نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی اور اسحاق دار کی
پاکستان سے مفروری کی وجہ سے پاکستانی عوام کو معاشی طور پر مسلسل جھٹکے
دئیے جا رہے ہیں پٹرول کی قیمت میں نواز شریف کی نااہلی سے لے کر ابتک ہوش
رُوبا اضافہ ہو چکا ہے۔ پٹرول ایک ایسی چیز ہے جس کا اثر فوری طور پر اشیاء
کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پوری قوم کو بُھگتنا پڑتا ہے۔ یوں پٹرول
کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراط سے کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ عام
آدمی کی قوت ِ خرید کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کی
وجہ سے پوری قوم کو سزا وہ بھی غریب عوام کو جو پہلے ہی ستر فی صدسے زائد
خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔اب ڈالر کو پَر لگ گئے ہیں۔ ڈالر کے
ریٹ میں روپے کے مقابلے میں یہ اضافہ اِس بات کا غمازی ہے کہ پاکستان میں
معاشی مینجرز بہتر طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔افراط زر کا سب
سے زیادہ نقصان غریب طبقے کو ہوتا ہے کہ اُن کی قوت خرید کھانے پینے کی
اشیاء کی خرید کے بابت انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ یوں کھانے پینے کی بنیادی
اشیاء دودھ ،روٹی، سبزیاں گو شت وغیرہ اُن کی پہنچ سے دور ہوجاتا ہے۔
حکمران معاشی اشارئیے کی بجائے سپریم کورٹ کے ججز کو ملامت کر رہے ہیں۔
اِسی طرح حکمران اسٹیبلیشمنٹ کو خوب جلی کٹی سُنا رہے ہیں اور یوں حکمران
اپنے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں اور ڈالر، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ
کرکے پوری قوم کو اپنی نا اہلی کی سزا دئے رہے ہیں اور اِص کے ساتھ ساتھ
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دئے رہے ہیں کہ ملکی معیشت کو خود ساختہ
چُنگل میں پھانس کر وہ سب کچھ دھڑن تختہ کر سکتے ہیں۔جب ملک کے حالات اِس
نہج تک پہنچ چکے ہوں تو پھر ظاہری بات ہے کہ کچھ غیر فطری ہونا شروع ہوجاتا
ہے۔ ملک میں ڈالر کا انٹر بینک ریٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 115.007
روپے تک پہنچ گیا جو ایک روز قبل 110روپے 57پیسے تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے
سٹیٹ بینک نے بڑھتے ہوئے ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں کوئی مداخلت نہیں کی۔
ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اضافے کے باعث کرنسی ڈیلرز نے اوپن مارکیٹ میں
ڈالر کی فروخت بند کر دی۔ سٹیٹ بنک نے گزشتہ شب ڈالر کا انٹربنک ریٹ
115.007 روپے مقرر کیا جو پیر کو 110.57 روپے کے انٹربنک ریٹ کے مقابلے میں
4.437 روپے زائد ہے۔ ڈالر کا انٹربنک ریٹ بڑھنے کی وجہ بیرونی قرضوں میں
اضافہ، کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور درآمدات میں اضافہ بیان کی گئی ہے۔ رواں مالی
سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارہ ملک کی جی ڈی پی کے 4.8 فیصد
تک پہنچ گیا ہے جبکہ درآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.3 فیصد اضافہ
ہوا ہے۔ منگل کے روز بینکوں کے اوقات کے آغاز پر ڈالر کا انٹر بینک ریٹ
116روپے ہو گیا جو 118روپے 25پیسے تک پہنچ گیا۔ اس ضمن میں سٹیٹ بینک کے
حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا بینکوں نے ڈالر کے انٹر بینک ریٹ جاری کئے ہیں
جب شام پانچ بجے بینکوں کے اوقات کار بند ہوں گے تو سٹیٹ بینک ڈالر کا ویٹڈ
ایوریج ریٹ جاری کرے گا لیکن رات 9بجے سٹیٹ بینک نے ڈالر کا ویٹڈ ایوریج
ریٹ جاری کیا۔ ملک میں ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اضافے کے ساتھ ہی ایک
تولہ سونے کی قیمت میں 700روپے روپے اضافہ ہو گیا جس سے اس کا ریٹ
56ہزار600روپے سے بڑھ کر 57ہزار300روپے تک پہنچ گیا۔ ڈالر کے انٹر بینک ریٹ
میں اضافے کے ساتھ ہی مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ ملک کی تمام درآمدات کی
ادائیگیوں اور بیرونی قرضوں میں ایک محتاط انداز کے مطابق 800 سے 900 ارب
روپے اضافہ ہو جائے گا۔خصوصاً پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
ڈالر کا انٹربنک ریٹ 115.007 روپے ہونے کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی
قیمت کو آگ لگ گئی اور اس کا ریٹ 111.90 روپے سے بڑھ کر 118 روپے سے 119
روپے تک پہنچ گیا جس سے صرف ایک دن میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی
