آپ میں سے ہر ایک بلا تفریق رنگ، ذات، نسل یا طبقاتی
تقسیم کے اس ملک کا برابر حقوق و فرائض رکھنے والا شہری ہے‘‘آیئے! اس یوم
پاکستان کے موقع پر ہم پاکستان کے اساسی تصور سے تحریک حاصل کریں اور عزم
مصمم کریں کہ اپنے اجداد کے خوابوں کو ہم نے حقیقت میں بدلنا ہے، ہم نے
اپنے ماضی سے ایک ترقی پسند، معتدل اور تحمل و برداشت کے حامل معاشرے کا
مستقبل تخلیق کرنا ہے23 مارچ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت
رکھتا ہے۔ اس دن منٹو پارک (موجودہ گریٹر اقبال پارک) میں برصغیر کے
رہنماؤں نے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے ایک نئے وطن کے خواب کو
تعبیر دینے کے لئے ایک قرارداد منظور کی یہ قرارداد دراصل ایک عہد نامہ تھا
جس پر وہاں موجود لوگوں کے ساتھ ساتھ برصغیر میں بسنے والے آزادی کے
متوالوں کے دلوں نے دستخط کئے اور جذبوں نے گواہی دی کہ وہ اس قرارداد کو
زندگی کا منشور بنا کر ہر مشکل کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے، عہد نامہ
اتنا حسین تھا اور اس کے تناظر میں نظر آنے والا مستقبل کا منظر نامہ اتنا
تابناک تھا کہ سب نے اس پر دل و جان نچھاور کرنے کا اعلان کر دیا کیوں کہ
وہ ایک ایسی آزاد سر زمین کے حصول کی طرف بڑھ رہے تھے جو ان کے بچوں کے
روشن مستقبل، وقار اور منفرد پہچان کی حامل تھی جہاں انہیں برابری کی سطح
پر حقوق ملنے والے تھے، جہاں ذات پات اور دیگر تفریقات سے چھٹکارا حاصل
ہونے والا تھا، جہاں سب کو صلاحیتوں کے مطابق ترقی کے مواقع میسر ہونے والے
تھے اور اس کی سب سے بڑھ کر اہمیت یہ تھی کہ عہد نامہ انہیں دنیا میں ایک
آزاد قوم کے لقب سے نوازنے والا تھا، انسان فطری طور پر آزاد منش مخلوق ہے،
اس کی جبلت اسے فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے پر اکساتی ہے مگر
ماحول اسے مختلف اور مصنوعی قوانین میں جکڑے رکھتا ہے جو تہذیب کے نام پر
اس پر لاگو کئے جاتے ہیں، ایک منظم معاشرتی زندگی کے لئے وہ انہیں قبول کر
لیتا ہے مگر اسے غلام ہونا یا کہلانا کسی طور پسند نہیں، اسی لئے آزادی کی
خواہش میں وہ جان سے گزرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا یعنی آزادی کے سامنے جان
کمتر حیثیت رکھتی ہے، پاکستان کو حاصل کرتے وقت یہاں کے باسیوں نے اسی
منشور اور نعرے پر یقین کر کے فیصلے کی باگ ڈور عظیم رہنما قائداعظم کے
ہاتھ تھما دی، انہیں یہ احساس تھا کہ یہ رہنما انہیں بیچ راہ چھوڑ کر نہیں
جائے گا بلکہ منزل تک ان کی رہبری کرے گا اس لئے انہوں نے اس کے حکم پر
سرنگوں کرتے ہوئے تن من کی قربانی کا اعلان کر دیا،جب شیر بنگال مولوی فضل
حق نے یہ قرارداد پیش کی اور اسے قراردادِ پاکستان کے نام سے منظور کر لیا
گیا تو مخالفین نے نہ صرف اس قرارداد کا مذاق اڑایا بلکہ اسے ہوائی قلعوں
سے تعبیر کیا۔ کبھی کبھی دشمن کا طنز اور وار انسان اور قوموں کے لئے نیک
شگون بن جاتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ ان تلخ جملوں نے آزادی کے
متوالوں کا جوش و ولولہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور رہنماؤں کو بھی
زیادہ متحرک کر دیا۔ اس قرارداد میں پاکستان کا نام تجویز ہو چکا تھا، خواب
نقشے کی طرح ہر شخص کے دل کی جیب میں رکھا ہوا تھا، صرف حالات و واقعات کو
بس میں کرنا مقصود تھا۔ نقشے کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے والے راستے کی کسی
کٹھنائی کو خاطر میں نہ لائے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف سات سالوں کی
جدوجہد سے دنیا کے نقشے پر ایک خوبصورت ملک کا اندراج ہو چکا ہے جس میں
مختلف صوبائی وحدتوں نے ایک پرچم تلے جمع ہو کر ایک ملک میں رہنے کے فیصلے
