چارروپے کے اضافے نے کرنسی مارکیٹ کے ساتھ ساتھ
معیشت کوبھی ہلاکررکھ دیاہے۔سوموارکے روزاوپن مارکیٹ میں ڈالرایک سوبارہ
روپے سے ایک سوتیرہ روپے تک فروخت ہوا۔جب کہ ڈالرکاانٹربینک ریٹ ایک سودس
روپے تھا۔گزشتہ روزانٹربینک میں ڈالرکاریٹ ایک سواٹھارہ سے شروع
ہوا۔جوبعدمیں ایک سوپندرہ روپے پرآگیا۔اسی طرح اوپن مارکیٹ میں صبح ڈالرکی
قیمت ایک سوبیس روپے رہی جوشام کوایک سوسولہ روپے پربندہوئی۔ایک روزمیں
ڈالرمیں انٹربینک ریٹ میں سات روپے تک اضافہ ہوا۔جب کہ مجموعی طورپرگزشتہ
روزکی نسبت ساڑھے چارروپے بڑھ گئی۔اسی طرح اوپن مارکیٹ میں ڈالرکی قیمت میں
سات روپے اضافہ ہوا۔ذرائع کے مطابق ملکی ایکسپورٹ،ترسیلات زرمیں کمی
اورامپورٹ بل میں مسلسل اضافے سے روپے پردباؤمزیدبڑھ جائے گااورڈالرکی قیمت
میں اضافہ ہوگا۔اس وقت پاکستان کی درآمدات ترپن ارب ڈالراوربرآمدات بیس ارب
ڈالرہیں۔ترسیلات زرانیس ارب ڈالرسے کم ہوکرسترہ ارب ڈالررہ گئی ہیں۔اس طرح
سولہ ارب ڈالر خسارے کاسامناہے۔جس میں سے ہمارے پاس چودہ ارب ڈالرکے
زرمبادلہ کے ذخائرتھے۔جب کہ ہم نے بیرونی قرضوں کی مدمیں سترہ ارب ڈالر ادا
کرنے ہیں۔اب سترہ ارب ڈالرکی ادائیگی کے لیے چودہ ارب ڈالرزرمبادلہ کے تمام
ذخائراستعمال ہوں گے اورپھربھی تین ارب ڈالرکی ضرورت ہے، جسے پوراکرنے کے
لیے صرف روپے کی قدرمیں کمی اورڈالرکی قیمت میں اضافے والی آپشن ہی رہ جاتی
تھی جوکہ سرکارنے استعمال کی اورمارکیٹ سے ڈالرکی خریداری کی گئی۔اس طرح
ڈالرکی قیمت میں اضافہ ہوا۔ماہراقتصادیات ڈاکٹرقیص اسلم نے ایک قومی
اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہماری امپورٹ میں مسلسل اضافہ اورایکسپورٹ
میں کمی ہورہی ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زرمیں دوارب
ڈالرکی کمی ہوئی ہے۔جوتشویشناک ہے ۔ انہوں نے تجویزدی کہ سٹیٹ بینک فوری
طورپرصورت حال کانوٹس لے کرمداخلت کرے اورڈالرکی قیمت کومنجمدکرے۔دوسری
صورت میں اس کی قیمت میں مزیداضافہ ہوگا۔کراچی سے بزنس رپورٹرکے مطابق
بیرونی کھاتوں کے بلندخسارے اورزرمبادلہ کے ذخائرمیں ودیگرعوامل کی وجہ سے
زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں پاکستانی روپے کی قدرپھرگرگئی۔فاریکس ایسوسی ایشن
پاکستان کے صدرملک بوستان نے بتایا کہ بیرونی قرضوں کی وجہ سے زرمبادلہ
منڈیاں مشکلات کاشکارہوئی ہیں۔کاروبارکے دوران ڈالرکوایک سوسولہ روپے پربھی
دیکھاگیا اورصورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے بعض چھوٹے بینکوں نے ڈالرکے
انٹربینک ریٹ ایک سواٹھارہ روپے اورایک سواٹھارہ اشاریہ پانچ روپے بھی کوٹ
کیے۔انہوں نے بتایا کہ ڈالرکے انٹربینک میں اچانک اضافہ سے اوپن مارکیٹ میں
بحرانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔جہاں ایک گھنٹے سے زائدوقت تک امریکی ڈالرکی
لین دین روک دی گئی ۔لیکن تقریباًساڑھے بارہ بجے دوپہراوپن مارکیٹ میں
سرگرمیاں بحال ہوئیں اوراوپن مارکیٹ میں ڈالرایک سوچودہ اشاریہ پانچ تاایک
سوپندرہ اشاریہ پانچ روپے میں ٹریڈ کیاگیا۔ملک بوستان نے بتایا کہ روپے کی