قیمت فروخت 6.1 روپے سے لیکر 7.1 روپے بڑھ گئی۔ سٹیٹ بنک نے کہا ہے انٹربنک
مارکیٹ میں امریکی ڈالر 115 روپے پر بند ہوا۔ انٹربنک ڈالر کی بلند ترین
سطح 116.25 اور کم ترین سطح 110.60 روپے رہی۔ جولائی تا فروری 2018ئبرآمدات
میں 12.2 فیصد اضافہ ہوا۔ اوورسیز پاکستانیز کی ترسیلات زر میں 3.4 فیصد کی
نمو ہوئی۔ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران ترسیلات زر اور برآمدات میں کمی ہوئی
تھی۔ بیرونی توازن ادائیگی کی صورتحال بھاری درآمدی بل کی بنائپر دباو میں
ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھنے پر زرمبادلہ کی طلب اور رسد کا فرق پیدا ہوا۔
سٹیٹ بنک زرمبادلہ مارکیٹوں کی محتاط نگرانی کرتا رہے گا۔ روپے کی قدر میں
کمی ڈار کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ایک دن میں5جبکہ چند ماہ میں 11 روپے کی
کمی ہوگئی ہے۔ بیرونی قرضے ایک کھرب روپے بڑھ گئے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے
ڈیمانڈ بڑھنے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ ڈالر کے مقابلے میں
روپے کی قدر میں چار فیصد کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ سٹیٹ بنک نے اپنے
بیان میں کہا ہے جولائی 2017 سے فروری 2018 کے دوران جاری خسارہ 10 ارب 82
کروڑ ڈالر رہا۔ مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے ڈالر کی قدر میں اس اچانک اضافے کی
وجوہ سامنے نہیں آسکی ہیں۔ واضح رہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک گزشتہ کئی
مہینوں سے پاکستان پر دبا ڈال رہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی قدر کم کرکے
ڈالر کی شرح مبادلہ کو حقیقت پسندانہ بنایا جائے اور اسے 115 روپے کے لگ
بھگ مقرر کیا جائے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک کا کہنا تھا روپے کی قدر میں
کمی، پاکستان کی معاشی نمو کیلئے مفید ثابت ہوگی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے
وزارت خزانہ کو متنبہ کیا گیا تھا پاکستانی روپے میں کمی کی جائے جس کی وجہ
سے پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں اور بین
الاقوامی قانون کے تحت 3 ماہ کی ادائیگی کے ریزرو سے بھی کم ہو گئے ہیں
عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت سے مارکیٹ میں بے چینی
کی فضا ہے اور ایسی صورت میں سٹیٹ بنک اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے عوام کو
آگاہ کرے روپے کی قدر میں کتنی کمی کی ہے۔
عوام مجبوری کی صورت میں ڈالر خریدیں بصورت دیگر ڈالر خریدنے سے اجتناب
کریں۔حکومت کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کے اعلان میں تاخیر کے باعث زرمبادلہ
کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی ہوئی جو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا باعث
بنی۔ حکومت کے آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے کے فیصلے پر ایک سازش کے تحت
بینکوں کے ذریعے پاکستانی روپے کی قدر گرائی گئی ہے کیونکہ ملک کے بینکاری
نظام کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کی ملکیت ہے۔ پاکستان کا بیرونی شعبہ بحران کا
شکار تھا۔ جاری حسابات کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر
تیزی سے گر رہے تھے۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف نے 15 مارچ 2018 کو
پاکستان کے معاشی مستقبل کیلئے ہولناک امکانات کا اشارہ دیا جو حقیقت سے
بہت دور ہے لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس
تباہ کن اور غیر حقیقت پسندانہ رپورٹ کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر گرنی
شروع ہوئی جبکہ سٹیٹ بنک کے پاس اتنے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں تھے کہ وہ
مارکیٹ میں مداخلت کرتا۔ پاکستان کے بینکاری نظام کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کی
ملکیت ہے جنہوں نے روپے کی قدر گرانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ
حکومت نے معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے دیگر ذرائع سے سرمایہ حاصل کرنے کا
فیصلہ کیا ہے اور عالمی کیپٹل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع
کردی ہیں۔ لیکن عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے لے
تاکہ وہ پاکستان سے اپنے مطالبات منوا سکیں جو اسکے قومی مفاد کے خلاف ہیں۔
|