پر تصدیق کی مہر لگائی، نصف صدی سے زیادہ سالوں کے دوران ہم نے بہت کچھ
حاصل کر لیا اور بہت کچھ کھو بھی دیا مگر پاکستان نے ہر محاذ پر ترقی کے
گراف کو زیادہ بہتر کیا ہے، جمہوریت نے اب اس سمت سفر آغاز کر دیا ہے جس کو
بنیاد بنا کر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا یعنی جمہور کی حکومت اور جمہور کی
فلاح و بہبود کو ترجیحی سطح پر رکھنا، ان77سالوں میں وقت نے ہم سے کئی کھیل
کھیلے، ہمیں مختلف حوالوں سے آزمایا، عالمی قوتوں نے ہمارے جذبہ جنوں کو
دبانے اور ہمیں غلام بنانے کی بڑی کوشش کی، اپنوں اور پرائیوں نے مل کر
ہمارے قومی وقار کو مجروح کرنے کے لئے ہماری زمین کو لہولہان کیا مگر ہمارے
جذبوں کو تسخیر نہ کر سکے، ہم آج بھی23مارچ کے جذبے سے معمور ہیں، غیروں کے
رویے سے ہراساں ہونے کی بجائے ہم نے چیلنج قبول کر کے پوری دنیا پر ثابت
کیا ہے کہ ہم غیر جمہوری اور انتہاپسند طاقتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں
گے، آج بھی منٹو پارک جو گریٹر اقبال پارک کا روپ دھار چکا ہے، کے قریب سے
گزرتے ہوئے وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں، وہ نعرہ مستانہ فضاؤں میں گونجتا
محسوس ہوتا ہے، خواب دیکھتی ہوئی آنکھیں مینار کے روشندانوں سے جھانکتی اس
سنہری دن کی یاد دلاتی ہیں جو ہماری قومی زندگی میں فیصلے کا دن تھا، جس دن
ہم نے ایک بڑا چیلنج قبول کیا اور پھر اسے حاصل کر کے دکھایا مینارِ
پاکستان ہمارے عزم کی علامت ہے اور وہ پوری آن اور بان کے ساتھ کھڑا ہمیں
اس روشن صبح کے لئے جدوجہد پر اکساتا ہے جو ابھی ہماری راہ دیکھ رہی ہے، ہم
نے رات کے اندھیرے کو اپنی باطنی قوت سے شکست دے کر دستک دیتی نورانی صبح
کے لئے دَر وَا کرنا ہے، یہ مینار ہمیں یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ ہم نے اس
ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے قائداعظم کے افکار پر عمل کرنا
ہوگا،قوم آج یکجہتی، وحدت اور بہتر مستقبل کے یقین کے جس جذبے کے ساتھ یوم
پاکستان منا رہی ہے اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ وہ خواب جو
بانیان پاکستان نے دیکھا تھا اور گزشتہ کئی دہائیوں تک وہ تشنہ تعبیر رہا
اب حقیقت میں ڈھل رہا ہے، 23مارچ 1940ء کو مسلمانان برصغیر کے لئے الگ وطن
کے قیام کی راہ ہموار کرنے والی جو قرارداد منظور ہوئی تھی وہ ان تاریخی
واقعات کا منطقی نتیجہ تھی جو پچھلی کئی دہائیوں سے وقوع پذیر ہو رہے تھے۔
یعنی 23مارچ کی قرارداد پاکستان کوئی اچانک واقعہ نہ تھی بلکہ ایک مسلسل
تاریخی عمل کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا حال بھی اس قرارداد سے مربوط
اور اس کے زیراثر ہے۔ زندہ قومیں نہ صرف اپنے ماضی کے ساتھ رشتہ استوار
رکھتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ان کے بہتر حال اور مستقبل کی صورت
گری کرنے والی قربانیوں سے آگاہ رکھتی ہے، ماضی سے یہی رابطہ قوموں کو وہ
جذبہ اور استعداد دیتا ہے جس سے وہ اپنے قومی اہداف اور مقاصد کے حصول کو
یقینی بناتی ہیں،قرارداد پاکستان کا متن برصغیر کے ان مخصوص سیاسی، معاشی
اور سماجی حالات کو بھی بیان کرتا ہے جن کے زیراثر مسلم سیاسی قیادت ایک
تدریجی ارتقا سے گزرتی ہوئی اس فیصلے تک پہنچی، جب مسلمانان ہند کا سیاسی
شعور اس حقیقت کو سمجھ گیا کہ عالمی سطح پر برطانوی سامراج کی گرفت کمزور
ہونے کے باعث برصغیر کا سیاسی اور دستوری نقشہ تبدیل ہونے لگا ہے تو انہوں
نے اس امر کا فیصلہ کیا کہ مسلمان اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے اپنے لائحہ