قدر میں غیرمتوقع طورپرکمی کے سبب اوپن کرنسی مارکیٹ میں معمول کی لین دین
نوے تاچھیانوے فیصدکم ہوگئی اورایکس چینج کمپنیوں میں امریکی ڈالرکی کوئی
بڑی لین دین نہیں ہوئی۔ان کاکہناتھا کہ حکومت اپنی عوام پرہمیشہ چھپ
کروارکرتی ہے۔اپنی عوام پردشمن کے ڈرون حملے کی طرح وارکیاگیا۔مشیرخزانہ
مفتاح اسماعیل نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن نہ لینے کااعلان کیاتھا
لیکن اب آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پرہی روپے کی قدرغیراعلانیہ طورپرکم کی
گئی۔انہوں نے بتایا کہ ڈالر بحران پرفاریکس ایسوسی ایشن نے فوری طورپراسٹیٹ
بینک حکام سے رابطہ کرکے انہیں کرنسی مارکیٹ کی بحرانی کیفیت سے متعلق آگاہ
کیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی اردوسروس کی ویب سائٹ پرلکھا ہے کہ (ڈالرکی
قدربڑھنے کے بعد) کرنسی کاکاروبارکرنے والوں اورماہرین نے اس شک کااظہارکیا
کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے
گئے وعدے ہیں۔سٹیٹ بینک کی جانب سے یہ موقف اختیارکیاگیا کہ ڈالرکی بڑھتی
ہوئی قیمت کی وجہ مارکیٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی طلب ہے۔لیکن سٹیک ہولڈرزنے
اس وجہ کوزیادہ قابل قبول نہیں سمجھا۔برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے
ہوئے ایکس چینج کمپنیزایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفرپراچہ نے کہا کہ بین
الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف )اس جانب اشارہ کرتارہا ہے کہ ڈالرکی
موجودہ قیمت اس کی قدرکی صحیح عکاسی نہیں کرتی اوراس کے مطابق اسے ایک
سوبیس روپے سے ایک سوپچیس روپے تک لے جاناہوگا۔ظفرپراچہ نے حکومتی اہلکاروں
کواس پر کافی تنقیدکانشانہ بنایااورکہا کہ وہ غیرملکی دورں میں بین
الاقوامی اداروں سے وعدے کرکے آجاتے ہیں لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں
ہوتی کہ وہ عوام کوسچ بتاسکیں۔ڈالرکی قیمت میں پانچ فیصداضافے کانتیجہ
مہنگائی کے طوفان کی صورت میں آئے گا۔ظفرپراچہ نے مزیدکہا کہ اس کااثرمختلف
جگہ پرنظرآئے گا ۔ ماہراقتصادیات صفیہ آفتاب نے برطانوی نشریاتی ادارے
کوبتایا کہ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں واضح طورپردرج تھا کہ پاکستان
کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں بہت کمی آگئی ہے جس سے انہیں قرضوں کی ادائیگی میں
دشواری پیش آسکتی ہے۔ان کاکہناتھا کہ میرا خیال ہے ڈالرکی قیمت میں یہ
اضافہ سٹیٹ بینک کی جانب سے کیاگیا ہے۔جیساانہوں نے دسمبرمیں کیاتھا۔صفیہ
آفتاب نے کہا کہ پاکستان کی معیشت درآمدات پرانحصارکرتی ہے۔ڈالرکی قدرمیں
اضافے کے بعدخیال کیاجاتاہے کہ شایددرآمدات کچھ کم ہوجائیں اوربرآمدات میں
اضافہ ہولیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔صفیہ آفتاب نے کہا کہ ڈالرکی
بڑھتی ہوئی قیمت کااثرعام عوام پرآسکتا ہے۔خاص طورپرجب پٹرول کی قیمت میں
اضافہ ہواوریہ اضافہ مہنگائی ساتھ لے کرآئے گا۔ادھرظفرپراچہ نے بھی اسی
موقف کا اظہار کیا اورکہا ہم درآمدات پرانحصارکرتے ہیں اورحکومت کوایساکوئی