عمل پر نظرثانی کریں، اس سے پہلے اگر مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان کے مستقبل
کے آئینی اور دستوری بندوبست میں اپنی مناسب نمائندگی کے حصول کی کوئی امید
بھی تھی تو وہ نہرو رپورٹ اور سائمن کمیشن نے ختم کر دی کیونکہ اب حالات
کثیر قومی ہندوستان کی بجائے ہندو غلبے کے حامل ملک کے قیام کی طرف بڑھ رہے
تھے۔مغربی جمہوریت کے تصور کے مطابق ہونے والے آئینی بندوبست میں جہاں
فیصلہ عددی اکثریت کی بنا پر کیا جاتا تھا، نہرو جیسے کانگریسی لیڈروں نے
مسلمانوں کے الگ قوم کے طور پر کئے جانے والے مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا
تھا، جس بات نے مسلمانوں کے مسائل کو مزید پیچیدہ اور گمبھیر کر دیا تھا وہ
مسلمانوں کے پاس اس جامع بیانیے کی کمی تھی جو تاریخی پس منظر کے ساتھ
مسلمانوں کے اسلام کے اصولوں پر مبنی آئیڈیل کو اس طرح بیان کرتا ہو کہ ان
کی ثقافتی و ملی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کا ضامن ہو۔اس التباس کا پہلی
مرتبہ خاتمہ اس وقت ہوا جب 1930ء میں الہ آباد میں ہونے والے آل انڈیا مسلم
لیگ کے پچیسویں سالانہ اجلاس میں علامہ محمد اقبال نے اپنا خطبہ پیش کیا۔
اقبال نے مسلمانوں کی الگ شناخت کے سوال کو اپنی علمی بصیرت اور نکتہ رس
دانش کے ساتھ ہمیشہ کے لئے طے کر دیا اور شافی استدلال فراہم کر دیا کہ
مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔ یہ خطبہ مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کی
بیداری اور سیاسی فکر کی نشاۃ نو کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ علامہ نے مسلمانوں
کو سیاسی جدوجہد کا پیغام دیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اب مسلمانان ہندکی سیاسی
جدوجہد میں ان کے تہذیبی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی تحفظ کی آواز ایک
ناگزیر عنصر کے طور پر شامل ہو گئی،اگر مسلمانوں کے ذہن میں ان کے سیاسی
عزم اور اہداف کے بارے میں کوئی غلط فہمی موجود بھی تھی تو وہ 1937ء کے
انتخابات کے بعد قائم ہونے والی کانگریس وزارتوں سے بالکل ختم ہو گئی جو
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہوئے تھے، 1937ء سے 1939ء کے دوران کا
عرصہ ہندوستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور کہلاتا ہے جو کانگریس وزارتوں کا
دور تھا، مسلمانوں کے لئے اب یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ اگر وفاقی
سطح پر کانگریس کا اقتدار قائم ہو گیا تو اس کے نتائج مسلمانوں کے لئے کیا
ہوں گے کیونکہ کانگریس حکومت کا واحد ایجنڈا مسلمانوں کی ہر تہذیبی شناخت
کو ختم کرنا تھا، اب ہندو ذہن مسلمانوں کے سامنے بالکل طشت ازبام ہو چکا
تھا۔’’مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے‘‘ کے مصداق کانگریس وزارتوں
کی مسلمان دشمنی نے مسلمانوں میں الگ شناخت کی تڑپ اور آزاد مملکت کے قیام
کی جدوجہد کے جذبے کو بیدار کر دیا۔ خطبے کا حصہ ہے۔ قائد اعظم ؒ نے
فرمایا:’’اگر ہم پاکستان کی عظیم ریاست کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں
لوگوں خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی بہبود اور فلاح پر توجہ مرکوز کرنا ہو
گی۔ آپ میں سے ہر ایک بلا تفریق رنگ، ذات، نسل یا طبقاتی تقسیم کے اس ملک
کا برابر حقوق و فرائض رکھنے والا شہری ہے۔‘‘آیئے! اس یوم پاکستان کے موقع
پر ہم پاکستان کے اساسی تصور سے تحریک حاصل کریں اور عزم مصمم کریں کہ اپنے
اجداد کے خوابوں کو ہم نے حقیقت میں بدلنا ہے ہم نے اپنے ماضی سے ایک ترقی
پسند، معتدل اور تحمل و برداشت کے حامل معاشرے کا مستقبل تخلیق کرنا
ہے،۔۔۔۔۔۔ |