بھی فیصلہ لینے سے پہلے سٹیک ہولڈرزسے بات کرنی چاہیے۔کیوں کہ اس سے سب
متاثرہوتے ہیں ۔ڈالرکی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے ملک سے سرمایہ چلاجاتا ہے
اورسرمایہ داریہاں آنانہیں چاہتے اوریہ ہرطرح سے نقصان دہ ہے۔اسی برطانوی
نشریاتی ادارے کی اسی حوالے سے ایک اوررپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستانی روپے
کی قدرمیں کمی کابراہ راست اثران اشیاء کی قیمتوں پرہوتا ہے جوبیرون ملک سے
درآمدکی جاتی ہیں۔ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتاہے۔اس کے علاوہ
پاکستان پرآئی ایم ایف اورعالمی بینک کے قرضوں کاحجم بھی بڑھ جاتا ہے ۔
مثال کے طورپرایک ڈالرسوروپے کے برابرہواورایک ارب ڈالرقرضہ ہوتواس حساب سے
سوارب روپے قرضہ ہوگا لیکن ڈالرایک سودس روپے کاہوجائے تو قرضہ بھی اسی
حساب سے بڑھ جائے گا۔دوسری جانب روپے کی قدرمیں کمی سے ملکی برآمدات کرنے
والوں کوبظاہرفائدہ ہوتاہے۔چونکہ برآمدکرنے والوں کو اپنی چیزکی زیادہ قیمت
مل رہی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پیداواری لاگت میں رہتے ہوئے اشیاء کی قیمت
میں کمی کرسکتاہے۔اس طرح عالمی منڈی میں برآمدات بڑھ جاتی ہیں اوراس سے
جاری کھاتے اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم ہوجاتاہے۔کراچی سے شائع ہونے والی
ایک قومی اخبارمیں اس حوالے سے ایک خبراس طرح شائع ہوئی ہے کہ حکومت نے
عالمی مالیاتی اداروں کی فرمائش کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے منگل کوروپے
کی قدرپانچ فیصدگرادی۔قدرمیں گراوٹ کو برآمدکنندگان کادباؤ اورٹیکس ایمنسٹی
سکیم کامیاب بنانے کاطریقہ قراردیاجارہا ہے۔روپے کی قدرمیں کمی کافائدہ
بیرون ملک چھپائی گئی خفیہ دولت ظاہرکرنے والوں کوہوگا۔روپے کی بے توقیری
کی وجہ سے ملک پربیرونی قرضوں کے بوجھ میں لگ بھگ ایک ہزارارب روپے سے
زائدکااضافہ ہوگیا۔جب کہ بیرونی قرض کا حجم کم وبیش نواسی ارب
ڈالرہے۔ڈالرمہنگاہونے سے ملک میں مہنگائی کاطوفان آنے کاخدشہ بڑھ گیا
اورافراط زرکی شرح آٹھ فیصدکے قریب ہونے کاخدشہ بھی ہے۔ہرماہ درآمدات کی
مدمیں اضافی پچیس ارب خرچ کرناپڑیں گے۔روپے کی قدرمیں کمی ایسے موقع پر
ہوئی جب ایک ماہ چندروزبعدستائیس اپریل کوممکنہ طورپر نوازلیگ کی حکومت
آخری بجٹ پیش کرے گی۔بے توقیری کاشکارروپے کو اسٹیٹ بینک یاحکومتی اداروں
کی جانب سے سنبھالادینے کی کوشش نہ کی گئی ۔ عالمی بینک کاکہناتھا کہ روپے
کی قدرمیں کمی پاکستان کی معاشی نموکے لیے مفیدہوگی۔ذرائع کے مطابق حکومت
نے وزارت خزانہ کے ذریعے صرف پانچ فیصدکمی کی۔روپے کی بے توقیری سے ماضی کی
طرح عوام ایک بارپھر مہنگائی طوفان آنے کے خوف سے دوچارہیں۔ڈالرمہنگاہونے
سے آئندہ ماہ بجلی پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے اورکرائے بڑھنے کے خدشات
ہیں۔ادوات، خشک دودھ، دالیں، چائے،برقی آلات ومصنوعات، خام مال، میک اپ
کاسامان اورگاڑیاں و دیگر درآمدات بھی مہنگی ہوں گی۔تین ماہ کے دوران روپے
کی قدرمیں دس فیصدکمی کی وجہ سے رواں ماہ کے آخرمیں پٹرول وذیزل کے نرخ تین
سے چارروپے جب کہ خوردنی تیل آٹھ روپے لیٹر، جب کہ دالوں کے نرخ پانچ روپے
کلوبڑھ سکتے ہیں۔چائے کی پتی چالیس روپے کلوجب کہ خشک دودھ تیس روپے کلوتک
بڑھ سکتاہے۔حکومت کوروپے میں کمی کافائدہ ٹیکس ڈیوٹیزکی وصولی کی صورت میں
ہوگا۔جس کے نتیجے میں ایف بی آرکی نااہلی پرپردہ پڑجائے گا۔عالمی اداروں کو
کامیاب اصلاحات وحکومتی کاوش کے نتیجے میں وصولیوں میں اضافے کی نویدسنائی
جائے گی۔روپے کی قدرمیں گراوٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹیکسٹائل و آئل
سنٹرنے خوب سرمایہ کاری کرلی ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع نے منگل کوروپے کی
قدرمیں کمی کے پیچھے حکومت کاہاتھ ہونے کی تصدیق کردی ہے ۔ اخبار سے
گفتگوکرتے ہوئے سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹروقارمسعودنے کہا کہ
ادائیگیوں کاتوازن ناقابل برداشت ہوتاجارہا تھا۔ ڈالرکی قدرمیں
تھوڑاتھوڑااضافہ وقت کاتقاضاہے۔پاکستان کے معاشی حالات اچھے ہیں پالیسی
ایکشن خراب رہے ہیں۔اب اس کے برے اثرات میں مہنگائی بڑھے گی۔معاشی امورکے
ماہر اورسابق مشیرخزانہ سلمان شاہ کاکہناتھا کہ ڈالرکامہنگاہوناغیرمتوقع
نہیں۔وفاقی حکومت پردباؤبہت زیادہ تھا ۔زرمبادلہ کے ذخائرتیزی سے گررہے
ہیں۔حکومت زرمبادلہ کے ذخائربڑھاسکتی تھی نہ سکوک بانڈزجاری کرنے کی پوزیشن
میں ہے۔اسی لیے ڈالرمہنگاہوناہی تھا۔اس وقت حکومت بڑھتے ہوئے جاری کھاتے
وتجارتی خسارے کے دفاع کی پوزیشن میں بھی نہیں۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری
بیان میں شرح مبادلہ کوحقائق پرمبنی قراردے دیاگیا ہے۔منڈیوں کی نگرانی
کرتے رہیں گے ،سٹے بازی ہوئی توقابوپانے کے لیے اقدام کریں
گے۔لاہورچیمبرکوڈالرکی قدرمیں اضافے پرتشویش ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کرنسی کی بے قدری کی مندرجہ بالارپورٹس پڑھنے کے
بعدیہ قیاس آرائی کرنامشکل نہیں کہ ہم پالیسی سازی میں کتنے آزاداورکتنے
مجبورہیں۔عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حکومت پاکستان پرروپے کی قدرمیں
کمی کے لیے دباؤسے یہ بات اوربھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری معیشت اب بھی
انہی عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثرہے۔حکومت وقت نے ملک کومعاشی
طورپرآزادوخودمختاربنانے کے اقدامات کاآغازکردیاہے۔موجودہ حکومت کی معاشی
وتجارتی سرگرمیوں کارخ امریکہ نہیں چین کی طرف رہا ہے اوررہے گا۔عالمی
مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشنز سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت
کومستحکم کیاجائے، زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کیاجائے۔ڈالرکی بڑھی ہوئی
قیمت کاحکومت فائدہ اٹھائے۔ ملک میں پڑی ہوئی ضرورت سے زائد گندم
برآمدکردے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کرنے میں مددملے گی۔ہمیں
اسلامی جمہوریہ پاکستان کومعاشی طورپراتنامضبوط اورمستحکم ضرور بنانا ہوگا
کہ کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ ہمیں کوئی بھی مشورہ یاڈکٹیشن نہ دے
سکے۔سی پیک کی تکمیل کے بعدایساہی ہوگا۔ |